کوئٹہ پھر لہو لہو
تحریر : صفدر علی حیدری
’’ میں اپنے دوست کو ریلوے سٹیشن پر الوداع کہنے گیا تھا۔ ابھی ہم ریلوے سٹیشن کے اندر داخل ہی ہوئے تھے کہ اچانک زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکہ بہت شدید تھا اور ایک دم ہی ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی، دھوئیں کے بادل ہٹے تو میں نے سب سے پہلے اپنے دوست اور دوست نے مجھے دیکھا۔ خوش قسمتی سے ہم دونوں محفوظ تھے مگر ہم سے کچھ فاصلے پر ٹکٹ والی کھڑکی تھی، میں نے دیکھا وہاں کئی لوگ زمین پر گرے پڑے تھے۔ کھڑکی کے ارد گرد کچھ اور لوگ بھی زمین پر پڑے ہوئے تھے، کچھ لوگ چیخ رہے تھے اور کچھ مدد مانگ رہے تھے ۔ جو لوگ زخمی نہیں ہوئے ان میں سے زیادہ تر سکتے کے عالم تھے۔ کچھ لوگوں کی مدد کرنے کی بھی کوشش کر رہے تھے کہ اس اثنا میں ایمبولینس اور پولیس موقع پر پہنچ گئی ۔ وہاں کا منظر ناقابل بیان تھا، کئی لوگوں کی حالت بہت خراب تھی ‘‘، یہ ایک عینی شاہد ناصر خان کے الفاظ ہیں جو اس وقت موقع پر موجود تھا۔ ایک اور عینی شاہد محمد اسلم کے بقول ’’ ٹرین نے نو بجے روانہ ہونا تھا۔ میں تقریباً آٹھ بجے ریلوے سٹیشن پہنچ گیا تھا۔ جس ٹرین پر میں نے سفر کرنا تھا اس نے پلیٹ فارم نمبر ایک سے نو بجے روانہ ہونا تھا۔ اس وقت کافی لوگ موجود تھے۔ کچھ لوگ مسافر ہوں گے اور کچھ انھیں الوداع کہنے آئے تھے‘‘۔ صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ہفتہ کی صبح ریلوے سٹیشن پر ہونے والے ایک دھماکے میں 27 افراد جاں بحق اور 62 زخمی ہوئے ۔ بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔ ایس ایس پی آپریشنز کے بقول’’ یہ دھماکہ ریلوے سٹیشن میں اس وقت ہوا جب جعفر ایکسپریس کے مسافر ریل گاڑی کے انتظار میں پلیٹ فارم پر موجود تھے اور ان میں سے زیادہ تر اس دھماکے کی زد میں آئے ہیں ‘‘۔ دھماکے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دھماکے کے وقت پلیٹ فارم پر درجنوں افراد ریل گاڑی کے انتظار میں شیڈ کے نیچے موجود ہیں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ’’ معصوم اور نہتے شہریوں کے جان و مال کو نقصان پہنچانے والے دہشتگردوں کو بہت سخت قیمت ادا کرنی پڑے گی ‘‘۔ وزیرِ اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی کہتے ہیں ’’ صوبے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری ہے، متعدد واقعات میں ملوث دہشت گرد پکڑے جا چکے ہیں اور اس واقعے میں ملوث دہشت گردوں کا پیچھا کر کے انھیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا‘‘، ادھر وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ بلوچستان میں امن کے قیام کے لیے آخری حد تک جائیں گے اور وفاق اس ضمن میں بلوچستان حکومت کی ہر ممکن معاونت کرے گا ‘‘۔
کیا اس دھماکے میں سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا؟
بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیند بلوچ نے میڈیا کو جاری کیے گئے بیان میں دعویٰ کیا کہ ’’ کوئٹہ ریلوے سٹیشن میں فورسز کے ایک دستے پر فدائی حملہ کیا گیا۔ حملہ بی ایل اے کی فدائی یونٹ مجید بریگیڈ نے سرانجام دیا ‘‘۔ جبکہ کوئٹہ کے ایس ایس پی آپریشنز محمد بلوچ نے ریلوے سٹیشن پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عام افراد کے ساتھ ساتھ فوجی بھی اس سٹیشن کو نقل و حمل کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ہلاکتوں اور زخمیوں میں فوجی اور سویلین دونوں شامل ہیں۔ بلوچستان میں بی ایل اے کی جانب سے پاک فوج اور اس کی تنصیبات کو ماضی میں بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جس میں 25اور 26اگست کی درمیانی شب تحصیل بیلہ میں ایف سی کیمپ پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔ کوئٹہ سے 225کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ضلع دکی میں بھی عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے 21افراد ہلاک جبکہ 7دیگر افراد زخمی ہوئے تھے ۔ واقعے کی ذمہ داری اب تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے ۔ مائن ورکرز حکومتی غفلت کی وجہ سے شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔ دکی میں جو لوگ عسکریت پسندوں کے ظلم کا نشانہ بنے ان کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے ہے۔ صوبے میں بے گناہوں کا بلاوجہ خون بہایا جا رہا ہے۔ لیکن حکومتی سطح پر اس صورتحال کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ۔ عدم تحفظ کی وجہ سے ہزاروں لوگ یہاں سے پہلے ہی کام چھوڑ کر ملک کے دیگر حصوں میں منتقل ہوچکے ہیں ۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو صوبے میں کان کنی کا شعبہ یکسر تباہ ہوسکتا ہے ۔ پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران خان مرتضی کہتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام کے باعث بلوچستان میں شورش دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے بلوچستان میں قیام امن کی مخدوش صورتحال اس وقت تک بہتر نہیں بنائی جا سکتی جب تک یہاں حکومتی فیصلے زمینی حقائق کے مطابق نہیں ہوں گے۔ ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں، جس میں ایک عام آدمی خود کو محفوظ تصور نہیں کر رہا۔ اگر سیاسی معاملات طاقت کے بل بوتے پر حل ہوتے تو آج بلوچستان میں حالات اس قدر خراب نہ ہوتے۔ دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے حکومت نے جو پلان مرتب کیا ہے اس کا از سرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ قیام امن کی صورتحال خراب ہونے سے حکومت پر دبائو بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہاں غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔
بڑھتی ہوئی شورش کی اصل وجوہات کیا ہیں؟، دفاعی امور کے ماہرین کے مطابق بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں بڑھتے ہوئے دہشتگرد حملے مقامی بلوچ اور پشتون قبائل کو آپس میں بہ دست و گریبان کرنے کی ایک سازش معلوم ہوتی ہے ۔ دکی میں مزدوروں پر حملہ ان حملوں کا تسلسل ہے جو کہ اس سے قبل صوبے کے دیگر شمال مشرقی علاقوں میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ ان کے بقول، بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ ہے۔ یہاں ترقیاتی عمل کو ثبوتاژ کرنے کے لیے بھی مزدوروں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں تاکہ صوبے میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا کی جاسکے۔ جبکہ حکام نے بتایا ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف بھی اگلے ہفتے کوئٹہ کا خصوصی دورہ کریں گے۔ دورے کے دوران انہیں امن و امان کی صورتحال اور عسکریت پسندوں کے خلاف جاری کارروائی پر بریفنگ دی جائے گی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اتنی سخت سکیورٹی کے باوجود دہشتگردی کیوں رکنے کا نام نہیں لیتی۔ صوبے میں امن نام کو نہیں۔ کچھ مقامی افراد مار دئیے جاتے ہیں تو کبھی جنوبی پنجاب کے مزدوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ آخر کب تک سیاسی معاملات کو غیر سیاسی انداز سے نمٹا جاتا رہے گا۔ آخر ہمارے مقتدر حلقے کیوں نہیں سمجھتے کہ ہر بار طاقت ہو طاقت سے نہیں کچلا جا سکتا۔ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔ مسائل ہمیشہ مذاکرات کی میز پر ہی حل ہوتے ہیں۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے۔ اگر کسی بیرونی دشمن کے بچوں کو پڑھایا جا سکتا ہے تو اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو کون پڑھائے گا ؟، ان کی کون سنے گا ؟، ان کے مسئلے کون حل کرے گا ؟، اگر ان کا مسئلہ مسنگ پرسنز کا تو اس کے حل کے لیے وہ کہاں جائیں ؟، اگر ان کو وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے مسئلہ ہے تو پھر اس کے لیے وہ کس کی طرف دیکھیں ؟، ہمارا مکار ہمسایہ پہلے ہی بانگ دہل اعلان کر چکا کہ وہ بلوچستان کو پاکستان سے توڑ کے رہے گا۔ آپ نے دعویٰ کیا تھا کہ آپ نے ایک حاضر سروس آرمی آفیسر پکڑا ہے، جس کا مقصد بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنا تھا۔ آپ نے اس پر مقدمہ چلایا، سزائے موت دینے کا اعلان کیا اور پھر خاموشی۔۔ طویل خاموشی۔
ہے کسی میں جرات کہ سوال کرے۔
کوئٹہ پھر لہو لہو ہے ۔
اور ہمارے کرتا دھرتا خاموش ہیں
بلوچستان میں امن کا مطلب پاکستان کی خوشحالی ہے۔
کیا کبھی اس خطے کو امن نصیب ہو گا۔
کوئی ہے جو اس کا جواب دے۔