جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( پانچواں حصہ)
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ہر سینٹرل جیل اور بعض ڈسٹرکٹ جیلوں میں انگریز دور کی فیکٹریاں ہیں، جہاں قیدیوں کو مشقت کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ مشقت انہی قیدیوں سے کرائی جا سکتی ہے جنہیں عدالتوں نے قید بامشقت دی ہوتی ہے۔ عدالتوں سے سزا یاب ہونے والوں کو جیل بھیجنے جانے کے اگلے روز ملاحظہ میں پیش کیا جاتا ہے جہاں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ان کی مشقت ڈالتا ہے۔ ایسے قیدی جو سب اچھا کر لیں ان کی فیکٹریوں اور لنگر خانوں کی مشقت سے جان چھوٹ جاتی ہے اس طرح وہ پورا دن اپنی بیرکس یا لنگر خانوں اور فیکٹریوں میں رہتے ہیں۔ باوجود اس کے انہوں نے سب اچھا کیا ہوتا ہے جب کبھی باہر سے کوئی دورہ آجائے خصوصا آئی جی یا ڈی آئی جی جیل خانہ جات تو ایسے قیدیوں کو خانہ پری کے لئے لنگر اور فیکٹری میں کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ سینٹرل جیلوں میں کم از کم پانچ سو کے قریب قیدیوں کو فیکٹریوں میں مشقت کیلئے رکھا جاتا ہے جن میں سے اڑھائی سو کے قریب نے سب اچھا کیا ہوتا ہے جب کہ بقیہ قیدیوں کو فیکٹری میں قالین بافی اور فرنیچر بنانے پر مامور کیا جاتاہے۔ جیلوں میں قیدی دیدہ زیب قالین تیار کرتے ہیں جو عام مارکیٹ میں کم اور جیل افسران کے گھروں اور ان کے بچوں کی شادی بیاہ کے زیادہ کام آتے ہیں۔ کئی عشرے پہلے فیکٹریوں میں اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ فیکٹری کا انچارج ہو ا کرتا تھا اب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ دونوں ہوتے ہیں۔ فیکٹریوں میں چیف اور ہیڈ وارڈر بھی لگائے جاتے ہیں اگر کسی قیدی کو ریسٹ کی ضرورت ہو تو وہ ہیڈ وارڈر یا چیف سے سب اچھا کرنے کے بعد مشقت سے آزاد ہو سکتا ہے۔ مشقت سے استثنیٰ لینے والے قیدیوں کو کم از کم ماہانہ پانچ سے دس ہزار روپے سب اچھا دینا ہوتا ہے ۔ سینٹرل جیل کی فیکٹری میں اڑھائی سو قیدیوں نے سب اچھا کیا ہو تو کئی لاکھ روپے جمع ہوتے ہیں، جن میں فیکٹری کے ڈپٹی اور اسٹنٹ کے علاوہ سپرنٹنڈنٹ جیل اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایگزیکٹو کے علاوہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جوڈیشل کا بھی مبینہ طور پر حصہ ہوتا ہے۔ گو جیلوں میں قیدیوں اور حوالاتیوں کو کچھ بہتر کھانا مہیا کیا جاتا ہے تاہم کھانے کے علاوہ اور بھی انسانی ضروریات ہیں۔ جن قیدیوں کے مالی حالات خراب ہوں جیلوں میں رل جاتے ہیں انہیں کسی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والے قیدی کے برتن صاف کرنے کے علاوہ کپڑے دھو کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ عام طور پر فیکٹریوں سے فرنیچر اور قالین کے ڈیمانڈ اوپر سے آجاتی ہے جسے جیل سپرنٹنڈنٹس نے ہر صورت پورا کرنا ہوتا ہے۔ جن قیدیوں کو مشقت کے لئے فیکٹری بھیجا جاتا ہے انہیں صبح سویرے گنتی کھلتے ہی ایک قطار میں فیکٹری لے جایا جاتا ہے تاکہ کوئی قیدی ادھر ادھر نہ ہو سکے۔ فیکٹری میں ایک مرتبہ جانے کے بعد کوئی قیدی فیکٹری سے اپنے طورپر باہر جانے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ جیلوں میں نظم و ضبط کی بنا کہا جاتا ہے کہا جاتا ہے جیل کے اوپر سے کوئی پرندہ نہیں گزر سکتا۔ جیلوں میں پیش آنے والی پابندیاں اور دیگر مشکلات کا آزاد دنیا میں رہنے والے اندازہ نہیں کر سکتے۔ قارئین کو پڑھ کر حیرت ہو گی جیلوں کے افسروں اور ملازمین کے روبرو پیش کئے جانے والے قیدیوں کو سر جھکا کر بات کرنا ہوتی ہے وہ سر اٹھا کر ان کے روبرو بات نہیں کر سکتے۔ شائد اسی لئے اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نبی حضرت یوسف ٌ نے فرمایا تھا جیل خانہ جہنم کا ٹکڑا ہے۔ جیلوں میں فیکٹری کے علاوہ قیدیوں کو لنگر خانوں، جھاڑو پنجہ، سزائے موت، کھیتی باڑی کے علاوہ جیل افسران کے گھروں میں مشقت کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ جھاڑو پنجہ اور جیل افسران کے گھروں پر انہی قیدیوں کو مشقت کے لئے بھیجا جاتا ہے جن کی قیدی میں ایک دو ماہ رہ جاتے ہیں تا ہم اس کے باوجود ان کی ٹانگوں میں زنجیر پہنا کر جیل سے باہر افسران کے گھروں اور باغیچوں میں مشقت کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ جن قیدیوں کی ٹانگوں میں زنجیر پہنا دی جائے ان کی رہائی تک انہیں اتارنے کی اجازت نہیں ہوتی یہاں تک رات کو سوتے وقت ان کی ٹانگوں کے ساتھ زنجیر لگی ہوتی ہے۔ جن قیدیوں کو صبح سویرے گنتی کھلتے مشقت کے لئے بھیجا جاتا ہے ماسوائے فیکٹری جانے والے قیدیوں کے تمام قیدیوں کو سنٹرل ٹاور جسے جیل کی زبان میں چکر کہا جاتا ہے پہلے حاضری دینا ہوتی ہے۔ چکر میں حاضر ہونے والے قیدیوں کو مختلف مقامات پر مشقت پر بھیجنے کے لئے یہاں تقسیم کیا جاتاہے۔ جن قیدیوں کو مشقت کے لئے سزائے موت سرکل بھیجا جاتا ہے انہیں سزائے موت کے سرکل میں تعییات ہیڈ وارڈرز بذات خود لینے کے لئے صبح چکر آتے ہیں جہاں سے وہ اپنے اپنے سرکلوں کے لئے مشقتی لے کر جاتے ہیں۔ جھاڑو پنجے پر بھیجے جانے والے قیدیوں کے ساتھ ایک مسلح ہیڈ وارڈر کو بھیجا جاتا ہے تاکہ کوئی قیدی ادھر ادھر نہ ہو سکے۔ بسا اوقات تھوڑی قید والے قیدی جنہیں جیل سے باہر افسران کے گھروں اور باغیچے میں بھیجا جاتا ہے جیل ملازمین کو جل دے کر فرار ہوجاتے ہیں جس کے بعد ان کے خلاف ایک نیا مقدمہ درج کرایا جاتا ہے۔ درحقیقت دوران قید انہی قیدیوں کو مشقت کرنا پڑتی ہے جو مالی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں اور جیل والوں کو سب اچھا نہیں دے سکتے۔ جیل کی زبان میں سب اچھا رشوت کو کہا کہتے ہیں۔ کسی قیدی کو کام پڑ جائے تو وہ سب اچھا کرکے کرا سکتا ہے۔ قارئین کو حیرت ہوگی جیل ملازمین کو مبینہ طورپر رشوت دے کر چھٹی لینا پڑتی ہے ایک جیل سپرنٹنڈنٹ ایک وقت میں کم از کم پچاس ملازمین کو رخصت پر بھیج دیتا ہے جس کے عوض ڈیوٹی بک جو ہیڈ وارڈر ہوتا ہے وہ ملازمین سے پیسے جمع کرکے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایگزیکٹو یا براہ راست سپرنٹنڈنٹ جیل کو دیتا ہے۔ بعض ڈی آئی جی عہدہ کے افسر کسی ملازم کو ایک ماہ یا پندرہ روز کی چھٹی درکار ہو تو سب اچھا کئے بغیر رخصت منظور نہیں کرتے۔ پہلے قیدیوں کو معافی دینے کا اختیار ریجن کے ڈی آئی جی کودے دیا گیا تھا لیکن دوبارہ ان سے قید میں معافی دینے کا یہ اختیار واپس لے کر آئی جی جیل خانہ جات نے اپنے پاس رکھ لیا ہے جہاں قیدیوں کو تعلیمی معافی کے حصول کے لئے سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس کالم نگار کو ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہوا ہے لہذا ہمیں ہائی کورٹ کے حکم پر معافی دینے کی منظوری دی گئی۔ ( جاری ہے )