ColumnRoshan Lal

وی پی این، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور جہالت

تحریر : روشن لعل
وطن عزیز میں بہت کم لوگوں کا دھیان اس طرف ہے کہ وی پی این ( ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک) کی رجسٹریشن ملک میں متنازعہ معاملہ کیوں بنی۔ ایک دوست سے جب یہ پوچھا کہ وی پی این کی رجسٹریشن کا معاملہ کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ جب کوئی چھوٹی جہالت کا جواب بڑی جہالت سے دینے کی کوشش کرے تو وی پی این جیسی سائنسی دریافتیں مفید ثابت ہونے کی بجائے متنازعہ ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ جب یہ پوچھا گیا کہ وی پی این کے حوالہ سے کس نے کس کی جہالت کا جواب مزید جہالت سے دیا تو جواب ملا کہ جنہوں نے جہالت کا کلچر شروع کرنے کے بعد اسے مستحکم کیا اور جنہوں نے جہالت کے پھیلائو کا جواب مزید جہالت سے دیا وہ دونوں ایک ہی طرح کے لوگ ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے الگ سمجھنا اور الگ الگ خانوں میں رکھنا کافی مشکل کام ہے۔ اس موقف کی وضاحت کچھ یوں کی گئی کہ میڈیا کو ناپسندیدہ لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے اور ان پر گند پھینکنے کے لیے استعمال کرنے کا کام یہاں ایک عرصہ پہلے شروع ہوا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جدتیں سامنے آنے کے بعد دوسروں پر گند اچھالنے کا کام اس حد تک پرکشش اور منافع بخش بنایا گیا کہ لوگ اسے پیشہ بنانے کی طرف راغب ہو گئے۔ گند اچھالنے والے پیشہ وروں نے جہالت کی انتہائوں کو چھوتے ہوئے جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کو اپنے پیدا گیروں کا دامن داغدار کرنے کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کیا تو ناپسندیدہ افراد کو قید کرنے کے عادی لوگوں نے مزید جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ہی پابندیوں میں جکڑ دیا۔
جو کچھ سطور بالا میں جو کچھ بیان کیا گیا اس کی تفہیم یہ ہے کہ یہاں لوگوں کی کردار کشی کے لیے پراپیگنڈا کے ذریعے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ کمپیوٹر سائنس کے ارتقا کے دوران جب دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو علم میں اضافے اور عام لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیے استعمال کرنے کا آغاز ہوا تو ہمارے ہاں پراپیگنڈا کے ذریعے کردار کشی کرنے والوں نے اسے اپنے کام میں لانا شروع کر دیا ۔ کمپیوٹر سائنس کی ترقی کے دوران دنیا تو نئی سے نئی جنریشن کے کمپیوٹروں سے مستفید ہوتی رہی لیکن ہم نے اپنے لوگوں کو نام نہاد ففتھ جنریشن وار کے پراپیگنڈے میں الجھا نے کو ترجیح دی۔ جب نوجوانوں کی ذہنی پرورش ففتھ جنریشن وار جیسے پراپیگنڈے کے زیر اثر ہوئی ، ان کی شخصیت اور کردار تضادات کا مجموعہ بن کر سامنے آیا۔ متضاد رویوں کے حامل ان نوجوانوں کے ذہنوں کو جس بت کی پوجا پر مائل کیا گیا تھا انہوں نے اس بت کو حق سچ اور باقی سب کو شیطان تصور کرتے ہوئے ان پر کنکریاں برسانا شروع کر دیں ۔ اندرون اور بیرون ملک سے دوسروں پر کنکریاں برسانے والوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جدتوں کو جس حد تک ممکن تھا اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ گو کہ ریاست اور حکومتوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جدتوں کو
نوجوانوں کی معاشی سرگرمیوں سے جوڑنے کو کبھی اپنی ترجیح نہیں بنایا لیکن اس کے باوجود یہاں اچھی خاصی تعداد میں ایسے نوجوان نمودار ہوگئے جنہوں نے اپنے طور پر آئی ٹی کی انٹرنیشنل مارکیٹ سے اپنے لیے روزگار اور ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ حاصل کرنے کے مواقع تلاش کیے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ ان نوجوانوں کے ہنرمندی اور قابلیت کسی طرح بھی دیگر ملکوں کے نوجوانوں سے کم نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انہیں انٹر نیشنل مارکیٹ میں بھارتی نوجوانوں کی نسبت کم معاوضے پر اپنی خدمات فراہم کرنا پڑیں کیونکہ بھارتی حکومت کی معاونت اور فراہم کردہ سہولتوں کے سبب وہاں کا نوجوان بہت پہلے آئی ٹی کی انٹر نیشنل مارکیٹ کے35 فیصد حصے پر قابض ہو چکا تھا۔
پاکستان کے جن نوجوانوں نے اپنے بل پر آئی ٹی مارکیٹ میں اپنے لیے تھوڑی سی جگہ بنائی انہیں اس جگہ سے کوئی اور نہیں بلکہ ہماری اپنی حکومت کی ناعاقبت اندیش پالیسیاں دستبردار ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔ حکومتی اداروں نے پہلے تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے گند اچھالنے والے لوگوں کی گندگی سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے ملک میں انٹرنیٹ کی سہولتیں فراہم کرنے والے نظام کو فائر وال کے حصار میں مقید کر دیا ۔ آئی ٹی انڈسٹری میں فائر وال کو سائبر سیکیورٹی کی فراہمی کے علاوہ ناپسندیدہ مواد کو ملک کے انٹر نیٹ سسٹم سے باہر رکھنے کے لیے چھلنی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جس طرح دوائیوں کے لازمی مثبت اور منفی اثرات ہوتے ہیں اسی طرح فائر وال، انٹر نیٹ نظام میں سائبر سیکیورٹی جیسے مثبت فائدے کے ساتھ انٹر نیٹ کی سپیڈ سست تر کرنے کے منفی اثر کا باعث بھی بنتی ہے۔ پاکستان کے انٹر نیٹ سسٹم میں فائر وال کی تنصیب کے باوجود وی پی این کی وجہ سے اعلیٰ ریاستی شخصیات اور اداروں پر سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والی تنقید سے چھٹکارا حاصل کرنا تو ممکن نہ ہو سکا لیکن انٹرنیٹ کی سپیڈ سست ہونے کی وجہ سے وہ نوجوان گلوبل آئی ٹی انڈسٹری میں دستیاب کام سے محروم ہونا شروع ہو گئے جس کام کے لیے انہوں نے بڑی مشکل سے خود کو اہل ثابت کیا تھا۔ جن لوگوں نے خود کو سوشل میڈیا پر ہونے والی بیہودہ تنقید سے محفوظ رکھنے کے لیے انٹرنیٹ سسٹم کو فائر وال کے سپر کیا وہ شاید یہ بات نہیں جانتے کہ سائبر کرائم کے توڑ کے لیے اگر 1993ء میں پہلی مرتبہ فائر وال کا استعمال شروع ہوا تو فائر وال کے توڑ کے طور پر 1996ء پہلا وی پی این بھی تیار کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے آج تک فائر وال اور وی پی این کے کئی نئے ورژن سامنے آچکے ہیں ۔
جو لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے سائنس کے
ارتقائی عمل کو سمجھنے سے قاصر ہیں انہوں نے پہلے فائر وال کے ساتھ اپنی امیدیں وابستہ کیں اور اب خود کو تنقید سے محفوظ رکھنے کے لیے وی پی این کی رجسٹریشن کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ انٹرنیٹ سسٹم متاثر نہ ہونے کے حکومتی دعووں کے باوجود فائر وال کی تنصیب کے بعد انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے کے ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح حکومتی ترجمانوں کا فائر وال کی تنصیب کے باوجود انٹرنیٹ کی سپیڈ سست نہ ہونے کا دعویٰ غلط ثابت ہو ا اسی طرح ان کا وی پی این کی رجسٹریشن کے بعد آن لائن کام کرنے والے نوجوانوں کا روزگار متاثر نہ ہونے کا موقف بھی غلط ثابت ہوگا۔
فائر وال کی تنصیب اور وی پی این کی رجسٹریشن جیسے حکومتی اقدامات کے متعلق غیر جانبدار آئی ٹی ماہرین یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت ان کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے گی۔ ان آئی ٹی ماہرین کی باتیں سمجھنے کی بجائے حکومت کے لوگ اب بھی اپنے ناقص موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کیونکہ وہ ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ کمپیوٹر سائنس کی دنیا میں آلات کے مسلسل اپ گریڈیشن کے سبب نئی چیزیں کس قدر تیزی سے پرانی ہو جاتی ہیں۔ جن لوگوں کی سمجھنے کی صلاحیت محدود ہے انہیں اس تحریر کے ذریعے بھی یہ باور نہیں کرایا جاسکے گا کہ وہ کسی فائر وال یا وی پی این کی رجسٹریشن کے ذریعے خود کو بیہودہ تنقید سے تو محفوظ نہیں رکھ سکیں گے لیکن ان کی جہالت کے سبب آئی ٹی انڈسٹری سے وابستہ معاشی سرگرمیاں ضرور متاثر ہونگی۔

جواب دیں

Back to top button