Column

خان صاحب خطہ پونچھ کی ایک ہمہ جہت تاریخ ساز شخصیت

تحریر : پروفیسر خالد اکبر
خان صاحب، کرنل خان محمد خان خطہ پونچھ بلکہ تاریخ کشمیر کا وہ عظیم کردار ہیں جو اپنی ملی، سماجی، سیاسی خدمات اور اپنی بے بہا بصیرت دور اندیشی اور تدبر کی وجہ سے سے تا ابد روشنی کا مینارہ بن کر نئی نسل کے لیے آئیڈیل اور رول ماڈل کا کر دار ادا کرتے رہیں گے۔ آپ ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت تھے جن کا کردار اور کار ہائے نمایاں کئی تحقیقی مطالعوں کے متقاضی ہیں۔ ایسے میں ان پر ایک مضمون محض ان کی شخصیت کی ایک جھلک بلکہ دھندلی سی جھلک کہلاسکتا ہے ۔ شخصیت نگاری ایک فن ہے جس کے لیے تکنیکی طورپر درست صلاحیت کے ساتھ ساتھ مطلوبہ کردار کے ساتھ براہ راست تال میل Intrectionاور جانکاری ہو تو اس کے نقش اول کو بنانے کی سعی کرنا کسی حد تک شخصیت نگار کو اپنے مقصد میں ظفر یاب ہونے کا حوصلہ اور ترغیب فراہم کرتا ہے۔ اس باب میں اپنا دامن تو بالکل تہی لگتا ہے ۔ ایک ہمہ جہت شخصیت کے حوالے سے دستیاب علمی سرمایہ سے گزرنے کے بعد جو میرا خام تاثر بنا اس کی ایک دھندلی سی جھلک کو عیاں کرنے کی اور اس کا ادھورا نقش Sketchبنانے کی زیر نظر مضمون میں سعی کی گئی ہے۔ خان صاحب 1882ء میں تحصیل سدھنوتی کے موضع چھے چھن میں ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ اس عہد میں پونچھ میں شخصی راج اور دیگر اسباب کی وجہ سے تعلیمی سہولتوں کا فقدان تھا ۔ اس لیے ابتدائی مذہبی تعلیم کے بعد آپ نے پنڈی کہوٹہ سے مزید تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ مزید باقاعدہ تعلیم جاری نہ رکھ سکے چونکہ جنگ عظیم اول کا زمانہ تھا، فوج کی طرف جانے کا رحجان عروج پر تھا۔ سو خان صاحب نے بھی سپائیانہ زندگی کا آغاز کیا اور جنگی محاذ پر کئی کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ بعد ازاں فوجی نوکری سے سبکدوش ہوکر وہ ڈوگرہ پولیس میں انسپکٹر بھی ہوئے۔ لیکن کچھ اپنی حساس طبیعت اور راجہ کے شخصی راج ، ظلم و جبر اور ناروا سلوک کے خلاف احتجاجاََ استعفیٰ دے کر اپنی بقیہ زندگی ملک و ملت کی ترقی اور تعمیر کی خاطر وقف کر دی۔ آپ بارہ سال تک بلامقابلہ متحدہ کشمیر کی اسمبلی کے ممبر منتخب ہو کر خطہ پونچھ کے غیور پسماندہ عوام کی فلاح و بہبود ، ترقی اور خوشحالی کے لیے سرگرداں رہے۔ اس وقت کی حکومت سے خان صاحب اور ملت اسلامیہ کشمیر کی طرف سے غازی کشمیر کا لقب پانے والی ایسی عہد ساز شخصیات برسوں بعد پیدا ہو تی ہیں۔ہزاروں سا ل نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے۔
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
غیور باسیوں کی سرزمین پونچھ کا خطہ پورے برصغیر میں سب سے پس ماندہ اور ناخواندہ شمار کیا جاتا تھا ۔ ملازمتوں اور کاروبار پر ہندوئوں یا بیرون ریاست افراد کی اجارہ داری تھی۔ یہاں کے نوجوان جب حصول ملازمت کے لیے دیگر جگہوں پر جاتے تو تعلیم کی کمی کے سبب کم ترین ملازمتیں ہی ان کا مقدر ٹھہرتی۔ وہ سالا سال تک بغیر ترقی کے رہتے ۔ خان صاحب جیسے دیدہ دل اور جان دیدہ شخصیت نے اس تلخ حقیقت کا بہت پہلے ادراک کر لیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ جب تک پونچھ کے لوگوں کو تعلیم ، ہنر و فنون سے روشناس نہیں کرایا جائے گا تو اس مخدوش صورتحال کو نہیں بدلا جا سکتا۔ وہ جدید تعلیم و تدریس کی مبادیات کو جاننے کی غرض سے 1928ء میں علی گڑھ بھی گئے۔ ان کا یہ سفر ایک طرح کا Exposureوزٹ تھا جو Exclusivlyاس نئے تعلیمی اور تدریسی نظام کار کے بارے میں مکمل جانکاری حاصل کر نے کے لئے کیا گیا۔ محمد الدین فوق کے مطابق یہ Visitانہوں نے پونچھ ہجیرہ کے ایک باسی محمد عبداللہ، جواس وقت وہاں اکائونٹنٹ کے عہدہ پر فائز تھے، کے توسل سے کیا۔ آپ نے نصاب سازی سے لے کر تعلیم و تدریس کے جدید طریقوں تک مکمل معلومات حاصل کیں اور اسی طرح کے نظام تعلیم کے قیام کے لیے اسمبلی کے اندر اور اپنے قبیلے کے لیے ذاتی فلاحی حکمت عملی خصوصاََ ’’ سدھن ایجو کیشن کانفرنس ‘‘ کا پلیٹ فارم قائم کر کے اسے شرمندہ تعبیر کرنے کی پوری سعی بھی کی۔ اس باب میں ان کا ایک خط جو انہوں نے وہاں مقیم ایک طالب علم کو لکھا، ان کی فکر رسا اور تڑپ کا بھرپور عکاس ہے: ’’ آپ خوش قسمت ہیں جو اس درس گا ہ میں زیر تعلیم ہیں۔ مجھ پر علی گڑھ کے انتظامات ، اعلیٰ اخلاق اور تدریس کے نظام کا اس قدر اثر ہوا کہ دن رات خیال علی گڑھ میں ہی رہتا ہے۔ کاش وہ عمر جو گزر چکی پھر واپس ملے تو میں علی گڑھ میں پہنچ کر طالب علم بننے کی کو شش کروں لیکن یہ کب ہو سکتا ہے‘‘ ۔
خان صاحب کا تعلیم کے بارے میں Visionتمام محققین ، ماہر ین تعلیم اور اہل دانش کے لیے Significantاہمیت کا حامل ہے۔ انگریزوں کی برصغیر میں آمد، فارسی زبان کی بے دخلی ، علم اور فیوض کے خزینوں سے محرومی ، انگریزی زبان کی ترویج اور نئے علوم کے نفوذ سے برصغیر کے اہل علم، مسلمان دانشوروں اور مفکرین خصوصاََ علماء کرام کے اندر شدید تحفظات اور تشکیک آمیز رویوں نے جنم لیا۔ جس کا کائونٹر کرنے کے لیے مذہبی طریقہ تعلیم کو ہی واحد حل سمجھا گیا۔ یوں برصغیر کی دو مشہور عظیم درسگاہوں: دیو بندی اور
بریلوی مکاتب کی بنیادیں ڈالی گئیں۔ ایسے میں سر سید احمد خان اور ان جیسے دیگر اکابرین جو جدید تعلیم کے علمبردار تھے، کو شک اور اغیار کے گماشتوں کی شکل میں دیکھے جانے کا چلن عام ہو رہا تھا۔ طوائف الملوکی کے ایسے حالات میں ایک بہت ہی دور افتادہ بلکہ stone age کے طرز زندگی کے حامل خطہ پونچھ میں ہمہ گیر Inclusiveنظام تعلیم کی بات کرنا، جو کلاسیکل اور جدید علوم کا امتزاج ہو، کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ یاد رہے جب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک خصوصاََامریکہ جیسے ملک میں inclusiveتعلیم، جس میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہوں، کی لڑائی لڑی جا رہی تھی۔ کشمیر کی اسمبلی کے اندر اور باہر اپنے عام خطبات اور تقاریروں میں ایسی باتوں کا مکرر اظہار ان کی دور اندیشی اور بصیرت کا بھرپور غماز تھا۔ اس حوالے سی ان کو پونچھ کے سر سید کے لقب سے افراز کرنا بجا اور حقیقت پر مبنی ہے۔ آج پونچھ جو لٹریسی اور علم و فن میں سب سے آگے ہے تو اس کی جڑیں اسی عہد رفتہ میں ملتی ہیں اور یقینا اس کا سہرا خان صاحب کی اسی مساعی جمیلہ کو جاتا ہے۔ مرحوم فتح محمد کریلوی کے مطابق ان کا ایک اہم کارنامہ اپنے قبیلے کے لوگوں کو فوج میں بھرتی کروانا بھی تھا ۔ اس کا فوری فائدہ بے روزگاری کے خاتمہ اور اہم اور قابل قدر فائدہ اس خطہ کی آزادی کی صورت میں ظہور پزیر ہوا چونکہ یہی وہ تربیت یافتہ سپاہی اور مجاہد تھے۔
جنہوں نے مظفر آباد سے اکھنور تک کا علاقہ ڈوگرہ فوج سے آزاد کرایا۔ اپنے دیرینہ تعلق، جو پولیس انسپکٹری سے کشمیر کی اسمبلی تک محیط ہے کا ذکر کرتے ہوئے وہ آگے بیان کرتے ہیں: پونچھ میں بالعموم اور سدھن قبیلے میں بالخصوص خان صاحب جیسا عظیم لیڈر آئندہ صدیوں میں بھی نہ پیدا ہوسکے گا۔ ان کی ہم دم، تحریک آزادی کے ایک مجاہد سردار مرحوم مختار خان ایڈووکیٹ کے بقول وہ ہر فن مولا تھا۔ زراعت کے طریقے بتا رہے ہوتے تو شعبہ زراعت کے ماہر لگتے۔ حفظان صحت کے اصولوں پر گفتگو کر رہے ہوتے تو ایک ماہر ڈاکٹر معلوم ہوتے ، لائیوسٹاک کی افزائش اور دیکھ بھال کے طریقوں پر بحث کرتے تو شناسائے حیوانات لگتے ، بزرگان دین اور اولیاء کرام کے کارناموں اور کشفات پر بیان کرتے تو پیر کامل لگتے ، سیاست کے امور بیان کرتے تو ایک Statesmanلگتے ، رات کو گریہ زاری اور خضوع و خشوع سے یوں دعائیں مانگتے کہ ایسا لگتا کہ اس دنیا فانی سے انکا کوئی تعلق ہی نہیں رہا ۔1947ء میں تحریک آزادی کے دوران جنگی محاذ پر وہ مجاہدین کے حوصلے بڑھانے کے لیے اگلے مورچوں پر رہے۔ پاک فوج کے اس وقت کے ایک کمانڈر کے بقول پونچھ شہر پر حملہ کی حکمت عملی میں وہ پیش پیش تھے اور اس جنگ بندی معاہدہ کے خلاف بھی تھے جس کی وجہ سے پونچھ شہر فتح ہوتے ہوتے رہ گیا۔ پاک فوج کے کمانڈر کے بقول ان کے قبیلے کے رضا کاروں نے وہ توپیں محاذ جنگ پر پہنچائی جو نقل حمل کے ذرائع نہ ہونے کے سبب پاک فوج کے جوان بھی لے جانے میں ناکا م رہے اور جس کی وجہ سے مخالف فوجوں کی پیش قدمی رک گئی۔ یوں وہ بیک وقت فوجی کمانڈر تھے اور ساتھ ہی ساتھ ہر دل عزیز سیاسی اور مذہبی رہنما بھی۔
بقول حضرت مولانا یوسف مرحوم ان کی سب سے بڑی خوبی ان میں نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کا ملکہ تھا۔ وہ اقبالؒ کے حقیقی شاہین اور حقیقی رہنما کے تصورات کے امین تھے۔ وہ مزید فرماتے ہیں ان کی ایک دوسری بڑی خوبی ان کی برد باری، قوت برداشت اور بے لوث پن تھا۔ فی الواقع رہنما کے کوائف میں ایسی خوبیاں ہی سب سے اعلیٰ شمار کی جاتی ہیں۔۔۔ اور بد قسمتی سے عہد حاضر میں ہمارے رہنمائوں میں ان کا شدید فقدان ہے۔ بطور سماجی رہنما آپ کا کردار ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے۔ آپ نے اہل پونچھ میں فضول رسومات، فضول خرچی کو ختم کرنے اور مٹھی بھر آٹا جمع کرنے کے خیال کے ذریعے بچت، منصوبہ سازی اور ذاتی ضبط کا جو تصور دیا اور اسے غازی ملت محمد ابراہیم اور خان حبیب جیسے کرداروں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے استعمال کیا وہ تاریخ میں ہمیشہ لا فانی اور یادگار رہے گا۔
سیاست میں اپنی جگہ سردار محمد ابراہیم خان کو ممبر اسمبلی نامزد کر کے پھر خود مہم چلا کر اسمبلی میں پہنچایا۔ یوں وراثتی سیاست کے بت کو پاش پاش کرنا ان کا وہ کارنامہ ہے جس کی مثال کم کم ہی ملتی ہے۔ خان صاحب ایسے رہنما تھے جو جذبہ ترغیب اور عمل کے دریچے کھولتے تھے۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم صاحب ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے خان صاحب کی ترغیب اور تلقین پر الیکشن لڑنے کا قصد کیا تو وہ ان کو متعارف کرانے اپنے حلقہ انتخاب میں لے گئے ۔ تو جہاں ہم جاتے لوگو ں کا ہجوم امڈ آتا ۔ مگر جب وہ سیاست سے دست کشی اور اپنے نئے ارادے کا اظہار کرتے تو لوگوں کی آنکھوں میں آنسو امڈ آتے اور ان کے چہرے مایوسی سے لٹک جاتے ۔ یوں تمام قبائل میں یکساں توقیر اور تکریم کا مقام پانا صرف خان صاحب کا ہی یگانہ اعزاز ٹھرا۔ آزاد خطہ میں حکومت بننے کے بعد ہر بڑا عہدہ آپ کے گھر کی لونڈی تھا مگر اس درویش صفت انسان نے سیا ست سے کنارہ کشی اختیار کی اور دوسروں کو جگہ دی۔ 11نومبر 1962ء میں خطہ کشمیر کا یہ عظیم رہنما اور عہد ساز شخصیت ملک راعی عدم ہوئی ۔ شاید ایسے ہی کردار کے بارے میں شکسپیئر نے کہا تھا:
If Nature speaks , it worldsay , Yes This was the man
مقدور ہوتو خا ک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے و ہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button