Column

حقائق کی روشنی

تحریر : ندیم اختر ندیم
پاکستان کے موجودہ حالات غزہ لبنان کی ہلاکت انگیزیوں سے کچھ کم نہیں غزہ میں غیر مسلم قوتیں گولہ بارود سے کام لے رہی ہیں اور ہمارے ہاں انہیں قوتوں نے سازشوں کی آگ لگا رکھی ہے اس آگ میں پاکستان کے شہری جھونکے جارہے ہیں پاکستان کا مستقبل اس آگ کے دھویں میں گم ہے ملک میں کیا ہو رہا ہے کیا ہونے والا ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں وسوسوں اور وہم و گمان کے بیچ پاکستانی جیسے دبکے بیٹھے ہیں پاکستان کی سیاسی کشمکش اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ کسی کو یہ معلوم نہیں کہ پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات میں حقائق کی روشنی کتنی ہے اور جھوٹ کا اندھیرا کتنا یہاں ہر کسی کو سچا ہونے کا دعوی ہے لیکن سچائیوں کے اس شور میں سچ کہیں کھو کر رہ گیا ہے اور جھوٹ اپنے پر پھیلائے ہوئے ہے جس کے سائے کے نیچے پاکستانی اپنے حالتوں پر محو حیرت ہیں شہری یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ پاکستان کو کن مشکلوں اور لازوال قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا پاکستان کا قیام دنیا کی تاریخ میں کسی معجزے سے کم نہ تھا پاکستان خدائے بزرگ و برتر کی خاص مہربانیوں کی عطا ہے جو نبی کریم حضرت محمدؐ کا فیض پاک ہے پاکستان عشاق رسولؐ کا مسکن ہے آج پاکستان کے دفاعی اداروں کے جوان دہشت گردی میں شہید ہو رہے ہیں اگر دہشت گردوں سے بچ نکلتے ہیں تو پاکستان کے سیاست دانوں کی سیاسی سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں سیاست دانوں کے ان معرکہ آرائیوں میں سیاستدان ہر حال میں فتح یاب رہتے ہیں اور پاکستان کے عوام شکست خوردہ ہیں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کبھی نہ کبھی اس ملک میں حکمرانی کی لذت سے آشنا ہو جاتے ہیں لیکن عوام کی حالت وہی خستہ اور شکستہ ہے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے دی جانے والی فائنل کال میں اسلام آباد ڈی چوک میں جو ہوا اس میں کون صحیح تھا اور کون غلط اس کا فیصلہ کئے بغیر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی دشمن قوتیں اپنی سازشوں میں کامیاب ہیں وہ پاکستان کے حالات کو ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں جیسے آج پاکستان کے حالات ہو چکے ہیں ہم کسی ایک جماعت کے صحیح ہونے کی نوید نہیں سنا سکتے نہ ہم کسی کے جھوٹے ہونے کا نوحہ لکھ سکتے ہیں پاکستان کا عام شہری ہو یا کسی جماعت کا رہنما یا کسی صوبے کا حکمران اسکے لیے یہ جائز تو نہیں کہ وہ اپنے ہی شہروں پر چڑھ دوڑیں اپنے ہی ملک پر یلغار کر دیں اپنے ہی عمارتوں پر ہلا بول دیں یہ چلن پاکستان کے لیے صحت مند نہیں اس رویے کو رد کرنا ہوگا پاکستان میں کسی بھی جماعت کی حکومت کو اپنا عرصہ پورا کرنے کے لیے کبھی کسی دوسری جماعت نے قبول نہیں کیا کہ اس کو اس کا وقت دے کر دیکھا جائے پاکستان میں ایک جماعت اقتدار میں آتی ہے تو ساتھ ہی دوسری جماعت یہ کہنا شروع کر دیتی ہے کہ یہ حکومت چلتی نظر نہیں آتی ایک حکومت کا ہر دن دوسری سیاسی جماعت کی نقطہ چینی کی زد میں گزرتا ہے اور ہر شب دوسری جماعت کی سیاسی مخالفتوں میں بسر ہوتی ہے نتیجتاً پاکستان کے حالات بہتر ہونے کی بجائے خراب سے خراب تر ہوتے جاتے ہیں یہاں کسی بھی جماعت کا قائد پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے تو دوسری جماعت اسے حکومتی انتقام کا شاخسانہ قرار دیتی ہے عام آدمی ان موشگافیوں سے نابلد ہے کہ کسی سیاسی جماعت کا مقید رہنما کسی سیاسی انتقام کا نشانہ بنا ہے یا اپنے کسی جرم کی سزا کی پاداش میں قید خانے کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے آج پاکستان کے عام آدمی کی حالت یہ ہے کہ اسے گزر بسر کے لیے پہاڑ دن کی مشقتیں اٹھانا پڑتی ہیں ہم نے دنیا کی مثالیں دے دے دیکھ لیں کہ چائنہ نے ہم سے بعد میں آزاد ہو کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ورطہ حیرت میں تو دنیا کو ہم نے بھی ڈال رکھا ہے فرق اتنا ہے کہ چائنہ نے معاشی استحکام اور ترقی میں دنیا کو حیرتوں کے سمندر میں پھینک دیا اور ہم نے اپنی نالائقیوں کے سبب دنیا کو حیرانیوں کے گرداب میں گم کر دیا ایسا نہیں کہ ہم باصلاحیت نہیں پاکستان قوم ایک جفا کش اور ذہین قوم ہے دنیا پاکستانیوں کی صلاحیتوں کی معترف ہے۔
لیکن ہم ہیں کہ اپنوں کی قدر نہیں کرتے پاکستان میں سیاسی ڈیرے آباد ہیں جہاں پر کیا ملازم کیا مزدور ہر کوئی ہاتھ باندھے سر نگوں کھڑا ہے پاکستان میں انصاف اور قانون کی حکمرانی نہیں پاکستان میں سیاست دانوں کے ڈیروں پر کسی بھی سیاستدان کی جنبش ابرو سے پاکستان کے اداروں میں ہونے والے فیصلوں کا تعین کر دیا جاتا ہے مسلمانوں نے اس پاکستان کے لیے تو قربانیاں نہیں دی تھیں مسلمانوں نے اس پاکستان کے لیے تو ظلم نہیں سہے تھے قائد اعظمؒ نے پاکستان کو اپنی سیاسی بصیرت سے حاصل کیا تھا مسز سروجنی نائیڈو نے کہا تھا: ’’ اگر مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی، ایک سو نہرو اور ایک سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگرس کے پاس صرف ایک جناح ہوتا تو پاکستان کبھی معرضِ وجود میں نہ آتا‘‘۔
تو ایسی غیر معمولی شخصیت کہ جو بانی پاکستان ہے، کے بعد پاکستان میں کوئی اس شخصیت کی پیروی کرنے والا ہی کوئی ہوتا تو بھی پاکستان کے حالات کچھ اور ہوتے
اور بقول علامہ اقبالؒ ہم حقیقی معنوں میں دنیا کی امامت کرتے، آج امت مسلمہ جس کرب سے گزر رہی ہے پاکستان کے سیاست دان سیاسی لڑائیاں نہ لڑتے اور خالصتاً پاکستان کے لیے کچھ کرتے تو واقعی آج پاکستان عالم اسلام کا قلعہ ثابت ہوتا
اب سیالکوٹ سے جبار انجم کی لکھی نعت رسول مقبول کے اشعار
محمد عالمِ خاموش میں ہے بزم آرائی
محمد خالق و مخلوق میں ربطِ شناسائی
محمد نے شقاوت کو سدا رحمت میں ڈھالا ہے
محمد ظلمتوں کے دیس میں رنگیں اجالا ہے
محمد ظلمتِ شب میں ضیا کا استعارہ ہے
محمد کاروانِ دشت کا قُطبی ستارہ ہے
محمد کے تخیل سے جفا کا خواب تھا ٹوٹا
محمد کے اشارے سے یہی مہتاب تھا ٹوٹا
محمد نے نساں کو ردائے آبرو دی ہے
محمد نے زمیں کو آسماں کی جستجو دی ہے
محمد کے حوالے ہیں صحیفوں میں سپاروں میں
محمد کا بیاں قرآن کے ہے تیس پاروں میں
محمد کار گاہِ عشق کا حتمی حوالہ ہے
محمد نے ہی گرتی آدمیت کو سنبھالا ہے
محمد باعثِ اوج و کمالِ آدمی ٹھہرے
محمد گلشنِ ربّی کا نخلِ آخریں ٹھہرے
محمد کا تصور ہے ہر اک وجدان سے آگے
مقامِ مصطفٰی ہے مسندِ شاہان سے آگے
محمد کا ہے فرمایا شہی فرمان سے آگے
ہدایت ہو نہیں سکتی کوئی قرآن سے آگے
محمد نے نبوت کے سبھی اسرار کھولے ہیں
محمد کی گواہی میں تو یہ پتھر بھی بولے ہیں
محمد کی زباں تفسیر ہے حکمِ خدائی کی
محمد بے مثل تصویر دستِ دل ربائی کی
محمد ظلمتوں میں لے کے نوری انقلاب آیا
کہ جیسے ماہتاب آیا کہ جیسے آفتاب آیا
محمد آب جوئے رحمتِ رحمان بھی تو ہے
محمد بخششِ انسان کا سامان بھی تو ہے
وہ جس نے حضرتِ انسان کی تقدیر ہے بدلی
وہ جس نے عالمانِ سُو کی ہر تحریر ہے بدلی
تو ایسا رہبرِ کامل بھی بولو اب کہیں ہوگا
نہیں ہوگا نہیں ہوگا نہیں ہوگا نہیں ہوگا

ندیم اختر ندیم

جواب دیں

Back to top button