جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( حصہ چہارم)
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
اگر کسی قیدی کو اپنی بیرک سے کسی دوسری بیرک میں جانے کی خواہش ہو تو اسے اپنی بیرک کے انچارج ہیڈ وارڈر کو مبینہ طور پر رشوت دے کر جانا پڑے گا ورنہ قیدی کسی دوسری بیرک میں نہیں جا سکے گا۔ حقیقت یہ ہے بیرک انچارج ہیڈ وارڈر مجبور ہوتا ہے اسے ماہانہ بھتہ چیف چکر یا امدادی چکر جو وارڈر وغیرہ ہوتے ہیں انہیں ماہانہ رقم جمع کرانا ہوتی ہے۔ بیرک انچارج نے ماہانہ طور پر مقررہ رقم دینے کے علاوہ اپنے لئے بھی کچھ رقم بچانا ہوتی ہے لہذا قیدیوں سے رشوت لینا اس کی مجبور ی ہوتی ہے۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے جیل ملازمین صبح پانچ بجے اندرون جیل ڈیوٹی کے لئے داخل ہوتے ہیں سردیوں کے موسم میں انہیں چھ بجے صبح ڈیوٹی پر آنا ہوتا ہے لہذا ان کا ناشتہ اور دوپہر کے کھانے کا بندوبست قیدیوں نے کرنا ہوتا ہے۔ بیرک انچارج اور سینٹرل ٹاور ( چکر) میں تعینات ملازمین کے لئے ناشتے اور دوپہر کے کھانے کا انتظام ایسے قیدیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے جنہیں جیل کی زبان میں ٹوری کہا جاتا ہے۔ ایسے قیدیوں نے بیرکس میں اپنے اپنے ڈیرے بنائے ہوتے ہیں جیسا کہ ہم پہلے کالم میں بیان کر چکے ہیں اچھے گھرانے کے قیدیوں اور حوالاتیوں کو اپنے پاس رکھنے والے ٹوری حوالاتیوں اور قیدیوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے وہ بیرک انچارج اور سنٹرل ٹاور والے ملازمین کی دیکھ بھال کریں۔ حوالاتیوں کو عام لباس پہننے کی اجازت ہوتی ہے لیکن قیدیوں کو اپنے لئے مختص کپڑوں کے علاوہ عام لباس پہننے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بیرک انچارج سے اچھی علیک سلیک رکھنے والے قیدی عام لباس پہن سکتے ہیں۔ اگر ان کا بیرک انچارج سے سب اچھا نہ ہو تو انہیں قصوری بلاک میں بند کیا جا سکتا ہے۔ بیرک میں قیدیوں کے درمیان معمولی تکرار ہوجائے تو جیل والوں کے مزے ہوجاتے ہیں۔ انچارج بیرک فریقین میں معاملے کو ٹھیک نہ کر سکے تو دونوں فریقوں کو سینٹرل ٹاور لے جا کر پیش کیا جاتا ہے جہاں مال پانی دینے والے قیدیوں کو کچھ نہیں کہا جاتا ہے اگر کوئی غریب قیدی ہو تو اس کی اچھی طرح درگت بنائی جاتی ہے۔ قارئین کے ذہن میں سوال آتا ہوگا لڑائی جھگڑا کرنے والے دونوں فریقوں کو سنٹرل ٹاور پیش کرنے کے بعد کیا ہوتا ہوگا تو دونوں صورتوں میں فریقین میں اگر صلح صفائی ہو جائے تو بھی دونوں فریقوں کو مبینہ طور پر رشوت دے کر جان بخشی کرانی پڑتی ہے ورنہ دونوں پارٹیوں کو قصوری بلاک بند کر دیا جاتا ہے۔ قصوری بلاک کی کہانی بڑی دلچسپ ہے قصوری بلاک بند کئے جانے والے قیدیوں کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی اور انہیں سرکاری لنگر سے آنے والے کھانے پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ عام بیرکس میں قیدیوں نے اپنی تیار کردہ انگھٹیاں رکھی ہوتی ہے حالانکہ جیل مینوئل میں کسی قیدی کو اپنے طور پر انگھیٹی رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ چونکہ قیدیوں کے پاس انگٹھیاں رکھنے کی رسم بہت پرانی ہے لہذا کسی جیل میں ایندھن جلانے پر پابندی نہیں ہے۔ اس نظام سے جیل والوں کو بھی خاصا فائدہ ہے۔ کھاتے پیتے گھرانوں سے جیلوں میں آنے والے اپنے لئے کھانا خود تیار کراتے ہیں اس مقصد کے لئے انہیں غریب گھرانوں سے آنے والے قیدی اور حوالاتی کام کاج کے لئے آسانی سے میسر ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لاوارث قیدی حوالاتی ٹوری حوالایتوںا ور قیدیوں کے کپڑوں کی دھلائی اور انہیں استری کرکے دیتے ہیں۔ جیل مینوئل میں الیکٹرک استری رکھنے پر پابندی ہے بہت سی جیلوں میں قیدیوں نے الیکٹرک استریاں رکھی ہوتی ہیں۔ اگر الیکٹرک استری میسر نہ ہوتو سلور کے برتن کی استری بنا کر کپٹرے استری کرلئے جاتے ہیں۔ کپڑے استری کرنے کا کام خوشحال گھرانوں سے آئے ہوئے قیدی انہی لاوارث قیدیوں سے کراتے ہیں۔ بیرکس میں واش رومز چند ایک ہوتے ہیں ٹوری قسم کے قیدیوں نے اپنے لئے واش روم مخصوص کیا ہوتا ہے جہاں ان کے ڈیرے پر قیام کرنے والے خوشحال گھرانوں کے قیدی حوالاتی جا سکتے ہیں۔ یہ تمام امور ایسے نہیں طے ہوجاتے ہیں ڈیرے دار قیدیوں کو ماہانہ بھتہ دینا پڑتا ہے۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی خوشحال گھرانوں کے قیدیوں اور حوالاتیوں کی ملاقات کے لئے کوئی آتا ہے تو ڈیرے کا انچارج قیدی جسے جیل کی زبان میں ٹوری کہا جاتاہے وہ قیدی کے ساتھ ملاقاتی شیڈ تک جائے گا۔ جب وہ ملاقات کرکے شیڈ سے باہر آئے گا تو گھر والوں کی طرف سے جو رقم دی جاتی ہے وہ ٹوری قیدی اپنے پاس رکھ لیتا ہے تاکہ جیل ملازمین پوری کی پوری رقم اپنے پاس نہ رکھ لیں۔ چنانچہ ملاقات سے واپس آنے والے قیدی سے جو رقم ٹوری قیدی نے لی ہوتی ہے اس میں سے کچھ رقم وہ تلاشی کرنے والے انچارج کودے کر بقیہ رقم اپنے ساتھ بیرک میں لے جاتے ہیں۔ گو قیدیوں کے لئے اپنے پاس نقد رقم رکھنے کی اجازت تو نہیں ہوتی نئے نظام میں قیدیوں کو بینک اکائونٹ کھولنے کی اجازت ہے۔ اگر انہوں نے کوئی اشیاء خریدنی ہو تو یوٹیلیٹی سٹورز سے خرید سکتے ہیں جس کے بعد ان کے اکائونٹ سے مطلوبہ رقم وصول کر لی جاتی ہے۔ جیلوں میں پی پی اکائونٹ بھی مبینہ طور پر کرپشن کا شعبہ ہے جہاں سے قیدی جمع کرائی گئی رقم سے کچھ رقم دے کر نقد رقم وصول کر لیتے ہیں۔ پی پی اکائونٹ پر مامور ہیڈ وارڈر کو باقاعدہ ماہانہ بھتہ دینا ہوتا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے جیلوں میں یوٹیلیٹی سٹورز کھلنے کے باوجود پرائیویٹ کنٹین کنٹریکٹرز قیدیوں کو اشیائے ضرورت کیونکر فراہم کرتے ہیں؟ بعض جیلوں میں پی پی اکاونٹس میں مبینہ طور پر بے قاعدگیوں کی شکایات پر انکوائریاں ہو چکی ہیں جیسا کہ سینٹرل جیل راولپنڈی میں اس نوع کی انکوائری کے لئے ڈی آئی جی طارق محمود بابر کو مامور کیا گیا تھا۔ جیل مینوئل کی رو سے قیدی اپنے پاس نقد رقم نہیں رکھ سکتے بعض دفعہ جیلوں کے تلاشی کے لئے دوسری جیلوں کے افسران اور ملازمین کو بھیجا جاتا ہے۔ کسی قیدی سے نقد رقم برآمد ہونے کی صورت میں و ہ رقم جمع کرکے اسے رسید مہیا کر دی جاتی ہے تاکہ وہ بوقت ضرورت اشیاء کی خریداری کر سکے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کھولنے سے جہاں قیدیوں کو اشیائے ضرورت مناسب ریٹس پر میسر ہو سکتی ہیں وہ پرائیویٹ کنٹریکٹروں کی لوٹ کھوسٹ سے بچ جاتے ہیں۔ ( جاری)