لو پھر ٹرمپ آیا
تحریر: کنول زہرا
آخر کار ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے دوسری بار صدر بنے کے لئے منتخب ہو ہی گئے ہیں۔ ان کا دوبارہ امریکہ کا صدر بننا امریکہ اور دنیا بھر میں کیا کیا تبدیلیاں لائے گا اس حوالے سے انگریزی کے روزنامہ نیو یارک ٹائمز کے تبصرے کے مطابق ٹرمپ کی حکومت کے پہلے دورِ کی بانسبت دوسرا دور اقتدار کسی حد تک خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے پہلے دورِ حکومت میں ان کے مشیر آئین اور قانون کو سمجھتے ہوئے ٹرمپ کو فیصلہ سازی کرنے میں معاونت فراہم کرتے تھے جبکہ انہوں نئے دور میں قابل لوگوں کا ساتھ میسر ہونا ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق اس مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اردگرد ایسے مشیران اور ماہرین ہیں جو ان کی طرح ڈھٹائی، انتہا پسند اور من موجی و من مانی پر مبنی سوچ کے حامل ہیں۔ جس سے ریاست کو بہت سے نقصانات کے سامنے کا خدشہ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ بات ذہن میں رکھنی چائیے کہ ان کی پہلی حکومت کے خاتمے بعد سے اب دنیا بہت تبدیل ہو چکی ہے لہذا انہیں بھی اپنے روئیے میں تبدیلی لانی ہوگی ورنہ انہیں نئے دورِ حکومت میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس میں سب سے پہلا مسئلہ ان کے خلاف درج مقدمات ہیں۔ جن میں سے بعض مقدمات میں ان پر فردِ جرم بھی عائد ہو چکی ہے۔ ایک مقدمے میں انہیں 26 نومبر کو نیو یارک کی ایک عدالت میں پیش بھی ہونا ہے جہاں انہیں سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔
ٹرمپ پر 2020 کے انتخابات کو سبوتاژ کرنے اور 6جنوری 2021ء کو کیپٹل ہل پر اپنے حامیوں کو حملے میں اعانت فراہم کرنے کا بھی الزام عائد ہے۔
اس کے علاوہ ان پر صدر کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد حساس اور خفیہ ریاستی دستاویز کو غیرقانونی طور پر اپنے پاس رکھنے کا الزام بھی ہے۔
ٹرمپ کے خلاف ان مقدمات کی سماعت مکمل ہو چکی ہے‘ جیوری اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔ گزشتہ ماہ اس کیس کا فیصلہ سنایا جانا تھا مگر صدراتی انتکابات کے پیش نظر یہ طے پایا کہ 26 نومبر پھر اس مقدمے کی سماعت ہوگی۔ جس ٹرمپ پر فرد جرم عائد ہونے کے قوی امکان ہیں۔ یہ باتیں بھی ریکاڈر کا حصہ ہیں۔ جس میں ٹرمپ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ صدارتی انتخاب جیت کر اسپیشل کونسل جیک سمتھ کو برطرف کر کے اپنے خلاف فیڈرل مقدمات ختم کر دیں گے۔
امریکی سیاسی ماہرین کی رائے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی ہے۔ سیاسی ماہرین کی رائے کے مطابق انہیں ووٹ دینے والا وہ طبقہ ہے جومہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ‘ غربت اور اشیائے خورو نوش کی کمی کے ساتھ علاج معالجے کی سہولت کی عدم دستیابی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ جن کے ذہنوں میں ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں آنے سے والے الفاظ ہیں۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکیوں کو درپیش مسائل کی وجہ کے شکار غیرقانونی تارکین وطن ہیں جو ان کے وسائل کا استعمال کرکے ان کے لئے مسائل بن گئے ہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے ان لوگوں نے ٹرمپ کی داخلی اور خارجہ پالیسی پر دھیان ہی نہیں دیا کہ وہ ہے کیا ؟ اس کا وژن کیا ہے ؟ انہیں تو بس تارکین وطن کا امریکہ میں رہنا کھٹکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ لوگ ان کے وطن سے چلے جائیں گے تو ان کے لئے سب اچھا ہوجائے گا۔ انہیں لگتا ہے کہ انہیں اس مشکل سے صرف ٹرمپ ہی نجات دلا سکتا ہے لہذا انہوں نے کسی اور جانب توجہ نہ دی اور تمام امیدیں ٹرمپ سے وابستہ کرکے انہیں پھر سے اپنا صدر منتخب کرلیا۔
ٹرمپ کا دوبارہ صدر بننا مشرق وسطی کے لئے امتحان ہے۔ جس ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد ہونے کا قوی امکان ہے۔ جس سے مشرق وسطیٰ میں مزید تناؤ پیدا ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ کا دوبارہ امریکی صدر منتخب ہونے سے غزہ کی صورتحال کی مزید ابتری کا بھی خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے۔
پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں بھی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ ٹرمپ کی پچھلی صدارت میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آیا تھا۔ وہ ایک طرف پاکستان کی افغانستان میں امن عمل میں معاونت کو سراہتے تھے تو دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں عدم اطمینان کا اظہار کرتا ہے۔ ٹرمپ کا دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سختی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ امریکی پالیسی میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر، چین کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں پاکستان سے مزید تعاون کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ٹرمپ پاکستان کو چین کے خلاف کسی ممکنہ اتحاد میں شامل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان کو محتاط حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے یقینی طور پر مبارکباد دینے میں تو پہل کردی ہے۔ دیکھتے ہیں ٹرمپ کے آنے کے بعد پاک، امریکہ تعلقات پر روای چین ہی چین کب تک لکھتا ہے جبکہ اب ہمارا کافی حد تک جھکاو چین کی جانب ہے جس سے امریکہ کو شدید خار ہے۔ کسی سمجھدار شخصیت کی سرابرہی میں تو امریکہ اپنی اس خار کو چھپانے کا ماہر نظر آیا ہے مگر ٹرمپ کے آنے کے بعد یہ خار کتنے دن مزید چھپ سکتی ہے اور کب آشکار ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
المختصر یہ کہ، ٹرمپ کی کامیابی نے امریکی سیاست کو ایک نئے دور میں داخل کردیا ہے۔ ان کی قیادت میں امریکا اپنے داخلی مسائل پر توجہ مرکوز کرے گا، لیکن عالمی سطح پر ان کی پالیسیوں میں مزید سختی آسکتی ہے۔ ان کی پالیسیوں کا اثر عالمی تعلقات پر پڑے گا اور امریکا کے اندرونی مسائل، جیسے کہ نسلی اور معاشرتی تناؤ، مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔ ان کا دور حکومت امریکا کے مستقبل کےلیے ایک خطرناک اور متنازعہ صورتحال پیدا کرسکتا ہے جس خدشے کا اظہار بین الاقوامی روزنامہ بھی کرچکا ہے۔ اگر نیویارک ٹائمز کے خدشات درست ثابت ہوجاتے ہیں تو اس کے اثرات بہت دیرپا ہونگے اور دنیا میں منفی رجحان محسوس کیا جائے گا۔ جو بین الاقوامی تعلقات سمیت انسانی نظم و ضبط کے منافی بھی ثابت ہوگا۔