افغانستان میں پوست کاشت کی بحالی ؟
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
پوست کی کاشت نہ صرف افغانستان کی معیشت کے لئے اہم ہے بلکہ اس کی غیر قانونی برآمدات سے مبینہ طور پر افغان عبوری حکومت سے وابستہ مختلف عسکری گروہوں کو بھی مالی مدد ملتی ہے۔ افغانستان میں پوست کی کاشت سے حاصل ہونے والی غیر قانونی منشیات عالمی سطح پر مسئلہ بن چکی ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک اس سے متاثر ہیں اور خاص طور پر پاکستان ، یورپ اور امریکہ میں اس کی اسمگلنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان میں پوست کی کاشت کی بحالی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی معاشی پابندی یا پالیسی کا نفاذ صرف سیاسی بنیادوں یا جبری طورپر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ عمومی طور افغان طالبان کی پالیسیاں عجلت پر مبنی تھیں اور اس کا انجام وہی ہوا جو دیکھنے کو ملا، یہی صورتحال دوسری پالیسیوں پر بھی نتائج مرتب کر سکتی ہیں۔ افغانستان کی معیشت کو برسوں سے پوست کی کاشت نے سہارا دیا ہوا ہے۔ اگرچہ افیون کی اسمگلنگ غیر قانونی ہے، لیکن افغانستان جیسے ملک کے لئے یہ ایک آسان آمدنی کا ذریعہ ہے۔ افغان طالبان کے دھڑوں کی وجہ سے افغان عبوری حکومت کی معیشت اور مالی مدد کا ایک بڑا حصہ بھی مبینہ طور پر افیون کی کاشت اور اسمگلنگ پر انحصار کررہا ہے، جو کہ انہیں غیر ملکی امداد اور بین الاقوامی دبا کے متبادل ذرائع فراہم کرتا ہے۔
افغانستان میں پوست کی کاشت میں اضافے کے باوجود افغان طالبان کی جانب سے عائد کی گئی پابندی کے باوجود اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کی روک تھام کے دفتر کے مطابق، 2024میں افغانستان میں پوست کی کاشت میں اضافہ ہوا ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے اپریل 2022میں اس فصل پر پابندی کے بعد یہ اضافہ خاصی توجہ کا مرکز بنا ہے۔ تاہم، پابندی سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں کاشت کا رقبہ اب بھی کم ہے، لیکن یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ اس منافع بخش فصل کی کاشت دوبارہ بحال ہو رہی ہے۔ اس سال پوست کی کاشت کے لیے استعمال ہونے والا افغان رقبہ 2023 ء کے مقابلے میں 19فیصد زیادہ ہے، جو تقریبا13 ہزار ہیکٹر بنتا ہے، تاہم یہ زرعی رقبہ اپریل 2022ء میں ریکارڈ کیے گئے دو لاکھ 32 ہزار ہیکٹر کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
افغان طالبان کی جانب سے پوست کی کاشت پر پابندی کا نفاذ افغانستان کو دنیا کے سب سے بڑے افیون پیدا کرنے والے ملک کی حیثیت سے روکنے کے لئے تھا، کیونکہ افیون کی پیداوار عالمی ہیروئن مارکیٹ کا ایک بڑا حصہ ہے۔ یہ پابندی افغان طالبان نے ایک مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری کے طور پر پیش کی اور کہا کہ افیون کی کاشت اسلامی اصولوں کے منافی ہے اور افغانی معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے۔ لیکن افغان کسانوں کے لیے اس پابندی کے بعد زندگی گزارنا ایک چیلنج بن گیا۔ تقریبا80فیصد افغان عوام اپنی روزی روٹی کے لئے زراعت پر انحصار کرتی ہے، اور پابندی کے بعد ان کا ذریعہ معاش محدود ہو گیا۔ افغانستان میں زراعت کے وسائل محدود ہیں اور افیون کی فصل ایک ایسے کسان کے لئے زیادہ نفع بخش ہے جو گندم یا دیگر اجناس کاشت نہیں کر سکتا۔ پوست کی فصل جلدی تیار ہوتی ہے اور عالمی سطح پر اس کی قیمت بھی زیادہ ہے۔ اس صورتحال میں، کسانوں کے پاس افیون کی کاشت کے علاوہ محدود راستے ہیں، اور پابندی نے ان کے لئے مالی مسائل پیدا کیے۔
پوست کی بجائے گندم جیسی کم منافع بخش فصلوں کی کاشت نے افغان کسانوں کے معاشی حالات کو مزید خراب کر دیا، جس کی وجہ سے بعض کسانوں نے خفیہ طور پر پوست کی کاشت دوبارہ شروع کر دی۔UNODC کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، پابندی کے بعد کاشت کا رقبہ ابھی بھی محدود ہے، مگر چند خاص علاقوں میں بڑی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر، شمال مشرقی صوبے و دیگر حصوں میں اس سال پوست کی کاشت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ افیون کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہے، جو اب تقریباً 730امریکی ڈالر فی کلوگرام ہے، جو پابندی سے پہلے تقریباً 100 امریکی ڈالر تھی، اس اضافے نے غریب کسانوں کو اپنی طرف راغب کیا ۔ افغانستان میں جاری انسانی بحران، جہاں تقریباً دو تہائی آبادی خوراک کی کمی کا سامنا کر رہی ہے، کسانوں کے لئے پوست کی کاشت کو ایک منافع بخش فصل بن گئی ہے۔ بادی النظر افغان طالبان کی جانب سے سختی کے باوجود، اقتصادی حالات انہیں اس خطرناک پیشے کی طرف دھکیل دیا ہے ۔
پوست کی کاشت کی بحالی نہ صرف افغانستان بلکہ خطے اور بین الاقوامی برادری کے لیے بھی سنگین خطرات کا باعث ہے۔ اگر پوست کی کاشت مزید پھیلتی ہے تو منشیات کی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس پھر سے مستحکم ہو سکتے ہیں، جس سے خطے میں عدم استحکام کا سبب بنے گا۔ یہ صورتحال معاشی حالات میں بہتری نہ آنے کی صورت میں وسائل پر مسلح تصادم کی ممکنہ صورت حال پیدا کر سکتی ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے پوست کی کاشت پر پابندی کے باوجود، اس کے اثرات عارضی ثابت ہوئے ہیں اور اس پابندی نے بہت سے افغان کسانوں کو معاشی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ اگر افغانستان کو منشیات کی اس منافع بخش تجارت سے باہر نکلنا ہے تو اسے عالمی امداد اور دیہی ترقی کے لئے پائیدار اقتصادی متبادل فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے نے ان اہم سوالات کو جنم دیا ہے کہ منشیات کی روک تھام کے لئے عائد کی گئی پابندیاں کس حد تک موثر ہیں اور کیا ایسے ممالک میں، جہاں لوگوں کی روزی روٹی اس سے وابستہ ہے، ان پابندیوں کا نفاذ ممکن ہے؟ ۔
افغان طالبان کی عبوری حکومت کو خدشہ بھی ہے کہ سخت اقدامات سے ان کے اقتدار پر اثر پڑ سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ حالیہ رپورٹس کے مطابق افغان طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں پوست کی کاشت دوبارہ سے بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ افغان طالبان کے بیانات میں منشیات کے خلاف سخت موقف پایا جاتا ہے، لیکن عملی طور پر منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ میں خاطر خواہ کمی نہیں دیکھی گئی۔ منشیات کی پالیسی میں ناکامی افغان طالبان کے لیے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر چیلنجز کا باعث بن چکی ہیں ۔
منشیات کے خاتمے کی پالیسی ایک پیچیدہ اور متضاد صورت حال کو جنم دیا ہے۔ ایک طرف وہ مذہبی اصولوں کے تحت منشیات کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں تو دوسری طرف معاشی حالات، وسائل کی کمی اور سیاسی استحکام کے چیلنجز ان کے اقدامات کی کامیابی کو محدود کر دیتے ہیں۔ افغانستان میں منشیات کی پالیسی، معاشی بقا اور سیاسی استحکام کے درمیان پیچیدہ تعلق افغان طالبان کے لیے ایک اہم چیلنج بن چکا ہے، اور اس کا حل افغانستان کی معیشت کی بحالی اور کسانوں کے لیے متبادل روزگار کے مواقع کی فراہمی میں مضمر ہے۔