Column

عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کیوں؟

تحریر : عبد الرزاق برق
اس وقت دنیا میں ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس کے لحاظ سے اسرائیل کا شمار طاقتور ترین ممالک میں ہوتا ہے، لیکن اسی طاقتور ملک کے وزیراعظم نیتن یاہو، سابق وزیردفاع یواوگیلنٹ اور حماس کے عسکری رہنما محمد ضیف کا بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا ہے ۔ آئی سی سی کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو اور یواوگیلنٹ پر بھوک کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرنے کے جنگی جرم اور غیر انسانی اقدامات، جبری قتل سمیت انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام عائد کئے گئے ہیں اور ساتھ ہی نیتن یاہو نے 50ہزار زیادہ لوگوں کو شہید کیا ہے، جن میں 1100وہ خاندان بھی شامل ہیں جن کے سب لوگ شہید ہو گئے۔
یہ دنیا کی تاریخ میں بدترین ظلم ہے جوکہ غزہ میں کرایا گیا، اب نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری کے بارے میں اہم سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی عدالت برائے انصاف کے اس تاریخی اور زبردست فیصلے پر عملدرآمد ممکن ہے؟، چونکہ یہ معاملہ قانون کے بجائے سیاسی اور سفارتی میدان میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور فیصلے کا نفاذ عالمی برادری کی رضامندی
اور حمایت پر منحصر ہو گا، جو موجودہ حالات میں غیر یقینی ہے۔ اگرچہ فیصلے پر عمل درآمد قانونی طور ممکن ہے لیکن عملی سطح پر اسرائیل کی مضبوط بین الاقوامی حمایت اور سیاسی عوامل کے باعث ایسا ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے، اس قسم کے وارنٹ گرفتاری اسرائیل کی پشت پر کھڑی طاقتور لابی کے لئے مونگ پھلی سے زیادہ معنی نہیں رکھتے، مطلب خیالی پلائو والوں کو خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہے توکیا دنیا میں کوئی ایسی عدالت ہے کہ وہ نیتن یاہو کا بال بیکا کر سکے؟۔ کیا یہ سب باتیں ٹائم پاس کرنے کے تو نہیں؟۔ تاہم اگر کوئی دستخط کنندہ ملک اپنی قانونی ذمہ داری کو ترجیح دے اور سیاسی دبائو کے باوجود کارروائی کرے تو گرفتاری ہوسکتی ہے۔
دنیا میں امن برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا جائے، عالمی عدالت نے ماضی میں بوسنیا سمیت کئی اہم فیصلے کئے ہیں، جو مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔ 1993ء میں بوسنیا کے مسلمانوں کے قتل عام پر عدالت نے سرب سربراہوں کو مجرم ٹھہرایا، جس کے نتیجے میں سربیا کو بین الاقوامی سطح پر جواب دہ ہونا پڑا، جبکہ میانمار میں روہنگیار مسلمانوں کے خلاف کارروائی پر آئی سی سی نے یہ فیصلہ دیا کہ میانمار کی حکومت نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور روہنگیا مسلمانوں کو نشانہ بنا کر انسانی حقوق کو پامال کیا گیا۔ ان فیصلوں نے ثابت کیا کہ آئی سی سی مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنے کا ادارہ ہے۔
نسل کشی کے بارے میں سب سے پہلا واقعہ آرمینائی نسل کشی ہے، جو پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت عثمانیہ میں پیش آیا، لاکھوں آرمینائی باشندوں کو بے دخل، قتل کیا گیا اور انکی زمین سے جڑیں ختم کی گئیں۔ اس کے بعد نازی جرمنی میں ہولوکاسٹ نے نسل کشی کو تاریخ کاسب سے سیاہ
باب بنا دیا، جس میں لاکھوں یہودیوں کو گیس چیمبرز میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ روانڈا میں بھی نسل کشی کی بدترین مثالیں ہیں، جہاں طاقتور گروہوں نے کمزور طبقے کو نیست نابود کرنے کی کوشش کی۔ آئی سی سی اس طرح کے کئی تنازعات میں جنگی جرائم پر سزا دے چکی ہے، اب اگر اسرائیل اور اس کے وزیراعظم نیتن یاہو کو قانون کے سامنے جوابدہ نہ بنایا گیا تو عالمی عدالت انصاف طاقتور کی لونڈی بن کر رہ جائے گی۔ لیکن کیا بین الاقوامی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد سے فلسطینوں کی نسل کشی بند ہوجائے گی؟، کیا امریکہ پھر بھی اسرائیل کو خطرناک ترین ہتھیار اسی طرح دیتا رہے گا؟، کیونکہ امریکہ نے ہمیشہ ظالم کا ساتھ دیا ہے، امریکہ کو اس وقت انسانی حقوق نظر نہیں آرہے، وہ مکمل طورپر اس جنگ میں فریق بنا ہوا ہے اور جتنا ظلم ہو رہا ہے براہ راست اس میں شامل ہے۔ کیا فلسطین کی سرزمین پر پھر بھی جنگ جاری رہے گی یا بین الاقوامی عدالت اسرائیل کے خلاف کوئی مضبوط قدم اٹھائے گی ؟،
اگر عدالت اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو یہ فلسطینوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے مترادف ہوگا، اور اس سے یہ پیغام جائے گا کہ کوئی بھی حکومت چاہے وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو انسانی حقوق کی پامالی کے بعد محفوظ نہیں رہ سکتی۔ خود نیتن یاہو واضح طور پر اس معاملے کو یہود مخالف انتقام سے جوڑ رہا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے، کیونکہ مسلمان ممالک سے زیادہ فلسطین کے حق میں مظاہرے مغربی ممالک اور امریکہ میں ہوئے ہیں اور ان مظاہروں میں کسی مذہبی تعصب اور بھید بھائو کے بغیر تمام لوگ شریک تھے، ان میں مسلمان، عیسائی اور یہود بھی تھے۔
اس وقت اسرائیل کے معاملے پر دنیا کی بڑی طاقتیں بھی دو حصوں میں نظر آتی ہیں، ایک وہ ممالک ہیں جو اسرائیل کے دفاع میں کھڑے ہیں جن میں امریکہ بھی شامل ہے، جوکہ ہمیشہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ فلسطین کے مسءلے پر امریکی پالیسی ہمیشہ اسرائیل کی حمایت میں رہی ہے۔اقوام متحدہ میں جب بھی فلسطینی عوام کے حق میں قرارداد پیش کی جاتی ہے تو امریکہ اپنی ویٹو پاور کا استعمال کرتا ہے۔
اس عمل نے واضح کیا ہے کہ انصاف اور امن کے نعروں کے پیچھے صرف طاقت کی سیاست ہے، حالانکہ اقوام متحدہ کو دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے بنایا گیا تھا مگر یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں کہ یہ ادارہ بڑی طاقتوں کے اثر و رسوخ سے آزاد نہیں۔ آئی سی سی کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے میں سب سے زیادہ رکاوٹیں یہ دیکھنے میں آئی ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور وزیردفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد مسلم دنیا میں خاموشی تھی، مگر اب ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے خاموشی توڑی ہے اور کہا ہے کہ غزہ میں جارحیت کے مرتکب اسرائیلی رہنمائوں کے وارنٹ گرفتاری کافی نہیں بلکہ ان کو سزائے موت دینی چاہئے، ان کا مطالبہ بجا ہے اور سرکاری سطح پر ایسا بیان ہمت افزائی کا سبب ہے لیکن اس بکھری امت مسلمہ میں کون ہے جو بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا۔ ستاون ممالک ستاون غلام حکمران ہیں۔ خود ایران پر اسرائیل نے حملہ کیا، لیکن ایران نے اب تک جواب نہیں دیا ہے، جبکہ خامنہ ای کے مشیر اعلیٰ علی لاریجانی نے کہا ہے کہ ایران اسرائیل کے حملوں کا جواب دینے کیلئے تیاری کر رہا ہے، مگر سچی بات یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف تیاری تو بہت پہلے ہو جانی چاہئے تھی۔ حوصلے بھی اگر کسی کے بلند ہیں تو حماس کی وجہ سے بلند ہیں، کسی حکومت کی وجہ سے نہیں۔ ہمارے حکمران مہذب دنیا صرف یورپ کو کہتے ہیں، قوم کو یورپ سے سیکھنے کے بھاشن دیتے ہیں۔ پاکستان آئی سی سی کے قیام کا بڑا مستعد وکیل رہا اور اس کے قیام کے حق میں ووٹ بھی دیا مگر اس کی توثیق نہیں کی ہے، آج کل فلسطین کے مظلومین کے معاملے میں یورپ کا ساتھ بھی نہیں دے رہا۔ اس صورتحال کو سامنے رکھیں اور عالمی سیاست کو سامنے رکھیں تو آئی سی سی کے فیصلوں پر عملدرآمد مشکل نظر آتا ہے، یہ اسی وقت ممکن ہے جب سعودی عرب، ترکیہ ایران، پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک اس فیصلے پر عملدرآمد پر زور دیں۔ دنیا کے 125ممالک روم کانفرنس کے اس معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں جس کے تحت وہ آئی سی سی کے فیصلوں پر پابند ہیں، لیکن یہ پہلو انتہائی قابل غور ہے کہ دنیا بھر میں جنگوں علاقائی تنازعات اور انسانی حقوق کی پامالی میں کسی نہ کسی طور پر شریک اہم ممالک امریکہ، اسرائیل، روس، چین اور بھارت نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کئے ہیں۔
آج اس مسئلے پر سب سے توانا آواز اور جرات مندانہ موقف مغرب کا ہی ہے، مسلمان ممالک کے صرف عوام اپنی سی کوشش کر رہے ہیں، ان کی آواز بھی مصنوعی ڈراموں میں دبا دی جاتی ہے۔ جنوبی افریقہ سب سے پہلے بہترین کردار ادا کرتے ہوئے اسرائیل کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں لے گیا، اس کے بعد یورپ سے آواز اٹھی ہے، عالمی فوجداری عدالت کے فیصلے پر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا کہ یورپی یونین کی حکومتیں اس بات کا انتخاب کرنے میں اپنی مرضی نہیں کر سکتیں کہ عالمی فوجداری عدالت کی طرف سے 2اسرائیلی رہنمائوں اور حماس کے ایک کمانڈر کے خلاف جاری کئے گئے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کیا جائے یا نہیں۔ یورپی یونین کی کئی ریاستوں نے کہا ہے کہ ضرورت پڑی تو وہ معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کو پورا کریں گے۔ انہوں کہا کہ روم کنونشن پر دستخط کرنے والی تمام ریاستیں فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہیں۔ یہ اختیاری معاملہ نہیں، اس طرح کی ذمہ داریاں یورپی یونین میں شامل ہونے کے خواہشمند ممالک پر بھی عائد ہوتی ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمران مسلم افواج کے کمانڈر اور بڑے بڑے لیڈر عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد پر زور دینے کی بھی کوشش نہیں کر رہے، بلکہ چوں کی آواز بھی نہیں نکل رہی۔ بوریل نے یہ بھی بتایا ہے کہ یورپی یونین میں شمولیت کے خواہشمند ملکوں کو بھی لازما عالمی عدالت کے فیصلوں کی پابندی کرنا ہوتی ہے، اس اعتبار سے ترکیہ ان مسلم ممالک میں شامل ہے جو قانوناً اس فیصلے پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ دیگر مسلم ممالک بھی دنیا سے فیصلے پر عمل کا مطالبہ کر سکتے ہیں، ان کی زبانیں کیوں گنگ ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں بے گناہ انسانوں کا قتل عام اب بند ہونا چاہئے، عالمی حکمرانوں عالمی عدالت کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے، آئی سی سی تاریخی فیصلے پر عمل ہونا چاہیے، واضح رہے گزشتہ ماہ ( نومبر ) کی 21تاریخ کو عالمی فوجداری عدالت ( آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق وزیردفاع یواوگیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔ عدالت کے پاس اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ نیتن یاہو اور یواوگیلنٹ نے مشترکہ طور پران جرائم، جن میں جنگ اور قتل، غذائی کمی کا جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال، ظلم اور دیگر غیر انسانی سلوک شامل ہیں، کا ارتکاب کیا۔
عبد الرزاق برق

جواب دیں

Back to top button