Editorial

ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے آگے آئیں

ماحولیاتی آلودگی پوری دُنیا کو بڑے نقصانات سے دوچار کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ اس کی وجہ سے وسیع پیمانے پر موسمیاتی تغیرات رونما ہورہے ہیں۔ دُنیا بھر کے موسموں پر اس کے انتہائی منفی اثرات پڑے ہیں۔ قدرتی آفات کی شرح بے پناہ بڑھ گئی ہے۔ جسم کو جھلسا دینے والی گرمی اور کڑاکے نکال دینے والی سردی کے موسموں کا دُنیا کو سامنا ہے۔ زراعت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ پیداوار میں ہولناک حد تک کمی آرہی ہے۔ نت نئے امراض پیدا ہورہے ہیں۔ یہ دُنیا کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان بھی ماحولیاتی آلودگی سے بُری طرح متاثرہ ملکوں میں شامل ہے۔ یہاں پچھلے برسوں میں قدرتی آفات نے بڑے جانی و مالی نقصانات سے ملک وقوم کو دوچار کیا ہے۔ کئی سال گزرنے کے باوجود ملک و قوم اُن نقصانات سے اُبھر نہیں سکے ہیں۔ 2008ئ کے زلزلے کی تباہ کاریاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ لاکھ کے قریب لوگ جان سے گئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ ہر سال ہی لگ بھگ ملک کے مختلف علاقوں میں سیلابی صورت حال بڑے نقصانات پہنچاتی رہتی ہے۔ 2022ء کے سیلاب نے تو ملک خصوصاً سندھ کو بے پناہ تباہی سے دوچار کیا۔ لاکھوں گھر سیلاب میں بہہ گئے۔ 1700سے زائد شہری اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ بے شمار لوگوں کو بے گھری کا عذاب سہنا پڑا۔ کافی بڑی تعداد میں مال مویشی ہلاک ہوئے۔ اُس وقت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی سیلاب زدہ علاقوں کا خصوصی دورہ کیا تھا۔ موسمیاتی تغیر کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ گزشتہ روز آذربائیجان میں کوپ 29کانفرنس منعقد ہوئی، اس موقع پر پاکستان کی میزبانی میں کلائمیٹ فنانس گول میز مذاکرے کا انعقاد بھی کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے مسائل کا سامنا ہے، ترقی پذیر ممالک کو 2030تک 6ہزار 800ارب ڈالر کی ضرورت ہے، ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے آگے آنا ہوگا، انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ماضی قریب میں دو تباہ کن سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اب تک سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے نکل نہیں سکے ہیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ آج ہم ایک ایسے اہم موڑ پر کھڑے ہیں جہاں عالمی موسمیاتی فنڈ کو ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے، تاکہ خطرے سے دوچار کمزور اقوام کی ضروریات کو موثر انداز میں پورا کیا جاسکے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ برسوں سے کیے گئے وعدوں اور بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود فرق بڑے پیمانے پر بڑھتا جارہا ہے، انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے آگے آنا ہوگا اور اقوام متحدہ کے فریم ورک پر عمل کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم نے عطیات دینے ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنے وعدے کو پورا کریں جو ان کی مجموعی قومی پیداوار ( جی این پی) کا 4.7فیصد ہے اور موجودہ ماحولیاتی فنڈز پر سرمایہ کاری کریں۔ مزید برآں وزیر اعظم نے گلیشیئرز کے تحفظ کیلئے سنجیدہ، مربوط اور موثر اقدامات کی اشد ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت کی بقا گلیشیئرز کے تحفظ سے مشروط ہے۔ پاکستان اس ضمن میں عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہے۔ تاجکستان کی میزبانی میں گلیشیئرزکے تحفظ سے متعلق اقدامات کیلئے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ گلیشیئرز کے تحفظ کے عالمی سال کے موقع پر واضح پیغام جانا چاہیے کہ گلیشیئرز کی منتقلی کے بجائے اس کے پگھلائو کو کم کرنے، وائٹل ایکو سسٹم کے تحفظ اور مستقبل کیلئے پائیدار آبی وسائل کو محفوظ بنانا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان بڑے پیمانے پر گلیشیئرز کا گھر ہے، ان وسیع ذخائر کے نقصانات کی روک تھام ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گلیشیئرز دنیا بھر کے کروڑوں انسانوں کیلئے لائف لائن ہیں، ان گلیشیئرز سے دنیا کو 70فیصد تازہ پانی ملتا ہے، پاکستان میں سات ہزار سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں جس سے دریائے سندھ کا 60سے 80فیصد پانی دستیاب ہوتا ہے اور پاکستان کی زراعت کا 90فیصد پانی یہاں سے میسر آتا ہے اور 20کروڑ عوام کی خدمت کر رہا ہے ، 1960ء کے مقابلہ میں گلیشیئرز میں 23فیصد کمی واقع ہوئی ہے، اس کے نتیجہ میں درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے، تیزی سے پگھلتے ہوئے ان گلیشیئرز سے پاکستان کے شمالی علاقوں میں تین ہزار سے زائد جھیلیں وجود میں آ چکی ہیں، ان میں سے33سے سیلاب کا شدید خطرہ ہے جس سے بڑی تعداد میں زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں،یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے اور فوری کارروائی کی متقاضی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو گلیشیئرز مانیٹرنگ پروگرام، ارلی وارننگ سسٹم، پانی کے ذخیرہ کرنے کے متبادل حل سمیت دیگر اقدامات کیلئے درکار امداد میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ان قدرتی وسائل کے تحفظ کیلئے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہے، گلیشیئرز، بنی نوع انسان اور کرہ ارض کے مستقبل کے تحفظ کیلئے تمام ممالک کو متحد ہو کر ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ دریں اثنا وزیراعظم کی کوپ 29کانفرنس کی سائیڈ لائنز پر عالمی رہنمائوں سے ملاقاتوں ہوئیں، جن میں متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان، برطانوی وزیرِاعظم سر کیئر اسٹارمر، ازبک صدر شوکت مرزیوف اور تاجک صدر امام علی رحمان، نیپالی صدر رام چندر پاڈیل اور بنگلادیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس، قازق صدر قاسم جومارت توکایف، ڈنمارک کی وزیراعظم میٹ فریڈرکسن شامل ہیں۔ قبل ازیں کوپ 29کانفرنس سے خطاب میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کو فنڈنگ کرنا ہوگی۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے فنڈنگ پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو انسانیت کو قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے صائب خطاب فرمایا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے پاکستان میں پیدا شدہ مسائل کا دُنیا کے سامنے احسن انداز میں احاطہ کیا ہے۔ دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ماحول کو مزید تباہی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

شذرہ۔۔۔۔۔
تمام ریلوے اسٹیشنوں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا احسن فیصلہ
پاکستان ماضی میں توانائی کے بدترین بحران سے دوچار رہا ہے۔ بجلی آتی کم اور جاتی زیادہ تھی۔ گرمی میں صورت حال خاصی خراب ہوجاتی تھی۔ مسلم لیگ ن کی 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت نے عوام سے توانائی بحران کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا، اپنے اس عہد کو اس نے اپنے اسی دور میں پورا بھی کیا تھا۔ عوام نے سکون کا سانس لیا تھا۔ 2018ء کے وسط میں عام انتخابات کے بعد جو حکومت آئی، اُس کے دور میں ناصرف بجلی کی قیمتوں کو پَر لگ گئے بلکہ توانائی کا بحران پھر سے سر اُٹھاتا بھی نظر آیا۔ سردیوں تک میں بجلی عنقا رہنے کے سلسلے شروع ہوگئے۔ حالانکہ سرما میں بجلی کی کھپت میں بہت بڑی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ ملک میں بجلی کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچے ہوئے ہیں۔ گو پچھلے ایّام میں ان میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ وفاق اور پنجاب حکومتوں نے تین، چار ماہ قبل اس ضمن میں بڑے ریلیف بھی دئیے۔ اب وفاق کی جانب سے ونٹر پیکیج بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ اس سے حالات سنبھلنے کی امید ہے۔ اس کے باوجود اب بھی پاکستان کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اُنہیں بجلی کی سہولت کے بدلے اپنی آمدن کا بہت بڑا حصّہ صَرف کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ خطے کے دیگر ملکوں میں بجلی کی سہولت کے عوض وہاں کے شہری اپنی آمدن کا انتہائی معمولی حصّہ خرچ کرتے ہیں۔ یہ امر ظاہر کرتا ہے کہ وطن عزیز میں بجلی خاصی گراں ہے۔ یہاں بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع کو آہستہ آہستہ بروئے کار لانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ سورج کی روشنی سے توانائی کا حصول انتہائی سستا ہے۔ اسی لیے کئی اہم سرکاری عمارات اور ادارے سولر انرجی پر منتقل ہوئے ہیں۔ کافی تعلیمی ادارے بھی سولر انرجی پر منتقل کیے جاچکے ہیں۔ یہ سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس حوالے سے اب ایک اور بڑی پیش رفت ہونے جارہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ پاکستان بھر کے ریلوے اسٹیشنز کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلوے نے تمام ریلوے اسٹیشنز کو سولر انرجی سسٹم پر منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا، جس کو حتمی شکل دینے کے لیے اقدامات شروع کر دئیے گئے ہیں۔ پاکستان ریلوے نے انرجی اخراجات میں کمی کے لیے سرگودھا سمیت تمام ریلوے اسٹیشنز کو سولر انرجی سسٹم پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس پر عمل درآمد کو حتمی شکل دینے کے لیے اقدامات شروع کردیے گئے اور پہلے مرحلے میں لاہور، کراچی، راولپنڈی، فیصل آباد، روہڑی، خانیوال، حیدرآباد، ملتان، لالہ موسیٰ، ملکوال جنکشنز کو سولر انرجی پر منتقل کیا جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں دیگر بڑے ریلوے اسٹیشنز کو رکھا جائے گا اور انرجی کی مد میں بچت کی رقم مسافروں کو بہتر سفری سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کی جائے گی۔ یہ فیصلہ انتہائی خوش آئند ہے۔ سستی توانائی کو بروئے کار لاتے ہوئے کافی بچت ممکن ہوسکے گی۔ ضروری ہے کہ تمام تر سرکاری اداروں کو مکمل طور پر جلد از جلد سولر انرجی سسٹم پر منتقل کردیا جائے۔ بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع کو بروئے کار لاکر ملک میں بجلی کے نرخوں میں معقول حد تک کمی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button