میں صبح کے اخبار کی سُرخی میں ملوں گا
شہر خواب
صفدر علی حیدری
غلطی سب سے ہوتی ہے، مگر وہ ایک ہی ہونی چاہیے، ایک سی نہیں، ورنہ بندہ کہیں کا نہیں رہتا۔ ایک سے زیادہ بار ایک ہی جیسی غلطی، غلطی نہیں ہوتی، حماقت ہوتی ہے۔ گویا غلطی اور حماقت میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ غلطی ایک بار ہوتی ہے اور حماقت بار بار۔ اور شاید ہر بار۔ اس کالم کو پچھلے کالم کا تسلسل جانیے گا ۔
سیاست سیاست سیاست ۔۔۔ اور ریاست ریاست ریاست ۔ اور یاسیت یاسیت یاسیت ۔
کہتے ہیں ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے ۔ ہمارے یہاں تو اسے سوتیلی بنا دیا گیا ہے جی ہاں ظالم سوتیلی ماں۔ سرائیکی میں کہتے ہیں’’ ماں مترائی تے پیو قسائی ‘‘
جی ہاں جناب اب قسائی اور مترائی مل کے اپنے ہی بچوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔
آپ ذرا اندازہ کیجئے کہ عوام بھوکے مر رہے ہیں۔ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ بے روزگاری کے دلدل میں گردن تک دھنس چکے ہیں۔ مہنگائی نے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کا عزم مذموم کر رکھا ہے۔ نوجوان مایوس ہوئے جاتے ہیں۔ پاکستان سے دور بھاگنے کی سعی کر رہے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے بڑوں کو اس کی پروا نہیں ہے۔ وہ اپنے سیاسی کھیل میں گردنوں تک دھنسے ہوئے ہیں۔
واصف علی واصف نے کہا تھا’’ ٹوٹے ہوئے جہاز کو کوئی ہوا راس نہیں آتی‘‘ ۔
ہمارے دل بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ بلکہ ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں۔ حالات نے ہمیں مایوسی کے گرداب میں لا پھینکا ہے مگر ان کو کوئی پروا نہیں ، جن کا پروا کرنا بنتا ہے۔
یہ ہمارے یہاں سیاست کا موضوع ایسا اہم کیوں ہو جاتا ہے کہ مجھ ایسا غیر سیاسی کالم نگار بھی اس پر بات کیے بنا رہ نہیں پاتا۔ ہے ناں میجک !اسلام آباد میں جو کچھ ہوا یہ اس ملک میں جاری سیاسی کشمش کا ایک بیہودہ سا تسلسل ہے۔ بیہودہ کیوں ؟، وہ اس لیے کہ یہ سیاسی لڑائی نہیں رہی۔ یہ دھینگا مشتی ہے۔ یہ انا کی جنگ ہے ( عوام جس سے تنگ ہے ) یہ ’’ نظریاتی ‘‘ جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ کوئی فریق ہار ماننے کو تیار ہی نہیں۔ حتی کہ وہ بھی نہیں جو اندر خانے کب کا ہار چکا، دل ہی دل میں ہار کا اعتراف بھی کر چکا۔ کم از کم اخلاقی لحاظ سے تو ہار ہی چکا ہے۔ سب کے سامنے اعتراف کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے، بڑے ظرف کی بات۔
سو ان کے لیے بہت دور کی بات، استاد من نے کہا تھا اندر کشادگی نہ ہو تو باہر کشیدگی پھیل جاتی ہے۔ اور وہ کشیدگی ہم سب خود دیکھ رہے ہیں۔
عام لوگوں کو تو چھوڑیے ، ان کی بات کرتے ہیں جن کے ہاتھوں میں قلم ہے۔ اور قلم کی تو مالک کل نے قسم خود اٹھائی ہے۔ سو بہت سے دوست اسلام آباد دھرنے پر لکھ رہے اور کئی ایک ساتھی حقائق کا قتل عام کیے جاتے ہیں ، جانے کیوں ؟۔
نیوٹن نے کہا تھا کہ عمل اور ردعمل مقدار میں برابر ہوتے ہیں لیکن سمت میں مخالف ۔ تو کیا عملی زندگی میں بھی یہ سب اسی طرح ہوتا ہے ؟
کیا یہاں بھی عمل اور ردعمل برابر ہوتے ہیں ؟
اسلام عمل کے بعد ردعمل کے برابر ہونے کی بات کرتا ہے ۔ اگر کوئی کسی کو تھپڑ رسید کرتا ہے تو جواب میں تھپڑ کھانے والا بدلہ لے سکتا ہے ( اپنا دوسرا گال پیش کرنا خلاف فطرت ہے ) جس پر عیسائی بھی عمل کرنا کب کا چھوڑ چکے، مگر تھپڑ کی شدت میں برابری لازم ہے۔ کچھ لوگ تو یہ سوچ کر معاف کر دیا کرتے ہیں کہ کہیں ان سے زیادتی نہ ہو جائے۔ ان کا غصہ ردعمل کو بڑھا نہ دے ۔
تحریک انصاف کل تک طاقتور حلقوں کی گڈ بک میں تھی۔ جیسے تیسے اسے جتوایا گیا۔ کم از کم کراچی کی سیٹیں اس کی جھولی میں ڈالی گئیں۔ بد قسمتی سے ایسا پہلی بار نہیں ہوا اور نہ شاید آخری بار۔ ہمارے بڑے یہ کھیل ایک عرصے سے کھیل رہے ہیں۔ ان کو کٹھ پتلیوں کی کوئی کمی نہیں۔ سب سیاسی جماعتوں کے ہاتھ بندھے ہوئے بھی اور رنگے ہوئے بھی۔ سب نے اپنے اپنے وقت پر خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ سب نے قوم کو الو بناتے ہوئے، اپنا اپنا الو خوب سیدھا کیا ہے، اور بار بار سیدھا کیا ہے۔ کہنا بنتا ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ اعتراض انھیں تب ہوتا ہے جب ان کی بجائے ان کے کسی رقیب کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ باریوں کا یہ کھیل ایک عرصہ سے جاری تھا۔ مگر جب سے ایک تیسرا فریق اس کھیل میں داخل ہوا ہے، سارا کھیل الٹ پلٹ گیا ہے۔ تل پٹ سا ہو کر رہ گیا ہے۔ طاقتور حلقے بند گلی میں پھنس چکے ہیں۔ واپسی مشکل لگتی اور آگے جانے کا رستہ نہیں ہے۔ تیسرے فریق کو بھی حلوہ سمجھ لیا تھا تھا۔ مگر وہ حلوہ نہیں تھا، چنا بھی نہیں تھا۔ حکمت سے اسے رام کرنا ممکن تھا مگر ۔۔۔۔۔ وہ ترنوالہ ثابت نہیں ہوا۔ حکم کا غلام نہیں بنا۔ ہر حکم ماننے کو تیار نہیں تھا۔ سوچتا تھا، بولتا تھا، سوال کرتا تھا اور اپنا ایک نکتہ نظر رکھتا تھا۔ اگر وہ جی حضوری کرتا تو کم از کم ایک باری پوری تو اسے مل ہی جاتی مگر ۔۔ اسے درمیان سے غائب کر دیا گیا۔ عدالتی فیصلے کے ذریعے مخالفین کا قتل عام کوئی نیا کام نہیں تھا۔ اسے بھی’’ نظریہ ضرورت ‘‘ کا تسلسل سمجھنا ہو گا۔ آزمائے ہوئے کھوٹے سکے پھر سے ریت پر رگڑ رگڑ کر اور چمکا کر چلائے گئے۔ یہ کام عقل و دانش سے عاری تھا۔ صرف کھوٹے ذہن ہی ایسا کر سکتے تھے، سو انہوں نے ایسا کیا اور اب نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
مکرر عرض ہے
کوئی بھی پہل نہ کرنے کی ٹھان بیٹھا تھا
انا پرست تھے دونوں مفاہمت نہ ہوئی
فریقین خود کو عقل کل سمجھنے کے زغم میں ہیں، طاقتور بپھرے ہوئے ہیں۔ وجہ معقول ہے۔ وقت نے ان کو دو کوڑی کا کر ڈالا ہے۔ خدائوں کا روپ دھار کر آنے والوں کی نقاب الٹی تو وہ اندر سے خواجہ سرا نکلے۔
فراز کیا اچھے وقت پر یاد آئے
تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صحراء نظر آتا تھا سمندر نکلا
سب کے سب غلطی کر بیٹھے ہیں ۔ اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہر فریق خود کو غلطی پر ہونے کے باوجود غلطی پر نہیں سمجھتا ۔ جو لوگ عقل کو ہاتھ مارنے ، مفاہمت کی سیاست کرنے اور حالات کو سدھارنے کی بات کرتے ہیں ، ان کی کوئی سننے کو تیار ہی نہیں ہے ۔
کسی شاعر کی یہ غزل آج کی ملکی سیاسی صورت حال کی ترجمانی کرتی ہے
مجھ سے اونچا تیرا قد ہے ، حد ہے
پھر بھی سینے میں حسد ہے حد ہے
میرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں
تیرا نقطہ بھی سند ہے حد ہے
تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پر
میری ہر بات ہی رد ہے حد ہے
بے تحاشہ ہیں ستارے لیکن
چاند بس ایک عدد ہے حد ہے
اشک آنکھوں سے یہ کہہ کر نکلا
یہ تیرے ضبط کی حد ہے، حد ہے
جو بڑے ہیں وہ کمر کس کر کھڑے ہیں۔ انا کے پجاری بنے ٹھہرے ہیں۔ بڑے ہیں مگر ظرف میں کوتاہ ۔ پہلی بار اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا تو اسے اپنے بونے ہونے کا جان لیوا احساس ہوا ہے۔ انھیں اپنی حد بھول گئی ہے۔ ہر چیز کی حد ہوتی ہے ۔ یہاں تو بات حد سے بڑھ کر بے حد ہو گئی ہے۔ کب تک کوئی غلامی کرے گا۔ کب تک نکتے کو سند مانا جاتا رہے گا ۔
سوشل میڈیا پر ان کی خوب بھد اڑائی جاتی ہے۔ ایک پوسٹ دیکھی ، لکھا تھا
تاریخ کے دو بڑے دھوکے:1، آپ پر امن رہیں ہم آپ پر گولی نہیں چلائیں گے۔2، کوفہ آ جائیں ہم آپ کے ہاتھ بیعت کریں گے۔
ایک اور پوسٹ پر کسی فیس بک صارف نے ایک شعر لکھا تھا
اے میرے دوست ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں
میرا سر بھی تو پڑا ہے میری دستار کے ساتھ
احتشام حسن نے اپنی وال پر کیا خوب شعر ڈالا ہے
جو تم نے مار دئیے ان کو مان تھا تم پر
وہ خوش گماں تھے یہ ہم کو فقط ڈراتے ہیں
ایک اور پوسٹ دیکھیے
کسی نے دیکھا نہیں کون ہے نشانے پر
کسی نے سوچا نہیں گولیاں چلاتے ہوئے
جو ہارنے والے ہیں وہ بھی میرے اپنے ہیں
۔۔۔ میں رو نہ پڑوں تالیاں بجاتے ہوئے
آج وہ تحریک انصاف کو تخریب انصاف کہہ رہی ہیں۔ ملک دشمن اور شرپسند قرار دے رہے ہیں۔ کاش وہ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں۔ ان کو جواب مل جائے گا
کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا کیا اس کی آنکھوں میں حیا بھی نہیں ہوتی ؟
تم اس کا ذکر مٹانا چاہتے ہو مگر ۔۔۔
اس کا اخبار کی سرخی میں ملتا رہے گا