Editorial

کرم: 36ہلاکتوں کے بعد سیز فائر

پاکستان نے پچھلے کچھ عرصے میں بڑی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ امسال وطن عزیز نے اپنی محنت و لگن سے پوری دُنیا کو تعریف کرنے پر مجبور کر ڈالا ہے۔ ملکی معیشت کی بحالی کا سفر تیزی سے جاری ہے۔ معیشت کا پہیہ چلنے لگا ہے۔ پاکستانی روپیہ مستحکم و مضبوط ہورہا ہے۔ کاروبار کے حوالے سے حالات انتہائی موافق ہوچکے ہیں۔ دوست ممالک کی جانب سے عظیم سرمایہ کاریاں آرہی ہیں۔ پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی گزشتہ ہفتوں کامیابی کے ساتھ میزبانی کی ہے۔ اسی طرح حال ہی میں آئیڈیاز 2024ء کی عالمی دفاعی نمائش کراچی میں اختتام پذیر ہوئی ہے۔ اگلے سال فروری میں پاکستان کرکٹ کے بڑے ایونٹ چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کے فرائض سرانجام دے گا۔ لگتا ایسا ہے کہ ملک و قوم کی ترقی کچھ عناصر کو ہضم نہیں ہورہی۔ اسی لیے امن و امان کی صورتحال کو سبوتاژ کرنے کے درپی ہیں۔ ملک کا امیج عالمی سطح پر متاثر کرنے کی مکروہ کوششیں مسلسل ہورہی ہیں، تاکہ ان کامیابیوں کو گہنایا جاسکے۔ بعض حلقوں کی جانب سے ذاتی مفادات کو ملک و قوم کے مفادات پر ترجیح دی جارہی ہے اور حب الوطنی کے راگ الاپے جارہے ہیں۔ کٹھ پُتلیاں اپنے آقائوں کے اشاروں پر ناچتے ہوئے تمام تر حدیں عبور کر چکی ہیں۔ باشعور قوم دشمنوں اور اُن کے آلہ کاروں کو بخوبی پہچانتی ہے۔ اُس کے سامنے تمام حقائق ہیں۔ عوام جانتے ہیں کہ کس کس حربے سے امن پر زک لگانے پر مذموم حلقے کمربستہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ملکی امن و امان کو سبوتاژ کرنے کی کوئی بھی مذموم کوشش، کسی طور کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس بار بھی ایسا کرنے والوں کے ہاتھ ناکامی ہی آئے گی۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ سانحات سے عبارت ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے، جو پوری قوم کو اندوہ و غم میں مبتلا کر ڈالتا ہے۔ ہر درد مند دل اُداس اور ہر آنکھ اشک بار ہوجاتی ہے۔ دین میں کسی ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ یہ کیسے سفّاک ہیں جو انتہائی بے دردی کے ساتھ لوگوں سے حقِ زیست چھینتے رہتے ہیں اور انہیں ذرا بھی جھرجھری نہیں آتی۔ بے رحمی اور درندگی ان میں رچی بسی ہوئی ہے۔ یہ کسی طور انسان کہلانے کے حق دار نہیں۔ جمعرات کو ایک ایسا ہی سانحہ ضلع کرم میں پیش آیا تھا، جس نے پوری قوم کو دہلاکر رکھ دیا۔ 49بے گناہ انسانوں سے انتہائی بے رحمی سے جینے کا حق چھینا گیا۔ مسافروں پر انتہائی سفّاکی کے ساتھ گولیوں کی بوچھاڑ جاری رکھی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ ضلع کرم کے صدر مقام پاراچنار سے پشاور کے لیے گاڑیوں پر مشتمل کانوائے روانہ ہوا تھا۔ مسلح افراد نے گاڑیوں پر اندھادھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 49افراد جاں بحق ہوئے۔ ابھی اس واقعے کو گزرے تین، چار روز ہی ہوئے ہیں اور قوم کا یہ غم ہلکا بھی نہیں ہوا تھا کہ ضلع کرم
میں ہی قبائلی فسادات پھوٹ پڑے، مزید 36افراد ان کی نذر ہوکر زندگی کی بازی ہار گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لوئر کرم کے علاقے علیزئی اور بگن سمیت کئی علاقوں میں مختلف قبائل کے درمیان شدید فائرنگ ہوئی۔ پولیس نے بتایا کہ فائرنگ کے تبادلے میں دکانوں اور گھروں کو بھی نقصان پہنچا، حالات کشیدہ ہونے کے باعث دکانیں اور تمام تعلیمی ادارے بند ہیں، علاقے سے لوگوں کی نقل مکانی کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا۔ ادھر حالات کنٹرول کرنے کے لیے صوبائی حکومت کا وفد پارا چنار پہنچ گیا ہے اور آخری اطلاعات کے مطابق فریقین کے درمیان 7 روز کا سیز فائر ہو گیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے دعویٰ کیا ہے کہ ضلع کرّم میں فرقہ وارانہ تصادم میں ہلاکتوں کے بعد فریقین نے لاشیں اور قیدی واپس کرنے کے علاوہ سات روزہ سیز فائر پر اتفاق کیا ہے۔ بیرسٹر سیف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کی سربراہی میں امن وفد نے عمائدین سے بات چیت کے بعد سیز فائر معاہدے پر اتفاق کرایا ہے۔ قبائل کے درمیان فائرنگ تشویشناک ہونے کے ساتھ ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہے۔ دشمنیاں کبھی بھی اچھی نہیں ہوتیں، ان سے کسی مسئلے کا حل نہیں نکلتا، نفرتوں سے کبھی کسی کا بھلا نہیں ہوتا ، ان سے شر ہی پھوٹتا ہے، نقصان ہی ہوتا ہے، محبت اور بھائی چارے سے اخوت کی مثال قائم کرتے ہوئے امن و امان سے رہا جاسکتا ہے۔ پہلے دُنیا کے بعض ممالک صرف جنگ کو ہی ہر مسئلے کا حل سمجھتے تھے۔ آج وہ بھی جنگوں سے تائب ہوچکے ہیں۔ وہ بات چیت سے مسائل کو حل کرنے کو فوقیت دینے لگے ہیں۔ دُنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ شعور بڑھ رہا ہے۔ اس لیے قبائل اور اُن کے عمائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ دانش مندی، بُردباری اور حب الوطنی کا مظاہرہ کریں۔ ایک دوسرے کی جان کے درپے ہونے کے بجائے گفت و شنید سے مسائل حل کرنے کی بِنا ڈالیں۔ پاکستان کا امیج دُنیا بھر میں تیزی سے بہتر ہورہا ہے۔ اس کے پیچھے کڑی محنت، لگن اور جدوجہد کارفرما ہے۔ اس طرح کے واقعات سے ملکی امیج کو بُری طرح زک پہنچنے کا اندیشہ ہے، جسے کسی طور مناسب نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ قبائل کی ذمے داری ہے کہ وہ ملک و قوم کے مفادات کا احترام کریں اور جھگڑوں و تصادم سے گریز کی راہ اختیار کریں۔ خود بھی جئیں اور دوسرے کو بھی جینے کا حق دیں۔ کسی انسان کے خلاف اسلحے کے استعمال کو ترک کریں۔ اتحاد و بھائی چارے کو رواج دیں۔ دین بھی ہمیں اسی کی تعلیم دیتا ہے۔
 خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن
علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا،
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ۔۔۔
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں۔۔۔
افسوس آج دور جدید میں بھی خواتین کسی نہ کسی طرح بدترین مصائب کا شکار ہیں۔ پاکستان سمیت بہت سے معاشروں میں خواتین استحصال کا سامنا کرتی اور اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ وطن عزیز کا جائزہ لیا جائے تو شہری علاقوں میں صورت حال پھر بھی بہتر ٹھہرائی جاسکتی ہے، لیکن دیہی علاقوں میں خواتین کے استحصال کے بدترین سلسلے جاری ہیں۔ وہ اپنے تمام تر بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اُن پر بدترین تشدد عام ہے۔ مرد اُن کو پیروں کی جوتی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اُن کی قدر و منزلت نہیں کرتے۔ عورتوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ جب جی چاہتا ہے اُن کو بے رحمانہ تشدد کرتے ہیں۔ صنفِ نازک پر تشدد کسی بھی طور مناسب نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس رِیت کو توڑنے کے لیے علم و آگہی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن (25 نومبر) منایا جارہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد خواتین پر گھریلو تشدد، جسمانی تشدد، جنسی طور پر ہراساں کرنے، دفاتر، نیم سرکاری، صنعتی، کاروباری، تجارتی و دیگر اداروں میں کام کے دوران صعوبتوں سے نجات اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی اور شعوری بیداری پیدا کرنا ہے، خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کا آغاز اقوام متحدہ کے زیر اہتمام جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کی منظوری  کے بعد 25نومبر 1999ء سے کیا گیا، جس کے بعد یہ دن ہر سال 25نومبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، خواتین پر تشدد تہذیب یافتہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 6میں سے 1عورت کو کسی نہ کسی طرح مرد کے تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ خواتین کو اُن کے حقوق کی فراہمی کے لیے حکومتیں بھی کاوشیں کرتی ہیں۔ نجی سطح پر بھی اس حوالے سے کوششیں جاری رہتی ہیں، جن کے حوصلہ افزا نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں، لیکن اس حوالے سے ابھی مزید اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن تقاضا کرتا ہے کہ اس ناپسندیدہ اقدام کے خاتمے کے لیے معاشرے کا ہر باشعور فرد اپنا کردار ادا کرے۔ حکومتیں اور دیگر ادارے بھی اس حوالے سے اپنی کاوشیں جاری رکھیں۔ قانون سازی کی جائیں یا پہلے سے موجود ہیں تو اُن پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے کہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کا سوچ نہ سکے۔ صنفِ نازک کو تمام تر حقوق کی فراہمی کے ساتھ اُن پر تشدد کے خاتمے کے لیے راست کوششیں ناگزیر ہیں

جواب دیں

Back to top button