سیاست کا ایندھن مت بنیے
تحریر : رفیع صحرائی
کسی بھی سیاسی پارٹی کے ورکرز اس کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ یہ ورکرز ہی ہوتے ہیں جو لیڈران کا مورال گرنے نہیں دیتے۔ ان کا حوصلہ و عزم لیڈروں کے لیے آکسیجن کا کام دیتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے لیے ووٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کہ پارلیمنٹ میں ووٹ کی طاقت ہی انہیں پہنچاتی ہے مگر سپورٹ کی اہمیت ووٹ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ووٹ پانچ سال میں ایک مرتبہ چاہیے ہوتا ہے۔ پانچ سال تک پارٹی کو زندہ رکھنے اور پھلنے پھولنے کے لیے سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سپورٹ پارٹی کو اس کے ورکرز فراہم کرتے ہیں۔ کئی ورکرز جذباتی ہو کر پارٹی کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
اگر پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کی تاریخ دیکھی جائے تو ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے عوام کو سیاسی شعور دیا۔ ان کی طلسماتی شخصیت نے عوام کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ بھٹو ہی وہ پہلے سیاستدان تھے جن کی گرفتاری پر سیاسی ورکرز نے خود کو آگ لگا کر جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ شاہی قلعے میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اپنے جسموں پر کوڑے کھائے، جلاوطنی برداشت کی مگر بھٹو کی ذات کے سحر سے انہیں کوئی نہ نکال سکا۔ ذوالفقار بھٹو کے بعد میاں منظور احمد وٹو دوسرے ایسے سیاستدان ہیں جن کی گرفتاری پر بصیرپور کے ایک نوجوان نے سرِعام خودسوزی کر لی تھی۔ میاں منظور وٹو کا خاندان آج تک اس خاندان کے لیے چشمِ براہ رہتا ہے۔
اب حالات وہ نہیں رہے۔ پہلے کوئی بھی سیاسی ورکر بہت سوچ بچار کے بعد کسی پارٹی کا حصہ بنتا تھا۔ علاقے میں اس کی ایک پہچان ہوتی تھی۔ دوسری پارٹیوں کے ورکرز اور رہنما اس کی عزت اور احترام کرتے تھے۔ اخلاقی اقدار کی پاس داری کی جاتی تھی۔ مگر اب تو ہر نوجوان خودساختہ سیاسی ورکر بن گیا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہونے کے بعد عقل کو اس پارٹی کے بیانیے کے پاس گروی رکھ دیتا ہے۔ سچ جھوٹ کی تمیز ختم ہو کر رہ گئی ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں سیاسی سرگرمیوں میں بہت شدت آ چکی ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا نے بھی اپنی ریٹنگ اور مقبولیت کے لیے سیاسی اختلافات کو دشمنی کی حد تک لے جانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سیاسی ورکرز کے رویّوں میں شدت آگئی ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کا ورکر خود کو برحق اور مصلح سمجھتے ہوئے دوسری سیاسی پارٹی کے ورکرز کو فتووں کی زد میں لیے ہوئے ہے۔ اختلافِ رائے برداشت سے باہر ہو چکا ہے۔ سیاسی ورکرز کے رویّوں میں اس قدر شدت آ چکی ہے کہ وہ دوسرے کی سیاسی وابستگی یا رائے کا احترام کرنے کی بجائے دوسروں کو یہ حق دینے کو تیار ہی نہیں کہ وہ اپنی سیاسی وابستگی کا فیصلہ خود کر سکے۔ طنزاً ایک دوسرے کو پٹواری، یوتھیا، جیالا اور جانے کیا کیا القابات دیے گئے ہیں۔ اگر ان ورکرز کی اپنی پارٹی کے اندر اہمیت کی بات کی جائے تو کسی کی حیثیت بھی ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں۔ پارٹی کے لیے یہ ورکرز محض ایندھن ہیں۔ ایندھن جلنے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ ان ورکرز کے ذاتی دکھ سکھ میں کوئی پارٹی رہنما شریک نہیں ہوتا۔ پارٹی کے لیے جب یہ ورکرز گرفتار ہوتے ہیں تو ضمانت یا رہائی کے لیے بھاگ دوڑ ان کے ورثاء کو کرنا پڑتی ہے۔ اگر یہ ورکرز جان کی بازی ہار جائیں تو سیاسی فوائد کے لیے ان کا نام تو استعمال کیا جاتا ہے مگر نہ کوئی چھوٹا یا بڑا سیاسی لیڈر ان کے جنازے میں شریک ہوتا ہے نا ہی ان کے گھر والوں کی خیر خبر پارٹی کی جانب سے لی جاتی ہے۔ ان کے لواحقین کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا کہ عرصہ حیات ان پر کیسے تنگ ہو گیا ہے۔ وزیرآباد میں عمران خان کی ریلی میں اندھی گولی کا شکار ہونے والے ورکر کی بدقسمتی یاد کیجیے کہ اس کی لاش کے پاس اس کے معصوم بچے بیٹھے تھے۔ ریلی میں شریک ہزاروں ورکرز اور پارٹی لیڈرز کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔ اب اس کا نام لیوا بھی کوئی نہیں۔ ظلِ شاہ اپنے لیڈر کے عشق میں جان کی بازی ہار گیا مگر جن کے لیے مرا تھا وہ اس کے جنازے میں بھی نہ گئے۔ اس کے بوڑھے والدین اور بہنوں پر کیا گزر رہی ہے کسی نے پلٹ کر بھی نہ پوچھا۔ یہ تو صرف مثالیں ہیں۔ ہر جگہ اور سب کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے۔
9 مئی کے جلائو گھیرائو کے واقعات ہی کو دیکھ لیجیے۔ پارٹی ورکرز کو بہت برے طریقے سے استعمال کر کے بہت سوں کا مستقبل تاریک کر دیا گیا ہے۔ ان ورکرز کو سبز باغ دکھا کر اور سنہرے خواب فروخت کر کے تاریکیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ سختی دیکھ کر لیڈروں نے دھڑا دھڑ پارٹی چھوڑنا شروع کر دی۔ جو ساتھ کھڑے رہے انہوں نے 9 مئی کے واقعات کی شدید مذمت کر دی۔ خود عمران خان نے ان واقعات سے خود کو بری الذمہ قرار دے دیا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ورکرز کے اس فعل کی مذمت بھی کی اور یہ بھی کہہ دیا کہ گرفتار شدگان ہماری پارٹی کے ورکرز ہی نہیں ہیں۔ اندھی تقلید اور جذبات نے ان ورکرز کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ وہ ڈیڑھ سال بعد بھی اپنے سیاسی عشق کی سزا جیلوں میں بھگت رہے ہیں۔ پارٹی نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ گھر والے ان کے پیچھے خوار ہوتے پھر رہے ہیں۔ یہی حال 26نومبر کو اسلام آباد میں ہوا ہے۔ لیڈرشپ خود غائب تھی۔ ورکرز کو سبز باغ دکھا کر لایا گیا اور انہیں آنسو گیس اور تشدد کے حوالے کر کے علی امین گنڈا پور، محترمہ بشریٰ بی بی اور عمر ایوب خود پتلی گلی سے فرار ہو گئے۔ کوئی لیڈر خود گرفتار ہوا نہ کسی کا کوئی عزیز یا اولاد اس احتجاج میں پہنچی۔ حتیٰ کہ کوئی ایم پی اے یا ایم این اے بھی احتجاج میں شامل نہ ہوا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے ہزاروں شہادتوں کا دعویٰ کیا گیا۔ یہ تعداد سینکڑوں اور درجنوں میں سمٹتی ہوئی 12تک محدود ہوئی مگر کسی ایک ورکر کے جنازے میں کوئی لیڈر، ایم پی اے، ایم این اے یا پارٹی عہدیدار شریک نہ ہوا البتہ گرفتار ہونے والے ہزاروں کارکنان کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان کی قانونی مدد کرنے کی بجائے پارٹی نے ان سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے۔
یاد رکھیے! جس کے ساتھ دل چاہے سیاسی وابستگی اختیار کیجیے۔ آپ اسے اپنا ووٹ دے کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ مگر سیاست کا ایندھن مت بنیے۔ کسی کا ٹشو پیپر خود کو مت بنائیے۔ آپ زمانے کے لیے ایک فرد ہیں مگر اپنے خاندان کا سب کچھ ہیں۔ اپنی قدر کیجیے اور خاندان کو الجھنوں سے بچائیے۔ ہر کام ایک حد میں ہی ٹھیک رہتا ہے۔