Ahmad NaveedColumn

1937ء سے1945ء کا لاہور

تحریر: احمد نوید
موہن داس صاحب نے میکانیکل انجینئرنگ کی تعلیم آئی آئی ٹی بی ایچ یو انڈیا سے حاصل کی۔ انہوں نے شیل انٹرنیشنل سے 2002ء میں 43سال کی خدمات کے بعد ریٹائرمنٹ لی۔ ان کا تجربہ اور علم 22ممالک میں 40مقامات پر کام کرنے پر مشتمل ہے۔ وہ لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنی یادوں کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں۔
میں 12اکتوبر 1937ء کو قلعہ گجر سنگھ، لاہور میں پیدا ہوا، جو اس وقت بھارت کا حصہ تھا۔ میرے آبائو اجداد کئی نسلوں پہلے افغانستان سے آئے اور ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے لیہ کے ایک گائوں میں آباد ہوئے۔ ان کے پاس زمین تھی جو مزدوروں کے ذریعے کاشت کی جاتی تھی۔ لیہ دریائے سندھ کے کنارے واقع تھا۔ وہ اس علاقے میں اقلیتی ہندو برادری کے غیر رسمی رہنما بھی تھے۔ لیہ میں کرشنا مندر تعمیر کرنے اور دیگر خدمات کی بنا پر انہیں گوسائیں کا خطاب دیا گیا۔
میرے والد، چیتن داس، اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور آئے۔ شمال مغربی بھارت میں لاہور ثقافت، تعلیم، تجارت اور فیشن کا مرکز تھا۔ انہوں نے فارمن کرسچین کالج سے کامرس میں گریجویشن کیا، جو ان کے خاندان کے لیے ایک بہت بڑی بات تھی۔ کئی سال بعد، جب ہم اپنے خاندانی پنڈا سے ہرِدوار گئے، تو میں نے اپنے والد کا نام ’’ گوسائیں چیتن داس، بی کام‘‘ کے ساتھ خاندانی رجسٹر میں درج دیکھا۔
میرے والد، جنہیں ہم پاپا جی کہتے تھے، مشہور انقلابی سردار بھگت سنگھ سے چند سال چھوٹے تھے۔ پاپا جی ہمیں بتاتے کہ وہ کالج کی کلاسز چھوڑ کر بھگت سنگھ، راجگرو اور سکھدیپ کے عدالت میں مقدمات دیکھنے جاتے تھے، جہاں وہ تینوں بیفکری سے رس گلے کھاتے اور ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے تھے۔
1932 ء میں، 23سال کی عمر میں، پاپا جی نے گنگا دیوی رنجن سے شادی کی۔ میری ماں، جنہیں ہم بیجی کہتے تھے، نے کم عمری میں اپنی ماں کو کھو دیا اور انہیں نے سخت حالات میں پرورش پائی۔ بیجی کی جلد شادی کر دی گئی اور ان کا زیادہ تر وقت گھریلو ذمہ داریوں میں گزرا۔
میرے بچپن کا زیادہ وقت لاہور کے علاقے کرشن نگر میں گزرا، جہاں ہم نے اپنا گھر بنایا تھا۔ یہ ایک وسیع تین منزلہ مکان تھا جس میں گرمیوں اور سردیوں دونوں کے لحاظ سے خاص انتظامات کیے گئے تھے۔ اس دور کی روایات کے مطابق، بیت الخلا چھت پر تھے اور نیم فلش سسٹم استعمال ہوتا تھا۔
میری کئی یادیں اس دور سے جڑی ہیں، جیسے لوہڑی کا تہوار، چوریاں کھانا، اور دادا جی کے ساتھ دریائے راوی کے کنارے چہل قدمی کرنا۔
مجھے وہ سردیوں کی راتیں یاد ہیں جب ہم منجیوں پر باہر سوتے تھے، اور وہ گرم کھانے لکڑی کے چولہوں پر پکتے تھے۔ یہ بھی یاد ہے کہ کس طرح گدیوں اور رضائیوں کے روئی کو دھونکنے کے لیے دھونکنے والا آتا تھا اور پورا محلہ اس کے گرد جمع ہو جاتا تھا۔ لاہور کی گرمیاں بھی یاد ہیں جب ہم چھتوں پر پتنگ بازی کرتے تھے اور بسنت کا جشن مناتے تھے۔
میری یادیں لاہور کی گلیوں، رسم و رواج، اور اس کے منفرد رہن سہن کی جھلک ہیں، جنہوں نے میرے بچپن کو خوشگوار بنایا۔ چراغوں کی باتی کے ڈھیر کو سرسوں کے تیل میں پہلے سے بھگو دیا جاتا تھا تاکہ آسانی سے جلایا جا سکے۔ سورج ڈھلنے تک ہم نئے کپڑے پہن لیتے تھے۔ چراغ دھو کر خشک کیے جا چکے ہوتے، تیل سے بھرے جا تے، ہر چراغ میں ایک باتی احتیاط سے رکھی جاتی تھی اور چراغوں کو ترتیب سے اپنی پسندیدہ لائنوں کے ساتھ 18انچ سے زیادہ کے فاصلے پر نہیں رکھا جاتا تھا۔ جب چراغ روشن ہوتے تو ہمارا گھر ایک چمکتی ہوئی موتیوں کی مالا پہنے نظر آتا تھا۔ ہمارا گھر ہمیشہ محلے میں سب سے خوبصورت دکھائی دیتا تھا۔ دوسرا خاص موقع دیوالی پر پٹاخے جلانے کا ہوتا تھا، لیکن یہ کام پوجا کے بعد ہی ہوتا تھا۔ ہمیں صبر سے انتظار کرنا پڑتا تھا۔
ہمارے سامنے کی سڑک پر ایک کریانے کی دکان تھی، جو رنگ برنگی سوڈا بوتلیں بھی فروخت کرتی تھی۔ ان بوتلوں میں گول کانچ کے اسٹاپر تھے، جو ایک خاص ڈھکن کے ذریعے مار کر کھولے جاتے تھے۔ یہ مختلف ذائقوں میں دستیاب تھیں، جیسے گلاب، لیموں، نارنجی اور آم۔ ہمیں بچوں کو یہ بہت پسند تھیں، لیکن بی جی کو راضی کرنا آسان نہیں تھا۔ دکان پر رنگ برنگی بل آئی کینڈی بھی ملتی تھی، چھوٹی گول کینڈی جو رنگین دھاریوں سے مزین ہوتی تھیں۔زیادہ تر کریانے کا سامان ہم اسی دکان سے خریدتے تھے۔ البتہ پستہ، بادام، چلغوزے اور ہیگ ( ہینگ) جیسے مصالحے ہم افغان پٹھان فروشوں سے خریدتے تھے۔
وہ افغانستان سے آتے، کندھے پر سفید کپڑے کی جھولی لٹکائے۔ انکے سفید عمامے پر سونے کی کڑھائی ہوتی تھی، اور عمامے کا ایک حصہ بائیں کندھے کے سامنے لٹکتا تھا۔ ان کی لمبی داڑھی ہوتی تھی، جسے مہندی سے رنگا جاتا تھا۔
مجھے سکے کے مختلف فرق یاد ہیں۔ ایک روپے میں 16آنے، ایک آنے میں 4پیسے، ایک آنے میں 2ٹکے، اس طرح ایک ٹکے میں 2پیسے، ایک پیسے میں 2ڈھلے، ایک پیسے میں 3پائی، اور ایک پیسے میں 4دمری۔ ہم دمری سے بھی چیزیں خرید سکتے تھے۔
میری بہنیں سر گنگا رام ہائی اسکول جاتی تھیں۔ وہ اسکول بس کے ذریعے جاتیں۔ بی جی چاہتی تھیں کہ میں بھی وہی اسکول جاں، جہاں لڑکوں کو چھٹی جماعت تک داخلہ دیا جاتا تھا۔ میں ابھی 5سال کا بھی نہیں تھا، اس لیے بی جی نے مجھے محلے کے ماسٹر جی کے اسکول میں داخل کروا دیا۔ یہ ایک کمرے کا اسکول تھا، جہاں پانچ جماعتیں تھیں۔ ماسٹر جی کی میز کے سامنے ایک لمبی، تنگ چٹائی پر ایک جماعت بیٹھتی تھی۔ پانچ قطاریں تھیں۔ میں پہلی جماعت میں تھا۔ وہاں چھ مہینے میں میں نے پانچ پہاڑے، اردو اور ہندی کے پورے حروف تہجی سیکھ لیے۔ مجھے پہاڑے اور حروف دہرانا بہت مزہ دیتا تھا۔
ہم تختی پر کالے قلم اور سیاہی سے لکھتے تھے۔ تختی لکڑی کا ایک مستطیل ٹکڑا ہوتا تھا جسے گاچی سے صاف کیا جاتا۔ ماسٹر جی ہماری تختی پر نشان لگاتے اور اسے دوبارہ صاف کر کے نیا سبق لکھنے کے لیے تیار کرتے۔
ماسٹر جی ہمیں تھوڑی بہت انگریزی بھی سکھاتے تھے۔ اس کے علاوہ بڑی عمر کے لڑکوں کے بنائے گئے کچھ اشعار بھی سنے، جو آدھی چھٹی کے خوشگوار وقت کے لیے تھے، جیسے:
’’ آدھی چھٹی دا ویلا ہو گیا، سمندراں پانی چھو گیا
چھوٹے بابو چیخ ماری، وڈے بابو رو پیا‘‘
یا مارجنگ کے دوران گائے جانے والے اشعار
’’ لیفٹ رائیٹ، تھانے دار دی بے بے آئی‘‘۔
تقریباً پانچ سال کی عمر میں، میری سب سے بڑی بہن نے مجھے سائیکل چلانا سکھایا۔ میں نے یہ ایک مکمل سائز کی مردوں کی سائیکل پر سیکھا۔ یہ ’’ قینچی‘‘ کے طریقے سے ممکن تھا، جس میں آپ سائیکل کے بائیں جانب کھڑے ہو کر ہینڈل پکڑتے ہیں، بائیں پائوں سے پیڈل کو دھکا دیتے ہیں، اور پھر تیزی سے دائیں پائوں کو سائیکل کے فریم کے نیچے سے لے جا کر دوسرے پیڈل پر رکھتے ہیں، اور دونوں پیڈل پر کھڑے ہو کر چلانا شروع کرتے ہیں۔
1940ء کی دہائی کی بات ہے، ایک ہنگامہ خیز دور، جب دنیا دوسری جنگ عظیم کے عروج پر تھی اور ہندوستان آزادی کی جدوجہد، سبھاش چندر بوس کی آئی این اے، اور بنگال کے قحط کے زیر اثر تھا۔ ہمارا اسکول بہت قوم پرست تھا۔ پرنسپل نلینی چیٹرجی تھیں، جو سروجنی نائیڈو کی بہن تھیں۔ اساتذہ بھی مشہور انقلابیوں سے تعلق رکھتے تھے، جیسے ہماری ریاضی کی استاد مسز رائے، جو لالہ لاجپت رائے کی بہو تھیں، اور انگریزی کی استاد مسز بھاٹیہ، جو پنجاب کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ کی اہلیہ تھیں۔
میرے ایک ہم جماعت سدھا ملہوترا تھیں، جو بعد میں بالی ووڈ کی مشہور گلوکارہ بنیں۔ وہ سات سال کی عمر میں بھی بہت اچھی گلوکارہ تھیں۔ ملہوترا خاندان ہمارے قریب رہتا تھا، اور مجھے یاد ہے کہ دونوں خاندان اسٹیج پرفارمنس دیکھنے جاتے تھے۔
یک اور ہم جماعت برجندر سنگھ رائنا تھے۔ ان کے والد، جو اُس وقت ریٹائر ہو چکے تھے، مہاراجہ ہری سنگھ کے دیوان رہ چکے تھے۔ وہ ایک امیر خاندان تھا۔ ان کا بنگلہ بہت بڑا اور پوش علاقے میں تھا، جس میں ان کے ملازمین کے لیے رہائش بھی شامل تھی۔
گھر میں ملک کی آزادی اور پاکستان کے قیام کے بارے میں گفتگو ہوا کرتی تھی۔ آزادی کی اہمیت کا احساس سب کو تھا، لیکن تقسیم کو اتنا بڑا مسئلہ نہیں سمجھا گیا تھا۔ بعد میں ہونے والی ہلاکتیں اور انسانی دکھ نے اس کی شدت کو واضح کیا۔
1999 ء میں، تقریباً 53سال بعد، مجھے لاہور واپس جانے کا موقع ملا۔ یہ ایک عزیزہ کی شادی کی تقریب تھی، جن کی شادی ایک پاکستانی خاندان میں ہوئی تھی۔ میں نے پرانے مقامات دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ مال روڈ، جناح باغ ( پہلے لارنس گارڈن) پرانی گلیاں، اور سر گنگا رام اسکول ۔ تمام جگہیں ویسی کی ویسی تھیں۔ ان یادگاروں کو دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں۔

احمد نوید

جواب دیں

Back to top button