بلا شرکت غیرے
محمد مبشر انوار
انا للہ وانا الیہ راجعون۔27نومبر کو جو کچھ ڈی چوک اسلام آباد میں ہوا، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے کہ کسی ’’ جمہوری ملک‘‘ میں ایسا ہونا تقریبا ناممکن ہے لیکن بدقسمتی تو یہ ہے کہ پاکستان گو جمہوری انداز میں معرض وجود میں آیا تھا لیکن یہاں جمہوری اقدار کا گلا ابتداء میں ہی گھونٹ دیا گیا تھا اور پھر چراغوں میں روشنی ہی نہ رہی۔ پاکستانی سیاستدان دکھاوے کے احتجاج اور مارچ کرکے اپنے جمہوریت پسند ہونے کا جعلی ثبوت پیش کرتے رہے تا کہ کچھ نہ کچھ عوامی بھرم رہ جائے لیکن درحقیقت ان تمام احتجاجوں کے پس پردہ ڈوریاں ہلانے والے ’’ نامعلوم‘‘ ہی رہے کہ ان کی منشا و مرضی کے بغیر پاکستان میں کوئی احتجاج کامیاب ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس میں 60؍70کی دہائی میں ہونے والے جنرل ایوب کے خلاف مظاہروں کو کسی حد تک درست تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اس دور میں محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخابات میں جو مہم چلائی اور اس کا جو حشر ہوا، تاریخ میں رقم ہے تو دوسری طرف جنرل ایوب کے آخری دنوں میں جو مظاہرے و احتجاج شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو نے کئے، ان میں دم خم نظر آتا ہے۔ بعد ازاں 90کی دہائی میں اقتدار کی میوزیکل چیئر پر ہونے والے احتجاج اور مظاہرے ،بلا شک و شبہ ’’ نامعلوم‘‘ افراد کی مکمل شہ پر بروئے کار آئے اور ان کے نتائج بعینہ وہی رہے، جس کی منشا و مرضی اقتدار کے محور و مرکز کو مطلوب تھی۔ اس پس منظر میں میاں نواز شریف کی دوسری حکومت کا تختہ الٹنے پر جو الفاظ میاں نواز شریف نے ادا کئے ، وہ اب تاریخ میں سنہرے حروف سے درج، ان سیاستدانوں کی عوامی حمایت کا جعلی بھانڈا پھوڑنے کے لئے بہت کافی ہیںکہ جب میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ قدم بڑھائو میاں نواز شریف۔ قوم تمہارے ساتھ ہے، قدم بڑھا کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔ بعد ازاں میاں نواز شریف نے اقتدار کو اپنی منزل بنا لیا اور کسی بھی قسم کی عوامی حمایت سے لاتعلق ہو کر، اقتدار کے مرکز و محور پر سجدہ ریز ہو گئے، یہی عالم ’’ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘ کی دعویدار پیپلز پارٹی کا بھی ہو چکا اور اب انتخابی مہم میں عوامی حمایت ایک ڈھکوسلہ ہے جب کہ انتخابات کس طرح اچکے جاتے ہیں، ساری دنیا کو علم ہو چکا ہے۔ تاہم 22برس تک مسلسل سیاسی جدوجہد کرنے کے بعد،2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف واضح اکثریت حاصل کرتی دکھائی دے رہی تھی لیکن شہباز شریف کی اپنی زبانی، کہ وہ انتخابات سے قبل ہی آرمی چیف کے ساتھ اپنی متوقع کابینہ پر مشاورت کر چکے تھے البتہ نواز شریف کے منظوری نہ دینے پر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ تحریک انصاف کا تو خیر یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ 2013ء کا انتخابی معرکہ بھی مار چکی تھی لیکن اسے اقتدار سے جبرا الگ رکھا گیا، اس کی توثیق بہرطور 2024ء کے انتخابی نتائج سے بھی ہوتی ہے کہ 8فروری کی شام تک انتخابی نتائج تحریک انصاف کے حق میں تھے لیکن آدھی رات کے بعد اچانک نہ صرف نتائج کا سلسلہ رک گیا بلکہ اس کا رخ ہی یکسر تبدیل ہو گیا۔
اس کھلی دھاندلی و ناانصافی کے خلاف تحریک انصاف مسلسل احتجاج کرتی دکھائی دے رہی ہے، الیکشن کمیشن ، اعلیٰ عدالتیں اور عدالت عظمیٰ تک، دہائیاں دیتی رہی ہے لیکن مجال ہے کہ ارباب اختیار اس کی چیخ و پکار پر کوئی کان دھرتے دکھائی دیں، اس کے برعکس حالات یہ ہیں کہ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی ہوں یا عام کارکنان، ان کے لئے زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔ قانون کی بالادستی کا علم اٹھائے عمران خان اور ان کے رفقاء دربدر ٹھوکریں کھاتے دکھائی دے رہے ہیں کہ انہیں ریاست پاکستان کے اداروں سے آئین و قانون کے مطابق انصاف فراہم کیا جائے لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ عدالت کے اعلی ترین منصب پر بیٹھے ہوئے ایک شخص نے جانبداری کی انتہا کرتے ہوئے، تحریک انصاف کے ہر جائز موقف کو اپنی انا و بغض تلے روند ڈالا، ایک ایسا شخص، جس کی علمیت کے متعلق کوئی شبہ نہیں لیکن اس نے اس کا استعمال انتہائی جانبداری سے کیا اور آج دنیا بھر میں اپنا منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ دوسری طرف وہ شخص ہے جس نے اپنے کرکٹ کیرئیر میں بھی دھاندلی سے جیتنے کا تصور نہیں کیا بلکہ مخالف کھلاڑی کو اگر شک بھی ہوا کہ اسے غلط آؤٹ دیا گیا ہے اور خود عمران خان کو بھی یہ محسوس ہوا کہ امپائر سے غلطی ہو گئی ہے تو اس نے کھلاڑی کو دوبارہ موقع فراہم کیا، تاہم اس کاوش میں صرف ایک مرتبہ وہ میچ ہارا جبکہ دو مرتبہ ایسا کرنے کے باوجود وہ میچ جیتا ہے۔ یہ چیز اس کے مزاج کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ دھاندلی یا شکوک و شبہات پر اپنی کامیابی نہیں چاہتا بلکہ اصول و ضوابط و قواعد کے مطابق کھیلنا چاہتا ہے اور انہی قواعد کے تحت اپنی کامیابی کو یقینی بنانا چاہتا ہے البتہ ناکامی کا ملبہ اٹھانا بھی جانتا ہے اور اپنی محنت شاقہ سے اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کا ہنر بھی رکھتا ہے، کسی بھی صورت جیت کا مزہ ’’ تھرڈ امپائر‘‘ کی جانبداری سے نہیں چکھنا چاہتا۔
اس کا عکس اس کی سیاسی جدوجہد میں بھی واضح نظر آتا ہے، آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے، وہ اپنی کوششیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے جاری رکھے ہوئے ہے، گو کہ اس پر قائم مقدمات بدنیتی و سیاسی انتقام پر مبنی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ، تمام تر ترامیم، انصاف کا حصول انہی عدالتوں سے مانگ رہا ہے جبکہ حیرت اس امر پر ہوتی ہے کہ پردہ سکرین پر موجود حکومت وقت اور پس پردہ حکومت، اسے اس انصاف سے بھی محروم کرنے کے درپے ہیں۔ عدالتی کارروائی کے نتیجہ میں جیسے ہی اس کی رہائی کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، اس پر ایک نیا مقدمہ درج کر دیا جاتا ہے اور اسے پھر پابند سلاسل رکھا جاتا ہے گو کہ ہر نئے مقدمہ کا انجام وہی ہے جو اس سے پہلے مقدمات کا ہے، لیکن مقصد چونکہ اسے اسیر رکھ کر دبائو میں لانا ہے، توڑنا ہے، اپنی بے جا بات منوانی ہے، اس لئے عدالتی کارروائی میں الجھائے رکھنا ہے۔ تاہم عمران خان کے اعصاب کس قدر مضبوط ہیں، اس کا اندازہ اس کے مخالفین کو بخوبی ہو چکا ہے، علاوہ ازیں! اس کی عوامی حمایت کس درجہ بلند ہو چکی ہے، اس کا احوال نے ارباب اختیار کی کانپیں ٹنگوا دی ہیں، یہی وجہ ہے کہ بتدریج عوام کو اپنے حقوق کے لئے متحرک رکھے ہوئے ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے مخالفین ایک وقت میں تحریک انصاف کے کارکنوں کو برگر بچے کہہ کر پکارتے تھے، عمومی تاثر بھی یہی تھا کہ اس کے کارکنان ناز و نعم میں پلے بڑھے ہیں، وہ انتظامیہ کی سختیاں برداشت نہیں کر پائیں گے لیکن اس کی تربیت کا اثر ہے کہ وہ ممی ڈیڈی بچی، جنہیں کل تک مخالفین برگر بچے کہتے رہے، آج ڈٹ کر پر امن طریقے سے میدان میں کھڑے حکومتی سختیوں کا سامنا ، جوانمردی و پامردی و ہمت سے مقابلہ کرر ہے ہیں۔ 24نومبر کی فائنل کال میں کے پی سے عوام کی شمولیت تو یقینی تھی ہی لیکن بلوچستان، سندھ سے قافلوں کی شمولیت نے عمران خان کو بلاشک و شبہ پاکستان کا رہنما ثابت کیا ہے جبکہ پنجاب میں فاشزم کے مظاہرے کے باوجود زرتاج گل وزیر، شوکت بسرا اور حامد رضا کے قافلوں نے کمال ہمت کا مظاہرہ کیا ہے تاہم جب تک پنجاب اس جدوجہد کا بھرپور حصہ نہیں بنے گا، اس کی کامیابی کے امکانات مشکوک رہیں گے ۔
دو ؍ تین دن تک یہ قافلے ریاستی جبرو ستم کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اور 26نومبر کی شام یہ قافلے اپنی منزل مقصود ’’ ڈی چوک‘‘ پہنچ گئے، رات نو بجے اطراف کی روشنیاں گل کر دی گئی اور وزیرداخلہ و اطلاعات کی دھمکیاں میڈیا پر سنائی دینے لگی کہ شر پسندوں کو ’’ پانچ منٹ‘‘ میں منتشر کر دیا جائے گا۔ پرامن ، نہتے مظاہرین، جن کی تربیت یہ تھی کہ نہ کوئی گملا ٹوٹا، نہ کسی شجر کے ٹوٹنے کی اطلاع، نہ کسی کی نجی ملکیت کو نقصان کی خبر بلکہ اس برعکس اسلام آباد و راولپنڈی کے شہریوں نے ان مظاہرین کو نہ صرف کھانا بلکہ کمبل وغیرہ تک فراہم کئے، ایسے پر امن شہری، جو اپنے حقوق کی خاطر دارالحکومت آئے تھے، ان کو نماز پڑھتے ہوئے، کنٹینر سے گرا کر شہید کیا گیا، ان پر سیدھی فائرنگ کرکے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ’’ چند شہری‘‘ جبکہ غیر سرکاری ذرائع اس کی تعداد سیکڑوں میں بتا رہے ہیں، کس ریاست کی خدمت کی گئی ہے؟ کیا اس سفاکیت کے بعد، ارباب اختیار یہ سمجھتے ہیں کہ عوام اس ظلم کو بھول جائیگی یا عمران خان کے نعرہ ’’ حقیقی آزادی‘‘ کے مزید قریب ہو گی؟ کیا عمران خان اپنی صف میں، اپنے نام پر ووٹ لے کر منتخب ہونے والی کھوٹے سکوں والی قیادت کے ہمراہ، اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کر پائے گا؟ کیا یہ واقعہ اس امر کی غمازی نہیں کر رہا کہ 77سالوں سے بلاشرکت غیرے، اس ریاست کے سیاہ و سفید کے’’ مالکان‘‘ کو اپنا قبضہ شدید ترین خطرے میں نظر آرہا ہے؟27نومبر کو ہونے والے ظلم و ستم و سفاکیت نے ماضی کی ان واقعات، جن پر راقم ہمیشہ خود معترض رہا کہ یہ بہتان ہیں، آج جھٹلانے سے قاصر ہے اور ان کی صداقت اس عمل نے خود فراہم کی ہے۔ کیا یہ بوکھلاہٹ، جھلاہٹ، اس حقیقت کی ترجمانی نہیں کہ جس عوام کے لئے نواز شریف نے کہا تھا کہ پیچھے مڑ کر دیکھا، کوئی بھی نہیں تھا، آج اس کے سیاسی مخالف کے اسیر ہونے کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں اس کی رہائی کے لئے ریاست کے سامنے کھڑی ہے؟ کیا وزیراعظم کا سپہ سالار کا شکریہ اس دعویٰ پر مہر تصدیق ثبت نہیں کر رہا کہ یہ حکومت کس کے مرہون منت معرض وجود میں آئی ہے؟ کیا وزیراعظم نے سپہ سالار کی لئے بہت بڑی مشکل کھڑی نہیں کر دی کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے؟ عمران خان کے سامنے بھی دو راستے ہیں، ایک یہ کہ جیل میں بیٹھا اپنے لئے سہولیتں حاصل کر لے، دوسرا یہ کہ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ریاست پاکستان کے لئے حقیقی آزادی حاصل کر لے، وہ حقیقی آزادی کے لئے پرعزم ہے اور اس کا ماضی اس کا گواہ ہے کہ وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے والا نہیں۔ جس قدر عوامی طاقت و حمایت اسے میسر ہے، وہ اب بیساکھیوں پر نہیں بلکہ تخت پر ’’بلاشرکت غیرے‘‘ براجمان ہو کر،77سال سے بلا شرکت غیرے اس ریاست کو پہنچائے گئے نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کرنے اور ریاست پاکستان کی ترقی کے لئے بروئے کار آنے کا خواہشمند ہے۔