آئیڈیل معاشرے
تحریر : تجمل حسین ہاشمی
میں اپنی تحریریں 2003ء میں لکھ مختلف اخبارات کے پتوں پر سینڈ کرتا تھا، باقاعدگی سے ان دفتروں میں فون کر کے یاد دہانی کراتا رہا، جب پہلی تحریر ڈیلی اسلام نیوز پیپر میں لگی تو خوشی کی انتہا نہ رہی، لیکن یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ آپ کے قریبی عزیز مایوس کیوں کرتے ہیں، کامیابی کے بعد انسان کو تنقیدی رویہ کا سامنا کیوں رہتا ہے۔ یاد رکھیں مستقل کوشش ضرور رنگ لاتی ہے۔ ایک بات جو اہم ہے کہ آپ زندگی کے میدان میں کوشش کرنا مت چھوڑیں۔ یقینا آپ ہی کامیاب ہوں گے۔ ہمارے ہاں اس وقت ملک کا ہر فرد ذہنی دبائو کا شکار ہے، انٹر نیٹ نے افراد کو زبان تو دی لیکن ساتھ فیک نیوز، بگاڑ، افراتفری بھی دی ہے۔ انسان کا تعلیم یافتہ ہونا یا نہ ہونا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایک کلک پر اپنی پسند نا پسند کا اظہار کرنے میں آزاد ہے، اپنا میسج پوری دنیا کو پہنچا رہا ہے لیکن اس کی آڑ میں دشمن اپنی چالوں میں کامیاب ہے۔ اس وقت فیک نیوز ریاستوں کیلئے چیلنج ہے۔ لیکن کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں ہے لیکن وہاں قانون کی عمل داری یقینی ہے۔ میرٹ پر فیصلے ہوتے ہیں۔
معاشرے میں آوازوں کو دبانے سے کیا ملک ترقی کرتے ہیں یا نیچے چلے جاتے ہیں ؟، اس کو بیلنس رکھنا انتہائی مشکل مرحلہ ہے۔ ریاستیں اپنی غلطیوں کو قومی راز کا درجہ دے کر خود کو کیسے بچ پائیں گی؟۔ روسی حادثے کو چھپا کر کیا روس بدنامی، ٹوٹ پھوٹ سے بچ گیا ؟، بادشاہت میں کئی ممالک نے ترقی کی، جس میں مڈل ایسٹ اور چین ان سب سے بری مثال ہیں۔ ان ممالک میں سیاست تھی نہ میڈیا آزاد تھا۔ وہاں ون مین آرڈر تھا۔ لیکن شام، عراق، مصر جیسے ملکوں میں بہت پیسہ تھا ان کا ہر فرد خوش حال تھا۔ وہاں کے لوگ اپنے ہی بادشاہوں کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ قذافی اپنے عوام کے ہاتھوں مارا گیا۔ حسنی مبارک کو ایک پنجرے میں بند کر کے عدالت میں پیش کیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا ؟۔ ہمارے مسلمانوں بھائیوں کی سوچ ہے کہ غیر ملکی قوتیں ان ممالک میں افراتفری کی ذمہ دار تھیں۔ یقینا اس میں دو رائے نہیں، لیکن غیر ملکی طاقتوں نے اپنے مقاصد کی حصول کے لئے ان کے شہریوں، لوگوں کو استعمال کیا۔ میڈیا پر پابندی، شخصی آزادی جیسے دیگر مسائل کی بنیاد پر بادشاہوں کا تختہ الٹا۔ آج ان ممالک کی تشویشناک حالت ہے۔
پاکستان ابھی تک شام، عراق نہیں بنا ( اللّہ محفوظ رکھے، آمین )، اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ ہمارا میڈیا اور عدالتیں جو کسی حد تک آزاد رہی ہیں، معاشرے میں گھٹن کم رہی۔ لوگ اپنی رائے کا اظہار کر کے رات سکون سے سو جاتے ہیں، ان کے ذہنوں میں انقلاب جیسے منصوبے پیدا نہیں ہوتے۔ وہی ملک کامیاب ہیں جہاں انسان کو سوچنے اور بولنے کی آزادی ہے۔ گوربا چوف سوویت یونین کے آخری صدر کو فوجی بغاوت کے بعد گرفتار کیا گیا تو ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے۔ انہیں چوف کی شکل میں ایسا معاشرہ نظر آ رہا تھا جس میں بولنے اور سوچنے کی آزادی تھی۔ ہمارے ہاں ایک لیڈر کی شکل میں لوگوں کو لگ رہا ہے کہ وہ ان کی زندگیوں کو بدل دے گا، ماضی کے حکمرانوں سے عوام تنگ آ چکے ہیں، حکومت عوام سے بولنے اور سوچنے کی آزادی سلب کرنا چاہ رہی ہے،26ویں ترمیم کے بعد عدالتی نظام کو جام کر دیا ہے، ہمارے ہاں گھٹن میں اضافہ ہو رہا ہے، اب رات کا سکون بہت مشکل ہے ، جس طرز پر حکومت کام کر رہی ہے یہ کوئی اچھا طرز حکمرانی نہیں ہے، صحافیوں پر مقدمات ، میڈیا کی زبان بندی کی جا رہی ہے۔ حکومت ملک کو ابتر صورتحال کی طرف لے کر جانا چاہ رہی ہے، حکومت عوام کی آواز کو دبانا چاہ رہی ہے، اپنی حکمرانی کیلئے پورا ملک ہیجان میں مبتلا ہے، شکست کو تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں رہا۔ صدا حکمرانی اپنے گھر میں رکھنے کے خواب نے 25کروڑ عوام کو مشکل میں ڈال دیا ہے، حکمرانوں کے فیصلے ملکی ترقی کے آگے سب بڑی رکاوٹ ہیں۔ قومی مفادات کی جگہ ذاتی مفادات کو ترجیح دی گئی، ایسی گھٹن ان ممالک میں بھی تھی جن میں آج خانہ جنگی کی صورتحال ہے ۔ پاکستان کو اللہ محفوظ رکھے لیکن حکومت کو عوامی سوچ کو مد نظر رکھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں کو قومی سوچ بنانا ہو گی، قومی مفادات پر سب کو متحد ہونا پڑے گا، زبان بندی سے مسائل کم نہیں ہوں بلکہ صورتحال خراب ہو گی ، اسمبلیوں میں بیٹھ کر حل تلاش کیا جائے، نہ کہ بیان بازی سے مزید مشکلات بڑھائیں۔