اسرائیل اور اُسکے مظالم کا خاتمہ نزدیک
فلسطین پچھلے 13ماہ سے زائد عرصے سے لہو لہو ہے۔ ناجائز ریاست اسرائیل کے پے درپے حملوں میں 44ہزار سے زائد فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں۔ ان میں بہت بڑی تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی شامل ہے۔ لاکھ سے زائد لوگ زخمی کیے جاچکے ، جن میں بہت بڑی تعداد ایسے شہریوں کی بھی ہے جو زندگی بھر کے لیے معذور ہوچکے ہیں۔ غزہ کا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ اسرائیل نے اسی پر بس نہیں کیا اُس نے لبنان، یمن، ایران پر بھی حملے کیے اور وہاں بھی کئی لوگوں کی زندگیوں کے درپے ہوا۔ عالمی عدالت انصاف کافی مہینے پہلے اسے حملے روکنے کے احکامات صادر کرچکی ہے۔ اقوام متحدہ میں بھی منظور کردہ قرارداد کو اُس کی جانب سے نظرانداز کیا گیا ہے۔ اسلامی دُنیا کو فلسطین میں مسلمانوں کی بدترین نسل کشی پر سخت تشویش ہے۔ سعودی عرب نے اسی اہم معاملے پر گزشتہ روز عرب، اسلامک غیر معمولی سربراہی اجلاس کی میزبانی کی۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی اس میں شریک ہوئے اور صائب خطاب فرمایا۔وزیراعظم شہباز شریف نے غزہ میں غیر مشروط جنگ بندی، عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر فوری پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگی جرائم پر اسرائیل کا محاسبہ کیا جائے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے یہاں عرب، اسلامک غیر معمولی سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس میں غزہ اور فلسطین سمیت مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر غور کیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ ایک سال سے غزہ اور مقبوضہ فلسطین میں بھوک، افلاس اور قحط نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، غزہ پر اسرائیل جارحیت کی تمام حدیں پار کرچکا، ہزاروں افراد شہید جبکہ لاکھوں بے گھر ہوچکے، اسپتالوں کو زخمیوں سمیت اڑایا جارہا ہے، فلسطینیوں کے خلاف حالیہ بربریت کو میڈیا اور عالمی عدالت انصاف نسل کشی قرار دے چکے، اس صورتحال پر عالمی برادری کب تک آنکھیں بند رکھے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہر گزرتے دن اسرائیل کے ہاتھوں عالمی قوانین اور اقدار کی پامالیاں جاری ہیں، انسانی بنیادوں پر تسلسل کے ساتھ جنگ بندی اور انسانی ریلیف کی فراہمی اور تحفظ کے مطالبات کیے جارہے ہیں تاہم غزہ میں رہائشیوں سمیت گھروں کو اڑایا جا رہا ہے، اس صورتحال کے باوجود اسرائیل کو جدید ترین ہتھیاروں کی فراہمی جاری ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی غیر مشروط حمایت اور تحفظ جاری ہے، عالمی انسانی قوانین بھی مظلوموں کے خلاف ایسے اقدامات کی اجازت نہیں دیتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ غزہ خون سے رنگین ہے اور عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے فلسطین کے حق خود ارادیت کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کی حمایت جاری رکھے گا جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو اور جس کی سرحدیں 1967ء سے قبل والی ہوں، یہی اس مقدس سرزمین میں پائیدار امن اور انصاف کی ضمانت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ایران پر حالیہ اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کی سالمیت اور علاقائی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے، پاکستان لبنان میں اسرائیلی فوجی جارحیت کی بھی مذمت اور وہاں کے معصوم لوگوں کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کرتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی وقت کی ضرورت ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے فلسطین، لبنان اور ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرے۔ ریاض میں عرب اسلامی سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی ولی عہد نے کہا کہ اسرائیل کی مسجد اقصیٰ کے تقدس کی پامالی کی مذمت اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں، لبنان پر جاری اسرائیلی حملوں نے لبنان کی خودمختاری کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرے جب کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے سلامتی کونسل سے اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری فلسطینیوں کے خلاف یہودی آبادکاروں کی جاری دہشت گردی روکنے میں مدد کرے۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ اسرائیل غزہ پٹی کے بعد مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے وجود کا خاتمہ چاہتا ہے، انروا پر پابندی کا مقصد دو ریاستی حل سبوتاژ کرنا ہے۔ لبنان کے وزیراعظم نجیب میقاتی نے لبنان پر اسرائیلی حملے روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حملوں سے تباہی کا تخمینہ 5ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے۔ شام کے صدر بشارالاسد نے کہا کہ خطے میں قتل عام اور نسل کشی کی روک تھام وقت کا تقاضا ہے۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا کہ جنگ کے بجائے دو ریاستی حل پر عمل درآمد کیا جائے۔ فلسطینی وزیراعظم محمد مصطفیٰ نے سلامتی کونسل میں اسرائیل پر دبائو بڑھانے کیلئے قرارداد پیش کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ عرب اور اسلامی ممالک کو عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی مقدمے میں شامل ہونا چاہیے، آئی سی جے کو فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کے جرم کے ارتکاب پر فوری فیصلہ دینے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ عرب اسلامی سربراہ اجلاس میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سمیت 50سے زائد سربراہان مملکت اور خصوصی نمائندے شریک ہوئے، مشترکہ عرب اسلامک سربراہ اجلاس میں غزہ اور دیگر مقبوضہ علاقوں کی صورتحال پر غور کیا گیا۔ اس کانفرنس کے مثبت اثرات ظاہر ہوں گے۔ اسرائیل ظلم و ستم میں تمام حدیں پار کر چکا ہے۔ ظالم کا جب آخری وقت نزدیک ہوتا ہے تو اُس کا ظلم انتہائوں پر پہنچ جاتا ہے۔ ظالم اسرائیل بھی جلد نیست و نابود ہوگا۔ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اس کی داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
بھارت کھیل کو سیاست کی نذر نہ کرے
کھیلوں کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے تو زیادہ مناسب رہتا ہے۔ پاک بھارت کے عوام دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ مقابلوں کو انتہائی دلچسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ یہ مقابلے کافی سخت اور اعصاب شکن بھی ہوتے ہیں۔ پوری دُنیا میں پاک بھارت ٹاکرے کو پسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے۔ اگلے سال فروری میں پاکستان میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی شیڈول ہے۔ پاکستان اس ایونٹ میں اپنے اعزاز کا دفاع کرے گا۔ اس حوالے سے تمام تر اقدامات تیزی سے جاری ہیں۔ تمام ٹیمیں پاکستان آنے پر آمادہ ہیں۔ گزشتہ ماہ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم یہاں ٹیسٹ سیریز کھیل کر گئی ہے۔ تمام ٹیمیں اور اُن ملکوں کے
ذمے داران مطمئن ہیں۔ ایسے میں بھارت کی حکومت کی جانب سے چیمپئنز ٹرافی کے لیے اپنی ٹیم پاکستان نہ بھیجنے کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ بھارت اپنے مقابلے یو اے ای یا سری لنکا میں کرانے کا متمنی ہے۔ بھارتی حکومت کا یہ اقدام کھیل اور سیاست کو گڈمڈ کردینے کے مترادف ہے۔ بھارت چیمپئنز ٹرافی کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے ہر اوچھا ہتھکنڈا آزمارہا ہے۔ دیکھا جائے تو جب سے مودی بھارت میں اقتدار میں آیا ہے، تب سے بھارت اور پاکستان کے درمیان باہمی سیریز کے حوالے سے طویل تعطل رہا ہے۔ قبل ازیں دونوں ملکوں کی ٹیمیں ایک دوسرے کے دورے کرتی تھیں اور اچھے مقابلے دیکھنے میں آتے تھے۔ شائقین ان میچوں سے خوب محظوظ ہوتے تھے، لیکن مودی سرکار نے کھیل کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ آخری بار پاکستان نے 2012۔13میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔ اب ایک مرتبہ پھر چیمپئنز ٹرافی میں عدم شرکت کا ڈول ڈال کر اس اہم ایونٹ کا مزا کرکرا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس پر پاکستان نے بھی بڑا فیصلہ کرلیا ہے اور کسی اور ٹیم کو مدعو کرنے کی حکومتی تجویز سامنے آئی ہے۔ چیمپئنز ٹرافی 2025میں بھارت کے پاکستان نہ آنے کے حوالے سے وفاقی حکومت نے پی سی بی سے رابطہ کیا ہے اور بورڈ کو بھارتی ٹیم کے انکار کی صورت میں کسی اور ٹیم کو مدعو کرنے کی تجویز دی ہے۔ وفاقی حکومت نے پی سی بی سے رابطہ کرکے بھارت سے متعلق پالیسی گائیڈ لائنز سے آگاہ کردیا۔ پی سی بی نی آئی سی سی کو بھارت کے نہ آنے پر خط لکھ دیا ہے اور اس کے پاکستان نہ آنے کی وجوہ بھی طلب کی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان نے کھیلوں کے ہر فورم پر بھارت کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستان کی جانب سے بھارت کی اولمپکس بڈ کی بھی مخالفت کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق بھارت 2036میں اولمپکس کی میزبانی کا خواہش مند ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے کھیلوں میں بھارتی رویے پر انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی (آئی او سی) کو خط لکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ ذرائع نے بتایا کہ بھارت نے متعدد مرتبہ کھیلوں میں سیاست کو ملوث کیا۔ چیمپئنز ٹرافی کے معاملے پر بھی حکومت پاکستان نے سخت موقف اختیار کیا ہے۔ دوسری جانب حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر بھارت پاکستان نہیں آئے گا تو پاکستان بھی آئندہ کبھی کسی ٹورنامنٹ میں بھارت کے خلاف میچ نہیں کھیلے گا۔ ادھر آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025کے شیڈول پر ڈیڈلاک برقرار ہے، تاحال شیڈول کا فیصلہ نہ ہوسکا۔ بھارت چیمپئنز ٹرافی پاکستان میں کھیلنے سے پہلے ہی انکار کرچکا، جس کے باعث ریونیو میں نقصان کا آغاز ہونے لگا، جتنے روز کم ہوتے جائیں گے رائٹس کی قیمت کم ہوتی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق مالی نقصان آئی سی سی سمیت ممبر بورڈز کو بھی اُٹھانا پڑسکتا ہے، پاک بھارت میچ سے ریونیو بڑھتا ہے، آئی سی سی کو بھارت کے حوالے سے جلد فیصلہ کرنا ہوگا، پاک بھارت میچ میں براڈ کاسٹرز کی دلچسپی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ بھارت کی اپنی ٹیم کو چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ بھیجنے کی روش کسی طور مناسب نہیں۔ بھارت کو کم از کم کھیلوں کو سیاست سے دُور رکھنا چاہیے۔ ایسے اقدام سے گریز کرے۔ بھارت کے اقدام کے جواب میں پاکستان بالکل صائب طرز عمل اختیار کرتا دِکھائی دیتا ہے۔ شائقین چاہتے ہیں کہ دونوں ٹیموں کے درمیان مقابلے ہوں۔ باہمی سیریز ہوں۔ بھارت چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آئے۔ بھارت کو اس حوالے سے تدبر کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔