پاکستانی سیاست میں احتجاج، دھرنوں کی داستان
باغ و بہار
ایم فاروق قمر
پاکستان کی سیاست میں احتجاجی دھرنوں، مظاہروں اور مارچوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ان مارچوں اور دھرنوں میں سیاستدان اور مذہبی رہنما حکومت وقت کے خلاف متحد ہوئے۔ ان میں سے بعض کو کامیابی ملی جبکہ بعض اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ماضی میں ہونے والے ان دھرنوں کے باعث بعض حکمرانوں کو اقتدار سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ پاکستانی سیاست میں لانگ مارچ اور دھرنے اہمیت تو رکھتے ہیں، لیکن اکثر حکومتیں ان سے خائف نہیں ہوتیں۔
احتجاج کو انگریزی میں (PROTEST)کہا جاتا ہے، جس کی تعریف یوں کی گئی ہے:
ایک احتجاج جسے مظاہرہ بھی کہا جاتا ہے، مخصوص واقعات، پالیسیوں، سیاست یا صورت حال کے حوالے سے الفاظ یا عمل کے ذریعے کسی اظہار خیال کے اظہار کا نام ہے۔
احتجاج اور مظاہروں کے مختلف مقاصد ہوسکتے ہیں جن میں درج ذیل مقاصد نمایاں ہیں ۔
1۔ اپنے جائز مطالبات اور حقوق کے حصول کیلئے۔
2۔ ظالم کو ظلم سے روکنے اور مظلوم کی حمایت کیلئے۔
3۔ شعائر اسلام کے تحفظ اور اسلام کی قوت کے اظہار کیلئے۔
4۔ حاکمِ وقت کے فیصلے کی حمایت یا مخالفت میں۔
5۔ منکرات کی روک تھام کیلئے ۔
6۔ قوانین اسلام کے نفاذ کیلئے ۔
احتجاج کرنا انسان کی جبلت میں شامل ہے اور اس کا پیدائشی حق ہے۔ بچہ دنیا میں آتے ہی احتجاج کرتا ہے جب تک بچہ روئے نہیں ماں دودھ نہیں دیتی۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : ’’ اللہ یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص دوسرے کے متعلق اعلانیہ بری بات کرے الا یہ کہ اس پر ظلم ہوا ہو اور اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔
یعنی اگر کسی شخص میں کوئی دینی یا دنیوی عیب پایا جاتا ہے تو اسے سر عام ذلیل کرنا جائز نہیں اور نہ ہر شخص کو بتانا جائز ہے، کیونکہ یہ غیبت ہے اور غیبت قطعی حرام ہے۔
نبی کریمؐ کے فرمان مبارک سے بھی احتجاج کا جواز ملتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ’’ نبی کریمؐ کے پاس ایک شخص آیا ، اس نے اپنے ہمسائے کی شکایت کی۔ آپؐ نے فرمایا ’’ جائو اور صبر کرو ‘‘۔ وہ پھر آپؐ کے پاس دو یا تین بار آیا تو آپؐ نے فرمایا ’’ جا اپنا سامان راستے پر ڈال دے ؐؐ۔ چنانچہ اس نے اپنا مال متاع راستے پر ڈال دیا ۔ لوگ اس سے پوچھنے لگے ( کہ کیا ہوا ؟ ) تو اس نے انہیں اپنے ہمسائے کا سلوک بتایا۔ تو لوگ اسے لعنت ملامت کرنے لگے۔ اللہ اس کے ساتھ ایسے کرے اور ایسے کرے۔ تو وہ ہمسایہ اس کے پاس آیا اور اس سے بولا : اپنے گھر میں واپس چلے جائو۔ ( آئندہ ) میری طرف سے کوئی ناپسندیدہ سلوک نہیں دیکھو گے۔
سامان گھر سے باہر نکال کر رکھنا ایک پر امن احتجاج تھا، جس کی رسولؐ اللہ نے ترغیب دی۔ اسی طرح کوئی شخص باوجود وسعت کے دوسرے کا حق نہ دیتا ہو تو اس کو طعن و ملامت کرنا بھی جائز ہے۔
احتجاج کرنا سب کا جمہوری حق ہے اور یہی جمہوریت طرز حکومت کا حسن ہے مگر احتجاج کرنے کے بھی کوئی قاعدے قانون ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ احتجاج کے نام پر اپنے ہیروز شہداء کی بے حرمتی کی جائے اور ملک کو نقصان پہنچایا جائے۔ احتجاج کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ آپ پر امن رہیں اور اپنی زبان کو اخلاق کے ہاتھوں نہ گرائیں جو نہ صرف آپ کی پہچان بنتی ہے بلکہ نسلوں کا بھی پتہ بتا دیتی ہے ۔ احتجاج عوام کا حق ہے، سیاسی جماعتوں کا حق ہے مگر احتجاج با مقصد ہونا چاہیے۔ احتجاج کو اپنی انا اور ضد نہیں بنانا چاہیے بلکہ ملکی مفاد میں ہونا چاہیے۔ احتجاج تو ایوب خان کی آمریت کے خلاف بھی ہوتے رہے ہیں۔ طلبہ تحریک احتجاج کے طور پر بڑی مشہور ہے اور احتجاج تو بھٹو کے 1977ء کے الیکشن میں بھی ہوتے رہے ہیں جو بالآخر مارشل لا پر اختتام پذیر ہوئے۔
احتجاجوں، دھرنوں اور لانگ مارچ سے نہ صرف معیشت کا نقصان ہوتا ہے، ملک کا نقصان ہوتا ہے بلکہ انہی احتجاجوں انہی دھرنوں لانگ مارچوں اور سیاستدانوں کی انا اور ضد کی وجہ سے ملک میں چار مارشل لا لگ چکے ہیں۔
اسلام آباد میں پہلا احتجاج:
دارالحکومت اسلام آباد میں پہلا بڑا مظاہرہ چار اور پانچ جولائی 1980ء کو ہوا تھا، جب مذہبی جماعت تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے سابق صدر ضیاء الحق کے زکوٰۃاور عشر آرڈیننس کے خلاف پارلیمنٹ ہاس کے سامنے دھرنا دیا۔
اس دھرنے میں ہزاروں افراد شریک تھے اور ان کا موقف تھا کہ زکوٰۃ اور عشر آرڈیننس میں شیعہ برادری کو نظر انداز کیا گیا۔
دو روز تک جاری رہنے والے اس دھرنے کے لیے نہ تو پولیس کی مدد سے کنٹینر لگا کر سڑکیں بند کی گئیں اور نہ ہی لاٹھی چارج یا آنسو گیس کا استعمال ہوا۔ مجبوراً حکومت نے شیعہ مکتبہ فکر کو اس آرڈیننس سے مستثنیٰ رکھنے کا مطالبہ تسلیم کر لیا
بے نظیر بھٹو کا لانگ مارچ:
نوے کی دہائی تک اسلام آباد میں دھرنے دینے یا مارچ کرنے کا رواج اس قدر عام نہ تھا۔ اگر کسی سیاسی جماعت کے کچھ کارکن اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاس کے سامنے پہنچ بھی جاتے تو کچھ دیر جھنڈے لہرانے کے بعد روانہ ہوجاتے تھے۔
بی نظیر بھٹو نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف 1990ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے 16 نومبر 1992ء کو ایک لانگ مارچ کا اعلان کیا ۔یہ وہ وقت تھا جب نواز شریف کی حکومت اور اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے درمیان کشمکش شروع ہوچکی تھی اور بے نظیر بھٹو نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ شروع کیا۔
انہی دنوں فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے اور جنرل وحید کاکڑ کو نیا آرمی چیف بنا دیا گیا تھا۔
چھبیس مئی 1993ء کو نواز شریف کی حکومت کو سپریم کورٹ کے احکامات پر بحال کیا گیا اور اسی سال 16جولائی 1993ء کو بے نظیر بھٹو نے ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ کیا۔ تاہم، اس مرتبہ انہیں اسلام آباد خاردار تاروں سے بند ملا۔
اس صورت حال میں فوجی سربراہ جنرل وحید کاکڑ نے صدر اسحاق اور وزیرِ اعظم نواز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔
جماعتِ اسلامی کا ملین مارچ:
جماعت اسلامی کو اسلام آباد میں ہنگامہ خیز مارچ کرنے کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
جماعت اسلامی کے پرجوش کارکنوں کی پولیس کے ہاتھوں پٹائی اور کارکنوں کے ہاتھوں پولیس کی پٹائی کے کئی عینی شاہدین آج بھی ان مظاہروں کو بھول نہیں پائے۔ جماعت اسلامی نے پہلا مارچ، ستمبر 1996ء میں قاضی حسین احمد ک قیادت میں ملین مارچ کی صورت میں کیا۔ جس کا مقصد اس وقت کی وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ تھا۔ اسلام آباد پولیس نے مارچ کے شرکا کو تین روز تک آبپارہ کے قریب روکے رکھا۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب اسلام آباد کے مکینوں نے آنسو گیس سے مکمل آشنائی حاصل کی اور اس دھرنے کے دوران آبپارہ مارکیٹ کے قریب گھروں میں شیل گرتے رہے۔
جماعت اسلامی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور دھرنے کے تیسرے روز مظاہرین کو پارلیمنٹ ہاس کے سامنے، موجودہ ڈی چوک تک جانے کی اجازت دی گئی۔
جماعت اسلامی کے کارکنان نے وہیں نماز ادا کی اور سلام پھیرنے کے ساتھ ہی ہوا میں آنسو گیس کے شیل چلنے لگے۔ لیکن پارلیمنٹ ہائوس تک پہنچنے کا دعویٰ پورا کرنے کے بعد جماعت اسلامی کے کارکن شام تک منتشر ہو گئے۔ اس دھرنے کے ایک ماہ بعد اسی دھرنے کو عوامی ردعمل سمجھتے ہوئے اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔
وکلا کا لانگ مارچ:
نو مارچ 2007ء کو اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو عہدے سے ہٹائے جانے پر وکلا نے عدلیہ کی بحالی کے لیے تحریک چلائی۔
تحریک کی وجہ سے ملک بھر میں احتجاج شروع ہوا اور پھر جسٹس افتخار چودھری، وکلا رہنمائوں اعتزاز حسن، منیر اے ملک اور علی احمد کرد کی قیادت میں جون 2008ء میں پہلا لانگ مارچ کیا گیا۔ جو بآسانی پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکا۔
نواز شریف نے اعتزاز احسن سے وکلا کے لانگ مارچ کو دھرنے میں تبدیل نہ کرنے کی درخواست کی تھی اور وکلا منتشر ہو گئے تاہم یہ تحریک ختم نہ ہوئی اور مارچ 2009ء کو ایک بار پھر لانگ مارچ کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس بار یہ مارچ لاہور سے نواز شریف کی قیادت میں شروع ہوا اور اسے روکنے کے لیے اسلام آباد اور راولپنڈی کو کنٹینروں کا شہر بنا دیا گیا۔ لیکن یہ مارچ ابھی گوجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ اس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے تمام ججز کو بحال کرنے کا اعلان کر دیا۔
کہا جاتا ہے کہ اس معاملے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کردار ادا کیا اور نواز شریف کو لانگ مارچ روکنے کے لیے کہا تھا۔
سولہ مارچ 2009کو وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت تمام معزول ججوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا اور یوں یہ مارچ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
طاہر القادری کا مارچ:
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے 2013ء میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کیا۔
سترہ جنوری 2013ء کو اسلام آباد کی سخت سردی میں چار روز تک جاری رہنے والے دھرنے کا اختتام حکومت اور مظاہرین کے درمیان کامیاب مذاکرات پر ختم ہوا۔ سیکڑوں مرد و خواتین کو فتح کی نوید سنائی گئی۔ جس میں مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا اور تمام مظاہرین پُرامن طور پر منتشر ہو گئے۔
اگست 2014ء میں طاہر القادری نے ماڈل ٹان سانحہ کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اسلام آباد کی طرف ایک مرتبہ پھر مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا:
پاکستان تحریک انصاف نے 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی اور قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی نہ کرائے جانے کے خلاف 14اگست 2014ء کو اسلام آباد کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا۔
لاہور سے شروع ہونے والا یہ مارچ دو روز میں اسلام آباد پہنچا۔ جہاں اُنہیں پہلے زیرو پوائنٹ اور پھر آبپارہ چوک رُکنے کی اجازت دی گئی۔ آبپارہ چوک میں پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف الگ الگ اپنے جلسے کرتے رہے اور پھر انہوں نے پارلیمنٹ ہاس کے سامنے جانے کا اعلان کیا۔ ان دنوں چائنہ کے صدر کا پاکستان کا سرکاری دورہ تھا جو کہ دھرنے کی وجہ سے ملتوی ہوا اور ملک کا نقصان ہوا۔
پاکستانی تاریخ میں طویل ترین دھرنا برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف نے بطور اپوزیشن جماعت 2014ء میں اسلام آباد میں دیا۔ ہزاروں کی تعداد میں پولیس، ایف سی اور کنٹینرز کی دیواریں، لیکن سب رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے عمران خان اور طاہر القادری 20اگست کو ریڈ زون میں داخل ہوگئے۔ اس دوران حکومت نے تمام فورس کو پیچھے ہٹا لیا۔
اس کے بعد پارلیمنٹ ہاس کے سامنے 18دسمبر تک ایک طویل دھرنا دیا گیا۔ جس میں دھرنے کے شرکا نے پارلیمنٹ ہاس اور وزیرِ اعظم ہائوس کی طرف مارچ بھی کیا۔ آنسو گیس کی برسات ہوئی، ہزاروں شیل فائر کیے گئے، سپریم کورٹ کے گیٹ پر کپڑے لٹکائے گئے۔ ڈی چوک میں جلیبی کی دکانیں بھی کھلیں۔ ڈی جے بٹ کے ترانے بھی چلے۔ لیکن بالاخر 70دن کے بعد طاہر القادری اور 126دن بعد عمران خان بھی دھرنا ختم کر کے روانہ ہوگئے۔ اس دھرنے میں پارلیمنٹ ہائوس پر حملہ کیا گیا اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن پر حملہ کیا گیا۔ یہ دھرنا پاکستانی تاریخ کا طویل ترین دھرنا تھا۔ دراصل عمران خان اپنے آپ کو دھرنوں کاسب سے بڑا ماسٹر مائنڈ بھی کہتے ہیں۔
علامہ خادم رضوی کا دھرنا:
نومبر 2017ء میں مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور نواز شریف وزارت عظمیٰ کا منصب عدالت کی طرف سے نااہل قرار دئیے جانے کے بعد چھوڑ چکے تھے۔ ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیرِ اعظم تھے۔ انتخابی فارم میں تبدیلی کے خلاف اور توہین مذہب کا نعرہ لگا کر تحریک لبیک جیسی غیر معروف دینی جماعت نے اسلام آباد کا رُخ کیا اور راولپنڈی اسلام آباد کو ملانے والے فیض آباد چوک کے مقام پر22دن تک دھرنا دیا۔
بائیس روز تک جاری رہنے والے اس دھرنے کی وجہ سے جڑواں شہروں کے درمیان سفر کرنے والے لاکھوں شہری شدید مشکلات کا شکار ہوئے۔ روزانہ فیض آباد میں مختلف ججز اور حکومت کو گالیاں دی جاتی رہیں۔ جس کے بعد وفاقی پولیس نے ایکشن شروع کیا اور سو سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ بعد ازاں بات مذاکرات پر آکر رُکی اور اس وقت کے وزیرِ قانون زاہد حامد کے استعفے کے بعد موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے بطور ضامن دستخط کے ساتھ خادم رضوی کا یہ دھرنا کامیابی حاصل کرنے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ اب کی بار پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر 2024ء کو فائنل کال کے طور پر اسلام آباد میں دھرنا دیا جب کہ اپنی دنوں میں بیلا روس کا سرمایہ کاری کا وفد اور بیلا روس کے صدر پاکستان میں سرکاری دورے پر انہی تاریخوں میں آئے ہوئے ہیں۔ جن کا مقصد پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرنا اور معاہدوں پر دستخط کرنا تھا اور اسی موقع پر احتجاج، دھرنا دینا کوئی عقل مندی کی بات نہیں۔ دھرنوں میں انا ضد کی وجہ سے ہم اپنے دوست ممالک اور مذہبی بھائی کو بھی نہیں بخشتے۔ پاکستان جیسے تھرڈ ورلڈ ممالک میں سیاست بھی اٹلی کے مافیا کی طرح ہے جہاں داخل ہونے کا دروازہ کھلا ہے مگر واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔
اب پاکستانی سیاست دانوں کو اپنے اختلافات بھلا کر قومی مفاد کے یک سو ہونا چاہیے کیونکہ پاکستانی عوام کو اب احتجاج، دھرنوں اور لانگ مارچ کی ضرورت نہیں بلکہ عوام کو مہنگائی سے نجات، روزگار اور ریلیف کی ضرورت ہے۔