Column

اقبالؒ ایک سچے عاشق رسول

باغ و بہار
ایم فاروق قمر
اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رُسولِ ہاشمی
مسلمانوں میں موجود عشقِ محمدؐ وہ جذبہ ہے جو اُن کی والہانہ عقیدت و مر مٹنے کے دعوے کی بدولت انہیں دوسری اقوام سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ سرشاری محض گفتار کی حد تک نہیں بلکہ اپنے عمل سے بارہا سپردگی کی اس منزل کو پا جاتی ہے، جہاں اپنی ہستی ہیچ معلوم ہوتی ہے۔
نبی آخری الزماںؐ اخلاق کے اس اعلیٰ مرتبے پر فائز رہے جس کا اعتراف قرآن کریم میں ملتا ہے اور اسی بناء پر آپ کے ذِکر کو بلند کرنے کا اللہ ربّ العالمین نے خود ذمہ لیا اور جس کے عملی ثبوت میں ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں ہر وقت اذان کی صدا بلند ہوتی ہے جس میں آپ کی نبوت کی شہادت دی جارہی ہے۔ اقبال جیسا شاعر کیوں کر عشق محمد سے دور رہ سکتا تھا۔ انہوں نے تو اپنی شاعری کو آفتابِ نبوت کی ضیاء پاشی کا مرہونِ منت قرار دیا ہے۔
اقبالؒ کا عشق رسول ایک ابدی جذبہ ہے۔ ایک سرا پائے عمل ہے۔ ایک سعی پیہم ہے۔ ایک لا فانی اور بلند شے ہے۔ اسی عشق رسول میں کونین کی ہر نعمت ہے۔ اقبال مقام رسالت کی بے مثال بلندیوں ، فیضان رسالت کی ہمہ گیری ، تعلق نبوت کی گہرائی اور احسان وکرم کی وسعتوں کا شناسا ہے۔
آپ کے نزديک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تمام علوم کا محور و مرکز ہے اور کائنات کے تمام شعبہ جات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے گرد گھومتے ہیں۔ اقبالؒ کی شاعری عشق رسولؐ سے لبریز ہے اور ان کے کلام میں ہمیں متعدد نعتیہ نظمیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو روایتی نعت نگاری سے یکسر مختلف ہیں،
جیسے:
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
علامہ اقبالؒ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اتنا غرق ہو چکے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک سنتے ہی ان کی آنکھیں پرنم ہو جاتیں تھیں اور آپؒ کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ رب العزت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک ہی سب کچھ ہے۔
بقول علامہ اقبال:
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقان وہی یسین وہی طہ
اقبال صاحب اس عقیدت و محبت کو ایک اور جگہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم علامہ اقبالؒ کے رگ و جاں میں سرایت کر گیا تھا اور ان کے ذہنی فکر پر چھا گیا تھا۔ بڑے فلسفی ہونے کے باوجود بھی آپؒ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھیں اور جانچیں۔ اس معاملے میں آپؒ ایمان بالغیب کے قائل تھے اور بس جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ دین و ایمان اور سر آنکھوں پر، یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے والہانہ محبت اور بے پناہ عشق کا ہی تقاضہ تھا کہ آپؒ اکثر اس وجہ سے مضطرب و بے چین رہتے تھے کہ کہیں آپؒ کی عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک سے برتری حاصل نہ کرے۔ آپؒ نے مغرب میں سکونت اختیار کرنے کے باوجود بھی اپنے عزیز و محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن نہیں چھوڑا اور مرد مجاہد کی طرح حالات و واقعات سے مقابلہ کر کے اپنے آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے پیوست رکھا۔
رسولؐ اللہ کے اسم مبارک محمدؐ کو علامہ اقبالؒ نے جن اشعار میں استعمال کیا ان میں سے چند اشعار بطور مثال پیش کیے جا رہے ہیں:
اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمدؐ
آیاتِ الہٰی کا نگہبان کِدھر جائے!
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
حضور نبی اکرمؐ کا ایک اسم مبارک ’’ احمدؐ‘‘ ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اس اسم کے ساتھ ملت کا لفظ جوڑ کا استعمال کیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں:
عشق کا دل بھی وہی، حسن کا جادو بھی وہی
اُمت احمد مرسلؐ بھی وہی، تو بھی وہی
کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کر لو
ملت احمد مرسلؐ کو مقامی کر لو!
دین کے اتمام کے لیے اسم مبارک ’’ مصطفیٰؐ‘‘ کو علامہ اقبالؒ نے استعمال کیا ہے، فرماتے ہیں:
اگر قبول کرے، دینِ مصطفیٰ، انگریز
سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام
بمصطفٰیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است
عشق کے بیان میں بھی علامہ اقبالؒ اسم ’’ مصطفیٰ‘‘ کو ہی استعمال کرتے ہیں:
تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفیٰ، عقل تمام بولہب
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰ
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
اقبالؒ اپنے اردو اور فارسی کلام میں اس حقیقت کا شدت سے اظہار کرتے ہیں کہ اْمتِ مسلمہ کے افراد کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ عشقِ محمدؐ کا جذبہ ہی ہے جو دلِ مسلم کو قوی تر کر تا ہے اور اسے حرارت اور سوز سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ چنانچہ ملّت کی حالتِ زار دیکھ کراُن کی نظر بارگاہِ رسالتؐ کی طرف اْٹھ جاتی ہے، فرماتے ہیں:
شیرازہ ہْوا ملّتِ مرحوم کا ابتر
اب تْو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!
اس راز کو اب فاش کر اے رْوحِ محمدؐ
آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے
اقبالؒ نے اطاعت و فرمانبرداری کو دین کا جز و لازم سمجھ کر اس یقین کے ساتھ کہ اللہ کو پانے کے لیے حُب رسولؐ شرطِ اوّل ہے اپنی زندگی کا یہی مقصد بنالیا۔ اور ان کے اشعار میں جابجا سپردگی کی وہ کیفیت در آئی جس سے ان کے راسخ العقیدہ اور غلام مصطفیٰ ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ اقبالؒ کہتے ہیں:
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
اقبالؒ کو عشق رسولؐ کا درس بچپن سے ہی نیک سیرت والدین اور نیک طینت و نیک خو اساتذہ کی طرف سے دیا گیا تھا ، جو ان کی شخصیت میں راسخ ہو چکا تھا اور ان کے دل کے اندر کہیں گہرا سرایت کر گیا تھا۔ مغرب میں تعلیم اور قیام نے اقبالؒ کے نبی مکرمؐ سے اس والہانہ عشق کو اور جلا بخشی اور یہ سونا، کندن بن گیا۔ اقبالؒ کی روضہ رسولؐ پر حاضری کیلئے تڑپ ان کے کلام میں نظر آتی ہے اور ان کا آخری مجموعہ کلام جس کا نام انہوں نے خود’’ ارمغان حجاز‘‘ تجویز کیا تھا، اس کی روشن مثال ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button