ملک سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا
پاکستان کی معیشت درست سمت پر گامزن ہوگئی ہے۔ ملک و قوم ترقی و خوش حالی کی جانب قدم بڑھارہے ہیں۔ دوست ممالک کے تعاون سے حالات بہتر رُخ اختیار کر رہے ہیں۔ ملک کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے، تاکہ مزید بیرونی سرمایہ کاری آسکے اور صورت حال مزید بہتر ہوسکے، لیکن اس کے بجائے بعض حلقوں کی جانب سے وطن عزیز کو سیاسی عدم استحکام کی جانب گامزن کرنے کی روش اختیار کی جارہی ہے۔ پاکستان میں پچھلے ہفتوں ایس سی او کا اجلاس کامیابی سے منعقد ہوا۔ حال ہی میں بین الاقوامی دفاعی نمائش کا کامیاب انعقاد ہوا۔ اگلے سال فروری میں چیمپئنز ٹرافی کرکٹ کا بڑا ایونٹ منعقد ہوگا۔ ایسے میں ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کی کوششوں کے بجائے بعض حلقے بدامنی پھیلانے کے درپے دِکھائی دیتے ہیں۔ دو تین روز قبل اسلام آباد میں جو ہوا، وہ کسی طور مناسب نہ تھا۔ بیلاروس کے صدر پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ اس موقع پر سیاسی عدم استحکام کو رواج دینے کی بدترین سازش کی گئی۔ سیکیورٹی اہلکاروں پر انتہائی بے دردی کے ساتھ گاڑی چڑھا کر اُنہیں شہید و زخمی کیا گیا۔ شاباش ہے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو، جنہوں نے امن و امان کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں پر قابو پایا اور حالات کو کنٹرول میں کیا۔ اسی تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز اظہار خیال کیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہمیں باہمی مشاورت سے سخت فیصلے کرنا ہوں گے، پاکستان کو نقصان پہنچانے والے ہاتھ توڑ دیں گے، سیاست میں فتنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ آرمی چیف نے اسلام آباد میں لشکر سے نمٹنے کیلئے بھرپور تعاون فراہم کیا، سیکیورٹی اداروں نے بہت اچھی حکمت عملی سے دھرنے کا خاتمہ کیا اور عوام کو سکون میسر ہوا، یہ فسادی اور ترقی کے مستقل دشمن ہیں، آج کے بعد ان کو مزید موقع نہیں دیا جائے گا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جو فساد برپا کیا گیا تھا، اس کا خاتمہ کیا، فساد کے نتیجے میں جو معیشت کو نقصان پہنچا وہ آپ کے سامنے ہے، کاروبار بند تھا، مزدور اور دکان دار دُہائیاں دے رہے تھے، جڑواں شہروں میں بھی زندگی معطل ہوچکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ چند دن پہلے 99ہزار سے اوپر چلی گئی تھی، صرف ایک دن میں فسادیوں کی وجہ سے اس نے غوطہ کھایا اور 4ہزار پوائنٹس نیچے آگئی، لیکن اب اسٹاک ایکسچینج دوبارہ 4ہزار کے قریب اوپر جاچکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2014ء سے پہلے اسلام آباد میں چڑھائی کا تصور نہیں تھا، احتجاج اپنے شہروں میں ہوتا تھا، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایس سی او کا اجلاس ہوا، فسادیوں نے دوبارہ فساد مچانے کا پورا منصوبہ بنایا، ہمارے مہمانوں میں تشویش کی لہر دوڑی کہ پاکستان کا دورہ کریں یا نہ کریں، آخری 48گھنٹے میں فیصلہ ہوا، فوج سیکیورٹی کی ذمے داری سنبھالے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں باہمی مشاورت سے سخت فیصلے کرنا ہوں گے، ہم نے فیصلہ کرنا ہے پاکستان کو بچانا ہے یا دھرنے کو کرنے دینا ہے، ہمارے پاس دو راستے ہیں کہ ہم نے کس طرف جانا ہے؟، ظاہر ہے کہ ہم نے ترقی اور خوشحالی کا راستہ اختیار کرنا ہے، ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ آج کے بعد ان فسادیوں کو کوئی موقع نہیں دینا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیلاروس کے صدر کو رخصت کرکے آیا ہوں، کل اسی جگہ فیصلہ ہوا کہ ہمارا ایک وفد اگلے ماہ بیلاروس جائے گا، جنوری میں پاکستان اور بیلاروس میں معاہدے ہوں گے، یہاں بیٹھ کر فیصلے ہورہے تھے وہاں جنگ کا سماں تھا، یہ فسادی بندوقیں لے کر آئے تھے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 9مئی کے مجرموں کو عدالتیں کڑی سزا دیتیں تو آج یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا، قوم کو فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے کس طرف جانا ہے، ہماری معیشت آہستہ آہستہ ٹھیک ہورہی ہے، ہمیں بہت عرق ریزی اور سوچ بچار کرکے فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں کس طرف بڑھنا ہے۔ وزیراعظم نے اسلام آباد پولیس، رینجرز اور سندھ پولیس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ کے پی میں کس طریقے سے دہشت گردی سر اٹھارہی ہے، کس طریقے سے کرم میں درجنوں لوگ شہید ہو گئے، یہ پاراچنار، کرم ٹھیک کرتے، سرکاری وسائل استعمال کرکے اسلام آباد پر لشکر کشی کی۔ ہمارے ذہن میں بھی کبھی اسلام آباد پر چڑھائی کا تصور نہیں آیا، سب جماعتوں نے بڑے جلوس کیے انہوں نے کوئی گملا تک نہیں توڑا، 190ارب روپے کا معیشت کو یومیہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ذاتی مفاد کے لیے قوم کو نقصان پہنچانا اس سے بڑا جرم کوئی نہیں ہوسکتا، دوست ملک کے فرمانروا کو تکلیف پہنچائی، اس سے بڑی زیادتی نہیں ہو سکتی، یہ تحریک نہیں تخریب ہے، یہ فتنہ ہے فتنہ اور سیاست میں فتنہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، یہ جتھا بندی ہے، اس کا ہر صورت خاتمہ کرنا ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ سیاست برداشت، تحمل اور تہذیب و اخلاق کے دائرے میں رہ کر کی جائے تو اس سے خیر ہی برآمد ہوتا ہے، سیاست خدمت کا نام ہے، ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے سیاست کا سہارا لینا کسی طور مناسب امر نہیں ٹھہرتا۔ ایسے حلقوں کو سیاسی دانش، بردباری، دُوراندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وسیع تر قومی مفاد میں تمام سیاسی حلقوں کو ملک کو سیاسی عدم استحکام سے بچانے کے کاز کے لیے ایک صفحے پر آنا ہوگا۔ ملک ہے تو ہم ہیں۔ ایسی کوششوں سے گریز کیا جائے، جو دُنیا میں پاکستان کی بدنامی کے ساتھ اُس کے امیج کو نقصان پہنچانے کا باعث بنیں۔ ملک کا مثبت تاثر دُنیا میں اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
شذرہ۔۔۔۔۔
بیلاروس کے صدر اور اعلیٰ چینی عسکری
عہدیدار کی آرمی چیف سے ملاقاتپاکستان اپنے قیام سے ہی امن پسند ملک رہا ہے اور دُنیا کے تمام ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات اُستوار رکھنے کے لیے اس کی کاوشیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پاکستان میں چین اور سعودی عرب ایسے عظیم دوست بڑی سرمایہ کاریاں کر رہے ہیں۔ ملک میں سعودیہ اور چین سمیت دیگر دوست ملکوں سے سرمایہ کاری لانے میں عسکری قیادت کی بھرپور مدد و معاونت رہی ہے۔ پاکستان 2018ء کے وسط کے بعد پیدا ہونے والی خراب صورت حال سے تیزی سے اُبھر رہا ہے۔ ملکی معیشت درست سمت اختیار کر چکی ہے۔ روپیہ مستحکم ہورہا ہے۔ صنعتوں اور کاروبار کا پہیہ چلنے لگا ہے۔ عوام کی حالتِ زار میں بھی بتدریج بہتری محسوس کی جارہی ہے۔ گرانی میں کمی آرہی ہے اور وہ سنگل ڈیجیٹ پر پہنچ چکی ہے۔ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہے۔ چین پاکستان میں سی پیک کی صورت سالہا سال سے عظیم سرمایہ کاری کررہا ہے۔ یہ گیم چینجر منصوبہ ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی کا باعث بنے گا۔ اس کے دوسرے مرحلے پر تیزی سے کام جاری ہے۔ گزشتہ روز اعلیٰ چینی عسکری عہدیدار نے آرمی چیف سے ملاقات کی ہے۔ بیلاروس کے صدر بھی جنرل عاصم منیر سے ملے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات باہمی اعتماد اور تعاون پر مبنی ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق چین کے سینٹرل ملٹری کمیشن کے وائس چیئرمین جنرل ژانگ یوشیا نے اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ جنرل ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا، جنرل زونگ نے پہلے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ون آن ون ملاقات کی، بعد ازاں وفود کی سطح کے مذاکرات ہوئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقاتوں میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی، دوطرفہ دفاعی تعاون کو بڑھانے پر تبادلہ خیال ہوا جبکہ جنرل عاصم منیر نے باہمی اعتماد اور تعاون کو مزید فروغ دینے پر زور دیا، آرمی چیف نے پاک چین دوستی کا ذکر بھی کیا۔ اس موقع پر آرمی چیف نے پاک چین تعلقات کی پائیداری کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاک چین تاریخی شراکت داری مزید بڑھانے کے لیے تیار ہیں، تمام حالات میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے پر چینی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات باہمی اعتماد اور تعاون پر مبنی ہیں، دونوں ممالک کے تعلقات مشکل گھڑی میں اعتماد پر پورا اترے، مثالی تعلقات وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہورہے ہیں۔ ادھر بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے بھی آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے ملاقات کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق الیگزینڈر لوکاشینکو نے اسلام آباد میں آرمی چیف سے ملاقات کی، باہمی دلچسپی کے امور، دفاعی تعاون کے امکانات اور علاقائی سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ جنرل عاصم منیر نے بیلاروس کی بین الاقوامی اور علاقائی معاملات میں خدمات کو سراہا جبکہ ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط اور وسیع کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ چین پاکستان کا عظیم دوست ہے اور ملک و قوم کے لیے اس کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ چین ترقی و خوش حالی کے ثمرات سے پاکستان کو بہرہ مند کرنے میں پیش پیش ہے۔ ایسی دوستی پر جتنا ناز کیا جائے کم ہے، جسے سمندر سے بھی گہری اور ہمالیہ سے بھی بلند گردانا جاتا ہے۔ پاک چین شراکت داری میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید اضافے دیکھنے میں آرہے ہیں اور آئندہ بھی اس حوالے سے بڑی پیش رفتیں ممکن ہیں۔ دوسری جانب بیلاروس کے صدر تین روزہ دورہ مکمل کرکے گزشتہ روز اپنے وطن لوٹ گئے۔ اس دوران انتہائی اہم معاہدات بھی طے پائے ہیں۔ اُن کا یہ دورۂ پاکستان انتہائی دوررس نتائج کا حامل ثابت ہوگا۔