اگلا نمبر آپ کا ہے
تحریر : سیدہ عنبرین
جو اسے یونانی دیوتا کہتا تھا آج اسے ڈونکی راجہ لکھ رہا ہے، یہ کہنا درست نہیں کہ ذرا سی بات تھی، لیکن یہ کہنا صد فی صد درست ہے کہ کچھ لوگ پہچانے گئے، ہر آنے والے دن کے ساتھ جعلی احمد شاہ ابدالیوں اور جعلی شیر شاہ سوریوں کے چہرے سے نقاب اٹھ رہے ہیں، خبث باطن سامنے آ رہا ہے، حیرت ہے ان لوگوں پر جو باہر کی بات اندر نہ پہنچاتے تھے اور اڈیالہ کی بات باہر نہ کرتے تھے۔ یہ کسی اور کو نہیں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے تھے، سچ آشکار ہو کر رہتا ہے، جھوٹ بیچ چوراہے بے عزت ہوتا ہے۔ اس خبر کی بالاخر تصدیق ہو گئی جسے افواہ کہا جا رہا تھا اور سرکاری واعظوں کا فرمانا تھا کہ یونیفارم میں کوئی شخص اپنے اعلیٰ افسران کی حکم عدولی نہیں کر سکتا اور یہ کہ کہیں بھی کسی قسم کی کوئی بے چینی نہیں، ہر شخص یکسو ہے، خبر نے میڈیا میں خاص جگہ پائی، اخبارات نے اسے جعلی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا، ایک دو نہیں درجنوں نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ پولیس کے افسران اور اہلکاروں نے پی ٹی آئی احتجاج کے دوران ڈیوٹی دینے سے معذرت کی تھی۔ یاد رہے یہ بڑی تعداد میں افسر و جوان بیمار نہیں ہوئے تھے، وہ چڑھتے ہوئے سیاسی بخار کو محسوس کر رہے تھے، اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر خوب جانتے تھے اس کا انجام کیا ہو گا۔
23نومبر سے 26نومبر تک غیر حاضر رہنے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے، کوششیں ہو گی کہ انہیں نشان عبرت بنا دیا جائے، سخت ترین سزا تو نوکری سے برطرفی ہو سکتی ہے لیکن حرف انکار زبان پر لانے والے کہتے ہیں فیصلہ آنے کے بعد دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔ قانونی نکتہ یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ غیر قانونی احکامات کی تعمیل سے انکار انضباتی کارروائی چیلنج ہو سکتی ہے، یہ انکار ان کے حلف کے مطابق ہے، جب بھی حکومت بدلی برطرف ہونے والے بحال ہوتے دیکھے۔
اڈیالہ سے نئی ہدایات کے مطابق دو بڑے ذمہ داران حکومت کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج کرانے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں، جس کے بعد انہیں روکنے کیلئے دوسری طرف سے کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہے، یہ ایف آئی آر اسلام آباد میں تو شاید درج کرانا ممکن نہ ہو لیکن صوبہ خیبر میں ہائیکورٹ میں درخواست دیئے جانے کے بعد اس کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ وفاقی حکومت میں اس حوالے سے پریشانی کی لہر ہے جبکہ ارکان کابینہ بھی متفکر نظر آتے ہیں ۔ سرکاری طور پر بہت پہلے بتایا گیا تھا کہ احتجاجیوں سے نمٹنے کیلئے اقدامات کی منظوری وفاقی کابینہ نے دی ہے۔ اقدامات کی منظوری یقیناً کابینہ نے دی ہو گی لیکن کہیں یہ نہ کہا ہو گا کہ دیکھو اور گولی مار دو، یہ نوبت بہت بعد میں آئی۔
ارکان کابینہ میں جناب رانا ثنا اللہ وہ واحد شخصیت ہیں، جنہوں نے دو مرتبہ سرکاری موقف کے خلاف جاتے ہوئے سچ بولا، ان کے سچ کو بہت پذیرائی ملی ہے، جبکہ حکومتی حلقوں میں اس پر برہمی ہے۔ انہوں نے صحافی مطیع اللہ جان پر بنائے جانے والے جھوٹے کیس کی مذمت کی، اسے فیک کیس قرار دیا، اب انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم گولی کس نے چلائی۔ اعلیٰ کمیشن بننے کے بعد اس کا کھوج بھی لگا لیا جائے گا، لیکن فی الحال ماڈل ٹائون کیس کی طرز پر رخ موڑنے کیلئے پارلیمانی کمیشن کی بات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ لاہور میں عرصہ دراز قبل 14افراد کرشن نگر میں قتل ہوئے تھے، معاملہ گول ہو گیا، پھر ماڈل ٹائون میں 14قتل ہوئے، کچھ برآمد ہوا نہ کسی کو قتل کے الزام میں سزا ملی، اب تک اسلام آباد میں 12افراد شہید ہوئے، نماز جنازہ کے اجتماعات اور تدفین کی تصدیق ہو چکی ہے، لیکن اعلیٰ اختیاراتی عدالتی کمیشن کی بات ماننے کو کوئی تیار نہیں، شاید اس کی وجہ ایک ہی ہے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، جو کوئی نہیں چاہتا۔ خالص دودھ کے نام پر سستے اور فوری انصاف کے نام پر کچی لسی قوم کا مقدر بنا دی گئی ہے۔ اشرافیہ کا معاملہ ہو تو 10برس بعد حدیبیہ میں اور عرصہ دراز بعد منی لانڈرنگ اور طیارہ سازش کیس میں انصاف بھاگتا دوڑتا سائل کی دہلیز کو چومتا دنیا نے دیکھا۔ اعلیٰ عدالتی کمیشن قائم ہوا تو ’’ تین عورتیں تین کہانیاں‘‘ کی طرز پر ’’ تین مرد تین بیان‘‘ زیر بحث آئیں گے۔ ایک نے کہا ہم نے پانچ منٹ گولیاں چلائیں تو سب بھاگ جائیں گے، دوسرے نے کہا ایک چھٹا لگائیں گے تو کوئی نظر نہ آئے گا۔ تیسرے نے کہا اب ہمیں ریاستی طاقت کو استعمال کرنا پڑے گا۔ یاد رہے یہ بیانات پاک بھارت جنگ کے دوران جاری نہیں کئے گئے بلکہ ان کیلئے جاری کئے گئے جو کہتے تھے ہمارا الیکشن چوری ہوا ہے، پارلیمنٹ انہیں کچھ نہ دے سکتی بلکہ فریق بن گئی، وہ عدالت کے دروازے پر گئے، ٹربیونل جہاں سے 60روز کے اندر انصاف مل سکتا تھا نہ ملا۔ وہ سڑکوں پر آئے پھر بھی شنوائی نہ ہوئی، آج ایک ہفتے بعد بتایا جا رہا ہے کہ ایک شخص 70مسلح افراد کے ساتھ اس احتجاج میں شریک تھا، جو کچھ کیا اس نے کیا۔ ایک لمحے کیلئے اس کہانی کو سامنے رکھ لیتے ہیں۔ دن کی روشنی میں اسے ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے گھیرا ڈال کر پکڑنا تو بہت آسان تھا، پھر بتیاں بجھا کر مشکل طریقہ کیوں اختیار کیا گیا؟، گھیرا ڈالا جاتا، میڈیا اسے کور کرتا اور دنیا کو یہ عظیم کامیابی دکھاتا تو خوب واہ واہ ہو سکتی تھی، مگر واہ کی بجائے آہ کا انتخاب مرنے والوں نے نہیں مارنے والوں نے کیا۔ جناب وزیراعظم پاکستان نے احتجاج ختم کرانے کے سلسلے میں اہم ادارے سے تعلق رکھنے والی اہم ترین شخصیت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے ہمیشہ کی طرح حکومت سے بے حد تعاون کیا، اس حرف شکریہ کو بصد خوشی قبول کرنے کے بجائے وزارت داخلہ نے اعلامیہ جاری کیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ فوج کا پرتشدد ہجوم سے براہ راست ٹکرائو نہیں ہوا، نہ ہی وہ فسادات روکنے پر تعینات تھی۔ ایک طرف سے اظہار محبت، دوسری طرف سے اظہار لاتعلقی کچھ عجب کہانی سنا رہا ہے۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل نعیم لودھی کی بات غور طلب ہے، وہ کہتے ہیں آئی ایس پی آر صورتحال واضع کرے، دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن نے مدرسہ بل کی منظوری کیلئے حکومت کو ڈیڈ لائن دے دی ہے، ساتھ ہی لانگ مارچ کی دھمکی بھی دی ہے، ان کی دھمکی کیا رنگ لاتی ہے۔
7دسمبر کے بعد معاملہ کھلے گا فرینڈلی دھمکی تھی یا کچھ اور جناب وزیراعظم پاکستان 6ماہ کے دوران 5ویں مرتبہ سعودی ولی عہد سے ملے ہیں، کہتے ہیں معاملہ پانی کا ہے، پانی کی کئی قسمیں ہیں، کئی جگہ پایا جاتا ہے۔
قارئین کی خدمت میں دو شعر جو ادا کار نصیرالدین شاہ نے سنائے
جلتے گھر کو دیکھنے والوں پھونس کا چھپر آپ کا ہے
آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے
اس کے قتل پر میں بھی چپ تھا میری باری اب آئی
میرے قتل پر آپ بھی چپ ہو اگلا نمبر آپ کا ہے