نو منتخب امریکی صدر اور حسین حقانی
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
بالاآخر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار امریکہ کے صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی میں جن عوامل کا بڑا عمل دخل ہے ان میں اس کا بیانیہ وہ جنگیں ختم کرے گا اس کا خاصہ عمل دخل ہے۔ امریکی عوام نے اس کے بیانیے کو قبول کر لیا ۔ نومنتخب امریکی صدر نے اپنے پہلے دور میں افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی کو ممکن بناکر ثابت کیا وہ جنگ کے حق میں نہیں ہے۔ روسی صدر پوتن اور ٹرمپ کے درمیان دوستی کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے صدر ٹرمپ روس یوکرین کے درمیان ہونے والی جنگ کے خاتمے میں بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے معتوب وزیراعظم عمران خان کے درمیان خوشگوار تعلقات سے کم از کم یہ امید کی جا سکتی ہے حکومت عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ نہیں چلا سکے گی۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے پاکستان پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کا کافی اثر ہے یہی وجہ ہے پاکستان میں فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے ساٹھ دہشت گردوں کی صدر سے رحم کی اپیلیں مسترد ہونے کے باوجود انہیں پھانسی نہیں دی گئی۔ تعجب ہے امریکہ میں مقیم ایک سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کا موقف ہے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کی طرف سے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نوٹس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اسی طرح امریکی کانگریس کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مراسلے کا پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی امریکہ میں پی ٹی آئی کی ایک مضبوط لابی ہے جو پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کے لئے کردار ادا کر سکتی ہے۔ عمران خان کے خلاف مقدمات کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو ان مقدمات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔ سانحہ نو مئی کے مقدمہ کی بات کریں تو ایک ایسے مقدمہ میں جب ملزم پہلے سے جیل میں ہو اور جیل سے باہر رونما ہونے والے کسی سانحہ میں اسے ملوث کیا جانا قانون کی نظر کوئی حیثیت نہیں رکھتا شائد اسی لئے حکومت نے عمران خان کے خلاف سانحہ نو مئی کا مقدمہ التواء میں رکھا ہوا ہے۔ نومنتخب صدر کی کامیابی میں امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کا خاصہ عمل دخل ہے جنہوں نے بڑھ چڑھ کر انہیں ووٹ دیئے۔ ہم ڈیموکریٹک کی صدارتی امیدوار کملاہیرس کی بات کریں تو اس کی ناکامی میں زیادہ عمل دخل ان کے مختلف بیانیے ہیں جنہوں نے مختلف مواقع پر مختلف بیانیوں کا سہارا لیتے ہوئے عوام سے ووٹ لینے کی جدوجہد کی۔ کملاہیرس نے انتخابی مہم میں ایک طرف فلسطین اسرائیل جنگ روکنے کا سہارا لیا تو دوسری طرف اپنے خطاب میں یہودی کمیونٹی کو سپورٹ کرنے کا بیانیہ اپنا کر ووٹ بینک خراب کیا۔ اسرائیل فلسطین جنگ کی بات کریں تو ایک طویل جنگ نے اسرائیل کو بھی معاشی طور پر بہت متاثر کیا ہے۔ اگرچہ اس جنگ میں ہزاروں مرد وزن اور بچے لقمہ اجل بنے ہیں اسرائیلی فوجیوں کی خاصی تعداد ماری گئی ہے لہذا اس تناظر میں دیکھا جائے تو جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ عالمی دنیا کی نظریں نو منتخب امریکی صدر کی طرف ہیں وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد جنگوں کے خاتمے خصوصا اسرائیل فلسطین جنگ کے خاتمے کے لئے کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ امریکی صدر جوبائیڈن کی بات کریں تو حقیقی طورپر وہ کمزور ترین صدر واقع ہوا ہے جو اسرائیل فلسطین جنگ اور مشرق وسطیٰ میں ہونے والی لڑائی روکنے میں ناکا م رہا۔ جہاں تک ٹرمپ کی بات ہے وہ ایک ذہین و فطین سیاست دان ہے جس نے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا کرکے اپنے ملک کو معاشی تباہی سے بچانے کی کوشش کی ۔ کسی حد تک ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ مثبت سوچ تھی جب افغانستان میں دہشت گردی ختم ہو چکی تھی امریکی افواج کو وہاں رکھنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا۔ ٹرمپ کا موقف ہے افغانستان میں دہشت گردی دوبارہ سر اٹھاتی ہے تو ہمسایہ ملکوں کو چاہیے وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کریں لہذا وہ امریکی عوام کے ٹیکسوں سے وصول ہونے والی رقم افغانستان میں ضائع کرنے کو تیار نہیں تھے۔ گویا وہ امریکی عوام کے دلوں میں پہلے سے جگہ بنا چکے تھے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پاکستان کی حکومت یا طاقت ور حلقے امریکی صدر کے اثر و رسوخ سے باہر رہے گے یہ ان کی خام خیالی ہے ۔ جب ہم عالمی مالیاتی اداروں سے مانگ کر کھائیں گے اور اپنی معاشی حالت ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو ہمارے لئے عالمی دبائو سے باہر نکلنا دشوار ہو گا۔ جو اقوام اپنی حالت ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتیں ان کی حالت کبھی سدھر نہیں سکتی۔ ۔ن لیگی حلقوں کا عمران خان کے خلاف پراپیگنڈا اپنی جگہ کوئی معانی نہیں رکھتا عمران خان مضبوط اعصاب رکھنے والا عوامی رہنما ہے جو شخص قید کے دوران حق تعالیٰ سے لو لگائے رکھتا ہو اسے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مدد کے سوا کسی سے مدد کی امید رکھنا کمزور ایمان کی علامت ہے۔ درحقیقت حکومت اور دیگر سیاسی جماعتیں عمران خان کی مقبولیت سے حاسد ہیں۔ پی ٹی آئی کو جے یو آئی سے زیادہ امیدیںنہیں رکھنی چاہیں ایک بات واضح ہے جے یو آئی پی ٹی آئی کی حکومت مخالف تحریک میں کبھی ساتھ نہیں دے گی۔ نئی امریکی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ بات واضح ہے پاکستان بھارت کی طرح امریکہ کا سرٹیجک پارٹنر تو نہیں ہے البتہ امریکہ کو پاکستان سے اس حد تک دل چسپی ضرور ہے افغانستان دوبارہ کہیں دہشت گردی کا مرکز نہ بن جائے۔ ویسے بھی پاکستانی قوم کو امریکہ سے زیادہ امیدیں نہیں باندھنی چاہئیں۔ حکومت کب تک عمران خان کو جیل میں رکھے گی اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا عمران خان کے خلاف مقدمات کی سماعت جلد ہوئی اس کی رہائی یقینی ہے۔ سانحہ نو مئی کے مقدمہ میں اس کا کیس فوجی عدالت میں لے جانا اس لئے دشوار ہوسکتا ہے عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں شور و غوغا کریں گی تو امریکی حکومت بھی اس صورت میں دبائو ڈال سکتی ہے۔ لیگی حلقوں کی طرف سے عمران خان کی رہائی کیلئے نو منتخب امریکی صدر کی دیکھنے کی بات محض ایک پراپیگنڈا ہے رہی بات حسین حقانی کی پاکستان انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کے اثر و رسوخ سے کبھی باہر نہیں نکل سکتا۔