Column

ترجیحات بدلنے کی ضرورت

تحریر: سیدہ عنبرین
پنجاب سموگ کی زد میں ہے، لاہور کا سب سے زیادہ برا حال ہے، اس کا کوئی پرسان حال نہیں، سموگ کے سبب دو کروڑ آبادی کے شہر میں نصف ناک، کان اور گلے کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ سموگ کے علاوہ لاہور کا گرد و غبار اور کوڑے کرکٹ کے سبب پھیلنے والی آلودگی اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ بتایا گیا تھا کہ اہل لاہور کو اس عذاب سے نجات دلانے کیلئے مصنوعی بارش کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ شو مئی قسمت یہ انتظام کرنے والے خود بیمار ہو کر اپنے علاج کیلئے بیرون ملک تشریف لے جا چکے ہیں۔ مریم نواز صاحبہ پاکستان واپسی کے بعد اگر اپنے گلے میں سکارف یا بینڈ باندھے رکھیں تو اس کی وجہ وہ نہ ہو گی جو ملکہ ترنم نور جہاں کے گلے کے بینڈ کے پیچھے تھی، ان کی واپسی تک کھانستے رہیں، ہانپتے رہیں، کانپتے رہیں اور خوش رہیں، ہمارے نصیب کی بارش اس مرتبہ بھی کسی اور کی چھت پر برس جائے گی۔ کچھ عجب نہیں فیصلہ کر لیا جائے کہ پاکستانی افرادی قوت اپنا کوڑا خود نہیں سمیٹ سکتی لہٰذا اس کیلئے کسی غیر ملکی کی خدمات حاصل کرنا ضروری ٹھہرے۔ ماضی میں ترکی کی ایک کمپنی یہ کام کرتی رہی، پنجاب بارش کی راہ دیکھتا رہا۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بارود کی بارش ہو گئی، جس کے نتیجے میں 26افراد شہید کر دیئے گئے، جبکہ اس سے زیادہ تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں، ان کی تعداد کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار سامنے نہیں آ رہے۔ واقعہ کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر پیش آیا جہاں مسافر اپنی اگلی منزل کیلئے ٹرین میں سوار ہونے کیلئے پہنچے، لیکن ان میں سے کوئی نہ جانتا تھا کہ موت کے سفر پر لے جانے والی ٹرین ان کی منتظر ہے، خودکش حملہ آور موجود تھا، موقع ملتے ہی اس نے اپنے آپ کو اڑا لیا۔ وہ 10کلو مواد اٹھائے پھرتا رہا، یقیناً مسافروں کے بھیس میں تھا، سیکڑوں مسافر تھے، کس کس پر نظر رکھی جا سکتی تھی، کس کس کا بیگ چیک ہو سکتا تھا، لیکن جہاں دہشت گردی کے واقعات تسلسل سے ہو رہے ہوں، وہاں داخلے کے راستے متعدد نہیں، صرف ایک ہونا چاہئے اور وہاں میٹل ڈیٹیکٹر کے علاوہ بارودی مواد کی اطلاع دینے والے آلات نصب کیوں نہ تھے، یہ بہت بڑا سوال ہے، مختلف اہم مقامات پر بارود اور منشیات سونگنے والے کتوں کے شو اور مقابلے دیکھنے میں آتے ہیں، جن میں یہ کتے حیرت انگیز صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں، حیرت ہے یہ سمجھدار اور تربیت یافتہ کتے، اس شہر اور اس صوبے کی انتظامیہ کے پاس کیوں نہیں ہیں جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست کہ بلوچستان کا بارڈر بھی خاصا طویل ہے، لیکن صوبہ خیبر پختونخوا کی طرح اب یہاں بھی ملحقہ سرحد کے ساتھ ساتھ باڑ لگانے یا دیوار تعمیر کرنے پر سوچنا ہو گا۔ معاملہ اخراجات کا تو ہے لیکن قومی سلامتی کیلئے اخراجات ہی کئے جاتے ہیں حکومت نہیں کرے گی تو دشمن تو ایسا کرنے سے رہا۔ اللے تللے کم کر کے اس طرف سوچنا ہی نہیں عمل کرنا ترجیح اول ہونا چاہئے جو تخریب کار 10کلو مواد کے ساتھ ریلوے سٹیشن پہنچا وہ کہاں سے آیا، اس نے کہاں قیام کیا، اسے کس نے پناہ دی، وہ رات بھر کہاں رہا۔ اسے یہ بارودی مواد کس نے مہیا کیا، سہولت کار یقیناً مقامی لوگ تھے تو کون تھے، ان تمام سوالوں کا جواب شاید نہ ملے لیکن ایک بات تو سامنے کی ہے، وہ یہ کہ ملک میں بارود تیار کون کرتا ہے اور درآمد کرنے کی اجازت کن کن کو ہے، ان کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرائیں اور ان کے علاوہ جہاں سے بارود رکھنے یا سٹاک کرنے کی اطلاع ملے فوراً گرفتاری، تین روز میں مقدمہ، فیصلہ اور سزائے موت پر عمل درآمد کرایا جائے تو سہولت کاری ختم ہو سکتی ہے، خودکش حملہ آور تو مر جاتا ہے، سہولت کار مزید سہولت کاری کیلئے موجود رہتے ہیں۔
تخریب کاری کا شبہ ہونے پر تخریب کاروں کا ساتھی نظر آنے والوں کی نشاندہی کرنے والے مختلف اداروں کے ہاتھوں پریشانیاں اٹھانے کی داستانیں سناتے ہیں، جس کے سبب اب لوگ آنکھوں سے بہت کچھ دیکھتے ہیں مگر خاموش رہتے ہیں۔ رویے بہتر اور اعتماد بڑھانے کے حوالے سے بھی اقدامات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ سب جانتے ہیں کہ حکومتی اکابرین کہتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے اندر تخریب کاری کے واقعات میں بھارت کا ہاتھ ہے، وہ انہیں پناہ دیتا ہے۔ تربیت اور اسلحے کے ساتھ ساتھ مالی مدد بھی فراہم کرتا ہے۔ ایک طرف تو یہ بات کی جاتی ہے دوسری طرف بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور تجارت کی باتیں شروع کر دی جاتی ہیں۔ حال ہی میں کرکٹ چیمپئنز ٹرافی کے حوالے سے بھارتی ٹیم کو دعوت دی گئی، انہوں نے انکار کیا، آج پاکستان میں یہ سوگ اس لئے طاری ہے کہ کرکٹ کا ایک میلہ وہ رنگ نہ لائے گا جو بھارتی کرکٹ ٹیم کے آنے سے آنا تھا۔ دوغلی پالیسی ترک کرنا ہو گی، حتمی فیصلہ کر کے اس کا اعلان کرنا ہو گا کہ جب تک بھارت پاکستان کے اندر تخریب کاروں کی پشت پناہی ختم نہیں کرے گا، دوستی اور تعلقات کی باتیں بھول جائیں، ان حالات میں کرکٹ ہو گی نہ تجارت، مگر پھر بھی اگر کسی کو یہ میلے ٹھیلے جاری رکھنے کا شوق ہے تو قوم کب تک جانوں کی قربانیاں دیتی رہے اور تخریب کاروں کا نشانہ بنتی رہے، یہ سوال اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ بین الاقوامی کرکٹ مقابلے پورے پاکستان میں نہیں ہیں، کرکٹ صرف پنجاب میں ہے، یہ بلوچستان، صوبہ خیبر پختونخوا میں بالکل نہیں، سندھ میں صرف کراچی کی حد تک ہے، لیکن تخریب کاری پورے ملک میں ہے، کوئی شہر ایسا نہیں جو تخریب کاروں کے نشانے پر نہ ہو، پھر ہم اسے صرف بھارت سے جوڑ کر ہی کیوں خوش ہوتے ہیں، اس کیلئے بھارت کا ہر معاملے میں بائیکاٹ کرنا ہو گا۔
بھارت سے تجارت بھی کوئی زیادہ منافع کا سودا نہیں ہے، ہمارا قیمتی زرمبادلہ ادھر دھڑا دھڑ جاتا ہے، بھارت اس کے مقابلے میں ہم سے کچھ زیادہ نہیں خریدتا، اس کی بڑی وجہ ان کی کرنسی کی بہتر قیمت ہے، ان کی اپنی تیار کردہ اشیاء ہم سے کوالٹی میں بہتر اور سستی ہیں، پھر وہ ہم سے کیوں خریداری کرے۔ لہٰذا امریکہ سرکار کے کہنے اور ان کی خواہش پر دوستی کے ہاتھ بڑھانے میں پاکستان کا کوئی فائدہ نہیں، اس کی بجائے اگر ایران کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دیا جائے تو کم از کم اہل پاکستان کو کم قیمت پٹرول اور سستی ترین گیس مل سکتی ہے، جس سے بند انڈسٹری کو نئی زندگی اور اجڑے ہوئے کاروباری خاندانوں کو سکھ کا سانس میسر آ سکتا ہے۔ ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر دشمن اور تخریب کار تو اپنی ترجیحات کے مطابق دراندازی اور تخریب کاری جاری رکھیں گے۔

جواب دیں

Back to top button