دنیا

ایران کا ڈونلڈ ٹرمپ سے ’دباؤ‘ کی پالیسی تبدیل کرنے پر زور

ایران نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اپنے پہلے دور صدارت میں اختیار کردہ ’زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی کو تبدیل کریں۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ایران کے نائب صدر برائے اسٹریٹجک امور جواد ظریف نے ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ انہوں نے اپنی پچھلے دور صدارت میں ایران کے خلاف جو ’زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی اختیار کررکھی تھی وہ اس میں تبدیلی کریں۔

ایران کے سابق وزیر خارجہ جواد ظریف نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ وہ ماضی کی غلط پالیسی جاری نہیں رکھیں گے۔

یاد رہے کہ جواد ظریف نے بطور وزیر خارجہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں امریکا سمیت عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

تاہم 2015 میں کیے گئے اس جوہری معاہدے کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے دوران 2018 میں یکطرفہ طور ختم کر دیا تھا اور یہ معاہدہ ختم کرنے کے بعد ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں۔

جس کے جواب میں ایران بھی معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہوگیا اور ایران نے اپنے یورینیم کی افزودگی کے عمل کو روک دیا تھا، اس کے بعد سے 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کیا ہے جو جوہری معیار سے صرف 30 فیصد کم ہے۔

تہران متعدد بار یہ واضح کرچکا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ مغربی ملکوں کے الزامات کی بھی تردید کرتا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ ’ ہم توقع کرتے ہیں کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں واپس آنے کے بعد واشنگٹن کو اجازت دیں گے کہ وہ ماضی کی غلط پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔’

واضح رہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کو جنوری 2020 کے اوائل میں ایک ڈرون حملے میں عراقی دارالحکومت بغداد میں قتل کردیا تھا۔

امریکا نے بارہا ایران پر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے امریکی اہلکاروں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا ہے جب کہ تہران نے الزامات کی تردید کی ہے۔

چند روز قبل، امریکا نے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قتل کی سازش کے الزام میں ایک ایرانی شہری پر فرد جرم عائد کی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button