کاش 24نومبر کی کال آخری ہوتی!
روشن لعل
کوئی بہت زیادہ باخبر ہونے کا دعویٰ کرنے والا بندہ بھی ریکارڈ دیکھے بغیر یہ نہیں بتا سکے گا کہ عمران خان اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے اور وہاں دھرنا دینے کے لیے کتنی مرتبہ’’ آخری کال‘‘ دے چکے ہیں۔ عمران کی ہر کال ہی کیونکہ ’’ آخری کال‘‘ ہوتی ہے اس لیے بہتر ہے کہ کسی بھی عام ’’ کال‘‘ کو ، چاہے وہ پہلی ہی کیوں نہ ہو آئندہ ’’ آخری کال‘‘ ہی لکھا ، پڑھا اور سمجھا جائے اور اگر کوئی حقیقت میں آخری کال دینا چاہتا ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنے مقصد کی وضاحت کے لیے نیا لفظ ایجاد کر لے۔ عمران خان کی روایات کے عین مطابق ان کی 24نومبر کی ’’ آخری کال ‘‘ بھی آخری ثابت نہ سکی۔ عمران خان اپنی ہر ناکام آخری کال کے ذمہ دار خود ہوتے ہیں لیکن ماضی میں ان کی پارٹی کے عام کارکن سے دوسرے درجے کی قیادت تک نے کبھی انہیں ناکامیوں کا ذمہ دار قرار نہیں دیا۔ اس مرتبہ 24نومبر کی آخری کال کی ناکامی کی ذمہ داری بشریٰ بی بی پر ڈالی جارہی ہے۔ ایک مرتبہ پھر آخری ثابت نہ ہونے والی ’’ آخری کال‘‘ کی ناکامی کا ملبہ بشریٰ بی بی پر ڈالنے کا کام پی ٹی آئی کے مخالفوں سے زیادہ ان کے اپنے لوگ کر رہے ہیں۔ حیران کن طور پر ، اس ’’ آخری کال ‘‘ کی ناکامی کا آغاز سے انجام تک جائزہ لینے کی بجائے صرف آخری واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ 26نومبر کی رات پی ٹی آئی کی ریلی کو ڈی چوک اسلام آباد کے قریب پہنچ کر بھی اگر ناکامی کا منہہ دیکھنا پڑا تو اس کی ذمہ دار سیاسی طور پر ناپختہ بشریٰ بی بی ہے۔ جس بشریٰ بی بی کو عمران خان خود کئی مرتبہ غیر سیاسی کہتے ہوئے ہر قسم کی تنقید سے ماورا قرار دینے کی کوشش کرتے رہے اس بشریٰ بی بی کی سیاسی ناپختگی پہلے سے ہی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے ۔ لیکن یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ جس کسوٹی کے تحت بشریٰ بی بی کی سیاسی ناپختگی پر مہر ثبت کی جارہی ہے اس کسوٹی کے مطابق کسی اور کی سیاسی پختگی یا ناپختگی کو کیوں نہیں پرکھا جاتا۔
واضح رہے کہ بشریٰ بی بی کی سرکردگی میں اسلام آباد کی طرف یلغار کی اگر 24نومبر کی آخری کال ناکام ثابت ہوئی ہے تو عمران خان کی قیادت میں 14اگست2014کو لاہور سے اسلام آباد روانہ ہونے والی اس سلسلے کی اولین ریلی کو بھی ناکامی کا منہہ دیکھنا پڑا تھا۔یہ بات چاہیکسی کے لیے قابل غور نہ ہو کہ اگست 2014سے نومبر2024 تک کے دس برسوں میں عمران کی اسلام آباد کی یلغار کی کتنی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں لیکن ان لوگوں کے رویوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے جو بشریٰ بی بی کو تو ہدف تنقید بنا رہے ہیں لیکن انہوں نے اسلام آباد کو تسخیر کرنے کی لاتعداد ناکام کوششیں کرنے والے عمران خان کے سیاسی فہم پر کبھی سوال نہیں اٹھایا۔
بشریٰ بی بی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے بدنام زمانہ آخری کال کی ناکامی پر تو ہر میڈیا پرسن تبصرہ کر رہا ہے لیکن شاید ہی کسی نے یہ ذکر کیا ہو کہ اسلام آباد کی طرف یلغار کی 24نومبر کی تاریخ کتنے دن پہلے دی گئی تھی۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے لوگوں نے عمران خان کے حکم پر 13نومبر کو دس دن بعد یعنی 24نومبر کو اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہاں شاید ہی کسی تجزیہ نگار کو یاد ہو کہ عمران خان کا 14اگست 2014کو اسلام آباد کی طرف کیا جانا والا جو لانگ مارچ ناکام ہوا اس کا اعلان انہوں نے کب اور کتنا عرصہ پہلے کیا تھا۔ پی ٹی آئی نے 2013کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر احتجاج کا سلسلہ تو انتخابی نتائج آنے کے فوری بعد شروع کر دیا تھا لیکن اپریل 2014 میں حامد میر پر حملے کے بعد جب ایجنسیوں کے لوگوں کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دے کر ہدف تنقید بنایا جانے لگا تو عمران خان نے ایجنسیوں کا دفاع کرنے کے ساتھ نواز حکومت کو مزید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنا احتجاج زیادہ شدید کر دیاتھا۔ اس احتجاج کے دوران مختلف شہروں میں جلسے کرتے ہوئے عمران خا ن یہ بات دہراتے رہے کہ وہ بہت جلد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کریں گے۔ اس سلسلے میں 28جون2014 کو بہاولپور میں جلسہ کے دوران عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ 14اگست 2014کو لاہور سے لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف روانہ ہونگے۔ عمران خان اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا پروگرام تو کئی ماہ پہلے بنا چکے تھے لیکن جب انہوںنے لانگ مارچ کے لیے 14اگست کا اعلان کیا اس وقت ان کی پاس مزید تیاریاں کرنے لیے47دن کا وقت موجود تھا۔ یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ عمران خان کے لانگ مارچ کا مقصد اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اسی طرح عہدے سے سبکدوش ہونے پر مجبور کرنا تھا جس طرح 2011میں مصر کے عوام نے التحریر سکوائر میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر صدر حسنی مبارک کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ عمران خان نے اس وقت مصری عوام کے احتجاج کو ماڈل بنا کر نواز حکومت گرانے کی کوشش کی جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے کیونکہ جس کام کے لیے لاکھوں کی تعداد میں رضا کار سیاسی کارکن درکار ہوتے ہیں عمران وہ کام ایجنسیوں کی سہولت کاری کے ایما پر چند ہزار لوگوں کے ذریعے کرنا چاہتے تھے۔ التحریر سکوائر کا ماڈل عمران خان کے سامنے تھا، اس ماڈل کے مطابق بندے جمع کرنے کے لیے ان کے پاس ڈیڑھ مہینے سے بھی زیادہ وقت تھا اور سب سے بڑھ کر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری بھی دستیاب تھی۔ اس قدر سازگار ماحول کے باوجود عمران خان ملین مارچ کے نام پر چند ہزار بندے لے کر اسلام آباد گئے جن کی تعداد 126دنوں کے دھرنے کے دوران سکڑ کر چند سو لوگوں تک محدود ہو گئی۔لوگوں کی جتنی بڑی تعداد کسی حکومت کو گرانے یا اس سے مطالبات منوانے کے لیے درکار ہوتی 2014میں اس تعداد کا عشر عشیر بھی عمران خان ڈیڑھ ماہ تک تیاریاں کرنے کے باوجود اکٹھا نہیں کر سکے تھے۔ جو کام خود عمران خان ڈیڑھ ماہ تک تیاریاں کرنے کے باوجود 2014میں ممکن نہ بنا سکے وہ کام بشریٰ بی بی صرف دس دن کی تیاریوں سے کیسے ممکن بنا سکتی تھی۔
بشریٰ بی بی اپنی شرطیہ سیاسی ناپختگی کی وجہ اس قابل ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ احتجاج کے ذریعے غیر آئینی طور پر حکومتیں گرانے کے مصر، سری لنکا یا بنگلہ دیش ماڈل پر غور کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے کہ ان ماڈلوں کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں لوگ جمع کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے ۔ مگر عمران خان کا سیاسی شعور اگر پختہ ہے تو وہ ایسی باتیں کیوں نہیں سوچتے اور بار بار دی جانے والی احتجاج کی ہر کال کو کیوں بچوں کی طرح ’’ آخری کال‘‘ کہتے رہتے ہیں۔