Editorial

وزیراعظم کا کامیاب دورہ سعودی عرب

امسال فروری کے عام انتخابات کے نتیجے میں اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا، جس کی سربراہی شہباز شریف ایسے زیرک اور بردبار سیاست دان کو ملی، وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے نا صرف صوبے بلکہ پورے ملک کے عوام پہلے ہی ان کی خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے۔ وزیراعظم پاکستان کی حیثیت میں انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک و قوم کے مسائل اور مصائب کے حل کی جانب تیزی سے پیش رفت کی، بلکہ ناگفتہ بہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے ملکی معیشت کو درست پٹری پر گامزن کیا۔ تیزی کے ساتھ معاشی اصلاحات پر کام کیا۔ ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے سنجیدہ کاوشیں کیں۔ اقتدار سنبھالتے ہی دوست ممالک کے دورے کیے اور اُنہیں پاکستان میں عظیم سرمایہ کاریوں پر راضی کیا۔ اس حوالے سے کئی ممالک کے ساتھ معاہدات طے پا چکے ہیں۔ دُنیا کے معروف بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان کی تیزی سے اُبھرتی معیشت کی تعریف کر رہے ہیں۔ قبل ازیں ملکی معیشت بدترین زوال کا شکار تھی۔ 2018ء کے وسط کے بعد سے شروع ہونے والی تنزلی کا سفر 2022ء تک انتہائی تیزی سے جاری رہا، جس نے ملک و قوم کو بدترین پستیوں میں دھکیل ڈالا۔ مہنگائی کا بدترین طوفان قوم کو برداشت کرنا پڑا، جو گرانی 2035۔40ء میں آنی تھی، وہ وقت سے بہت پہلے 2021۔22ء میں ہی قوم پر مسلط تھی۔ صنعتوں کا پہیہ جام تھا۔ کاروبار تباہ ہورہے تھے۔ بڑے اور چھوٹے کاروباری لوگ بدترین حالات کا شکوہ کرتے نہیں تھکتے تھے۔ پاکستان سفارتی سطح پر آہستہ آہستہ تنہائی کا شکار ہورہا تھا۔ پاکستانی روپیہ پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلا جاچکا تھا، روزانہ ہی ڈالر اسے بُری طرح چاروں شانے چت کرتا رہتا تھا۔ سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام روک دیا، یا سست روی کا شکار کر دیا گیا تھا۔ ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچادیا گیا تھا۔ غریب عوام کی حالت سب سے زیادہ ابتر تھی۔ شکر کہ شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت قائم ہوئی اور اُس نے ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹالا۔ باقی مدت میں کچھ بہتر اقدامات کیے۔ نگراں دور میں بھی احسن اقدامات کے طفیل صورت حال نے بہتر رُخ اختیار کرنا شروع کیا۔ پھر انتخابات کے بعد وزیراعظم نے انتہائی تیز رفتاری سے معیشت کی بحالی کے مشن پر کام کیے، جو دوررس نتائج کے حامل ثابت ہورہے ہیں۔ سعودی عرب، چین، یو اے ای، قطر، کویت اور دیگر دوست ممالک پاکستان میں بڑی سرمایہ کاریاں کررہے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب کا ایک اور کامیاب دورہ مکمل کرکے وطن واپس پہنچے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب کا دو روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے۔ وزیراعظم نے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران ریاض میں منعقدہ ون واٹر سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ وزیراعظم نے دنیا کو مستقبل میں پانی کی قلت سے بچانے کے لیے 6نکاتی ایجنڈا تجویز کیا اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کی وجہ سے مشکلات و چیلنجز پر بھی روشنی ڈالی۔ وزیراعظم کی ریاض میں سعودی عرب کے ولی عہد و وزیرِ اعظم شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود سے بھی ملاقات ہوئی، جس میں دونوں رہنمائوں نے پاک سعودیہ تعلقات کے مزید فروغ اور ان میں بڑی تبدیلی لانے کے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا۔ دونوں رہنمائوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے سعودی مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر عملدرآمد کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔ وزیراعظم کی فرانس کے صدر ایمانویل میکرون سے بھی ملاقات ہوئی، جس میں دونوں ملکوں کے زراعت، لائیواسٹاک، انفارمیشن ٹیکنالوجی، پیشہ ورانہ مہارتوں میں ترقی اور پینے کے صاف پانی کے شعبوں میں بزنس ٹو بزنس روابط کے ذریعے تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ دوسری طرف وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ وزیراعظم کی قیادت میں پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کی بدولت معاشی ترقی کا سفر جاری ہے، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے معاہدے حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں، سرمایہ کاری کا فروغ اور معاشی تعاون میں اضافہ حکومت کی اوّلین ترجیح ہے، پاک سعودی تعلقات نے ایک نیا موڑ لیا ہے۔ شہباز شریف کے حالیہ دورۂ سعودی عرب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم سعودی عرب کا کامیاب دورہ مکمل کرکے وطن واپس آ گئے ہیں، دورہ انتہائی اہمیت کا حامل رہا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 6ماہ کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ وزیراعظم شہباز شریف کی پانچویں ملاقات تھی۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ سعودی عرب پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے، انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور ولی عہد کے درمیان گزشتہ روز تاریخی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے معاشی اقدامات کی بدولت پاکستان میں 6سال بعد مہنگائی4.8فیصد پر آچکی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران جہاں دوست ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے، وہاں ان کی معیشت پر بھی کوئی توجہ نہیں تھی۔ آج دنیا بھر کے رہنما پاکستان کی معاشی بحالی و ترقی کو سراہ رہے ہیں، معیشت ترقی کررہی ہے، تمام معاشی اشاریے بہتر ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کا فروغ اور معاشی تعاون میں اضافہ حکومت کی اوّلین ترجیح ہے، آنے والے دنوں میں پاکستان میں مزید سرمایہ کاری آئے گی، روزگار پیدا ہوں گے، مہنگائی کم ہوگی، عوام کو ریلیف ملے گا۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بہت کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف کا یہ دورہ ملک و قوم کے مفاد میں انتہائی مفید ثابت ہوگا۔ شہباز شریف کی ملک و قوم کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ سعودی عرب سمیت دوست ممالک سے عظیم سرمایہ کاریاں آرہی ہیں۔ اس سے ملک میں روزگار کے وسیع تر مواقع پیدا ہوں گے۔ انفرا سٹرکچر کی صورت حال بہتر ہوگی۔ کوئی بے روزگار نہیں رہے گا۔ دوسری جانب معیشت اپنی بحالی کا سفر کامیابی سے طے کر رہی ہے۔ گرانی میں کمی آرہی، وہ سنگل ڈیجیٹ پر آچکی ہے۔ آئندہ چند سال میں بڑی کامیابیاں ملک و قوم کا مقدر بنیں گی۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ قرضوں کے بجائے انہی پر انحصار کرتے ہوئے وسائل سے مسائل کا حل نکالنے میں حکومت کامیاب رہی تو یہ امر ملک و قوم کے لیے انتہائی مبارک ثابت ہوگا۔
ٹیکس چوری و غیر قانونی تجارت سے اربوں روپے کا نقصان
ملکی معیشت آہستہ آہستہ سنبھل رہی ہے۔ حالات بہتر رُخ اختیار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت اصلاحات کے ذریعے آمدن بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس حوالے سے کچھ نہ کچھ حوصلہ افزا نتائج سامنے آرہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ٹیکس چوری، اسمگلنگ اور دیگر وجوہ کی بنا پر پاکستان کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے۔ اس نقصان کے سلسلے کو روکنے کے لیے مزید اقدامات وقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے، یہ امر تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔’’جہان پاکستان’’ میں شائع خبر کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور ٹیکس چوری پر قابو پانے میں ناکامی کے باعث مالی سال 2023۔24میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 8.77فیصد تک گرگیا ہے، جو 2021۔22میں 9.22فیصد تھا۔ یہ تشویش ناک کمی پاکستان کی معیشت پر بڑھتے ہوئے مالی دبائو کو ظاہر کرتی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ صرف تنخواہ دار طبقے پر انحصار کرکے ریونیو ہدف حاصل کرنے کا طریقہ غیر پائیدار ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے خبردار کیا کہ اگر رئیل اسٹیٹ، ہول سیل، ریٹیل اور زراعت جیسے غیر ٹیکس شدہ شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں کیا گیا تو حکومت کو تنخواہ دار افراد پر مزید بوجھ ڈالنا پڑے گا۔ ٹیکس چوری پر ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو پانچ بڑے شعبوں میں ٹیکس چوری اور غیر قانونی تجارت کے باعث سالانہ 950ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ صرف غیر قانونی سگریٹ کی تجارت ہر سال 300ارب روپے سے زیادہ کی ٹیکس چوری کا سبب بنتی ہے۔ یہ حیرت انگیز اعداد و شمار اس دیرینہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ پاکستان کو اپنے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور ٹیکس چوری کے لیے سخت سزائیں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ مانا وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں حکومت ملکی معیشت میں کافی حد تک سُدھار لائی ہے، لیکن ابھی بھی بہت سے کام ایسے کرنے کے رہ گئے ہیں، جن سے ملک و قوم کو ثمرات بہم پہنچ سکیں۔ اس ضمن میں سالانہ ٹیکس چوری، اسمگلنگ، غیر قانونی تجارت و دیگر وجوہ کی بناء پر ہونے والے نقصانات پر قابو پانے کے لیے راست کوششیں ناگزیر ہے۔ اس کی ہر صورت روک تھام یقینی بنائی جائے، ٹیکس چوری کی راہیں مسدود کی جائیں، غیر قانونی تجارت پر مکمل طور پر قابو پایا جائے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button