ملمع کاری
محمد مبشر انوار (ریاض)
بعد از اسلام کرہ ارض واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے ایک طرف توحید کے ماننے والے ہیں تو دوسری طرف مشرکین ہیں لیکن اس تقسیم کے باوجود، ریاستوں کے انتظام و انصرام میں ہر حکمران کی ذمہ داری بلا امتیاز ایک جیسی ہے۔ بدقسمتی سے مشرکین ریاستیں دور حاضر میں ہمہ جہتی مسائل سے بخوبی نبرد آزما نظر آتی ہیں جب کہ مسلم ریاستوں کی جانب نظر دوڑائیں تو اس تلخ حقیقت کا نظارہ کرتا پڑتا ہے کہ مسلم ریاستوں کے حکمران فروعی مسائل کا شکار ہیں۔ ان فروعی مسائل میں سرفہرست ہوس اقتدار ہے جبکہ دیگر مسائل میں پیشہ ورانہ مہارت کے حامل افراد کی کمی واضح نظر آتی ہے، تاہم وسائل سے مالامال ریاستوں نے اس خامی پر قابو پانے کے کوششیں شروع کر رکھی ہیں جن کے نتائج لامحالہ جلد یا بدیر سامنے آئیں گے بشرطیکہ غیر مسلم ریاستوں نے اس افرادی قوت کو اپنی طرف کھینچ نہ لیا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہی مشق دیکھنے کو مل رہی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے قابل و ذہین افراد کو ترقی یافتہ ممالک، بہتر زندگی کی ضمانت دے کر، اچک لیتے ہیں اور جو افراد اپنے وطن کی مٹی سے محبت میں سرشار، جبری یا حرص و ہوس کے باعث ہجرت نہیں کرتے، اپنی خدمات ترقی یافتہ ممالک کو پیش نہیں کرتے، ان کے لئے اندرون و بیرونی خطرات سے زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ بہرکیف یہ ایسی تلخ حقیقت ہے کہ جس سے انکار ممکن نہیں اور ایسی بے شمار مثالیں وطن عزیز میں بھی موجود ہیں کہ وہ قابل و ذہین و ترین افراد، جنہیں ترقی یافتہ ممالک، اپنے خدمات کے عوض پلکوں پر بٹھاتے، اپنے وطن میں رہنے پر اصرار نے، ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا اور ان کا کیسا عبرتناک انجام کیا گیا جبکہ غیر مسلموں کی خدمات سرانجام دینے پر، انہیں نوبل پرائز تک سے نوازا گیا۔ اس کے پس پردہ صرف ایک ہی عنصر کارفرما نظر
آتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ان کا اقتدار طویل تر رہے اور پوری دنیا کو اپنے سامنے سرنگوں رکھیں لیکن قانون قدرت اس سے مختلف ہے کہ جب تک آفاقی قوانین کا احترام اور ان قوانین پر عمل پیرا رہیں گے، عزت و عظمت آپ کے قدموں تلے ہو گی لیکن جب آفاقی قوانین کی خلاف ورزی ہو گی تو قعر مذلت ہی ٹھکانہ ہوگا، اسی لئے میانہ روی کی تلقین کی گئی ہے۔ ریاستوں کی ترقی و خوشحالی کا آفاقی قانون ایک ہی ہے کہ ہر وہ ریاست جو عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرتی ہے، اللہ رب العزت کی عنایات اس پر برستی رہتی ہیں جبکہ وہ ریاستیں جو اپنے معاشروں میں عدل و انصاف سے روگردانی کرتی ہیں، ان کا انجام انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔ بالخصوص جب بارہا مواقع ملنے کے باوجود ریاستیں اپنا قبلہ درست نہ کریں اور انا و ضد و ہٹ دھرمی پر قائم رہیں، حرص و ہوس میں مبتلا حکمران اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآء ہونے کے لئے تیار نہ ہوں، منافقانہ طرز عمل اختیار کئے رکھیں اور یہ توقع رکھیں کہ اسی طرح سب ٹھیک ہو جائے گا، جو قطعا ممکن نہیں۔ اس طرح صرف ان کے ذاتی مفادات تو ٹھیک رہ سکتے ہیں لیکن معاشرہ تباہی کی جانب گامزن ہوتا رہے گا اور شہریوں کے حقوق سلب ہوتے رہیں گے، جو کسی بھی طور ریاست کی نمو نہیں ہونے دیں گے۔
قیام پاکستان سے قبل، تحریک پاکستان کے دوران ہی بابائے قوم نے انتہائی واشگاف الفاظ میں، اپنے ساتھیوں کے متعلق بتا دیا تھا کہ ان کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں، ایسے کھوٹے سکے جن کب ترجیحات میں ذاتی مفاد اہم ہیں، جس کا مظاہرہ ایک طرف قیام پاکستان کے فورا بعد، بابائے قوم کے ساتھ نامناسب سلوک رکھ کر کیا گیا تو بعد ازاں مسلسل اس قوم کو ہوس اقتدار و اختیار کے علاوہ ہوس زر کی سولی چڑھا کر کیا گیا ہے۔ دوسری قوموں نے اس حقیقت کو سمجھ کر، ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ،’’ صحیح بندے کو صحیح کام ‘‘ پر لگایا جبکہ ہمارے یہاں اس اصول کی دل کھول کر خلاف ورزی کی گئی ہے جو ہنوز جاری ہے، جس کے باعث ہم مسلسل ترقی معکوس کے سفر پر گامزن ہیں۔ اس حوالے سے عموما امریکی مثال دی جاتی ہے کہ ریاستی مشینری کے ایک اہم شخص کے متعلق یہ گمان رہا کہ وہ امریکی دشمن کا آلہ کار بن چکا ہے لیکن اس کی مدت ملازمت کے دوران کبھی بھی اس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت میسر نہ ہو سکا، تاہم ریٹائرمنٹ کے بعد، اپنے دوست سے اس راز کو آشکار کیا کہ کیسے اس نے دوران ملازمت امریکی دشمنوں کے ساتھ مل کر،
ریاستی مفادات کو نقصان پہنچایا تھا۔ راز داں دوست امریکی خفیہ ادارے سے وابستہ تھا، جس کا علم ملزم/مجرم کو بھی تھا لیکن چونکہ اس کے خیال میں اس کے خلاف دوران ملازمت کوئی ثبوت موجود نہیں رہا اور اب چونکہ وہ ریٹائر ہو چکا ہے، لہذا اس راز کو افشا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن زندہ قوموں کا یہ شعار ہی نہیں کہ قومی مجرموں کو معاف کر دیں، نتیجہ یہ ہوا کہ اس شخص کے اعتراف جرم کے بعد خلاف مجرمانہ عمل پر بعد از ریٹائرمنٹ بھی مقدمہ چلایا گیا۔ ہمارے ارباب اختیار کی یہ سعی ہوتی ہے کہ ٹھوس شواہد و ثبوتوں کی موجودگی کے باوجود، نظام کو یرغمال بنا کر، ان ثبوتوں کی ہئیت ہی تبدیل کر دی جاتی ہے، اس امر میں کسی بھی سیاسی جماعت یا کارکن کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں، کہ اشرافیہ کے لئے اس ملک میں ایسا کوئی قانون ہی موجود نہیں جو انہیں سزا دلوا سکے۔ بہرکیف یہ تو ذاتی نوعیت کے مقدمات ہیں، جس میں خالصتا ذاتی معاملات کے علاوہ، عمومی ذاتی معاملات بھی شامل ہیں کہ جس میں ریاستی مشینری انہیں ہر طرح سے سہولت فراہم کرتی ہے اور اس کی آڑ میں اپنی دیہاڑیاں لگانے سے بھی گریز نہیں کرتی البتہ نقصان ملک و قوم کا ہوتا ہے، جو مسلسل ہو رہا ہے لیکن کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے کہ جب یہی سیاسی و غیر سیاسی ارباب اختیار، میڈیا کے سامنے انتہائی گریہ زاری کرتے ہوئے یہ موقف بیان کرتے سنائی دیتے ہیں کہ اگر عوام ہمیں موقع دے تو ہم اس ملک و قوم کی تقدیر بدل دیں گے۔ صد افسوس کہ گزشتہ چار/پانچ دہائیوں سے یہ سیاسی خاندان ہر لحاظ سے ملکی وسائل پر قابض ہیں لیکن ملکی مسائل میں دنبدن اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ ان کے ذاتی کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مگر مچھ کے آنسو بہاتے یہ سیاسی شعبدہ باز، بازی گری کرتے دکھائی دیتے ہیں، گدھوں کی مانند، ملکی وسائل پر نظریں گاڑے، ان کی شدید ترین خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح ملکی وسائل کو اونے پونے خرید کر ذاتی کاروبار میں تبدیل کر لیا جائے، اس مقصد کے لئے اقتدار میں رہتے ہوئے، اولا ان اثاثوں پر ناقابل برداشت بوجھ ڈالا جاتا رہا، ان اداروں کے منافع کو خسارے میں بدلنے کی بھرپور کوششیں کی گئی۔ آمرانہ و تاجرانہ سوچ کی حامل اشرافیہ، اس سے قبل بھی منافع بخش قومی اثاثہ، غیر ملکی کمپنی کو بیچ چکی ہے، جس سے تاحال پوری رقم وصول نہیں کر سکی جبکہ کئی ایک دیگر بڑے اثاثوں سے جان چھڑانے کا نیا طریقہ یہ ڈھونڈا گیا ہے کہ پہلے ان اثاثوں کو پوری طرح پیس لو،تا کہ کوئی بھی ان اثاثوں کو خریدنے میں دلچسپی ظاہر نہ کرے یا اپنے ہی بندوں کے ذریعہ انہیں خریدا جا سکے، مقصد صرف اور صرف اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ملکی وسائل اونے پونے ہڑپ کرنا ہے۔ جیسے ہی یہ اثاثے، جن میں پاکستان ایئر لائنز، پاکستان سٹیل اور ریلوے جیسے ادارے شامل ہیں، اونے پونے خریدے گئے، سب سے پہلا کام ان اداروں پر ملازمین کی صورت زائد بوجھ کو اتار پھینکا جائے گا، جبکہ ان اداروں کی ازسر نو تشکیل کی جائے گی اور اس وقت ’’ صحیح بندہ صحیح مقام‘‘ پر تعینات کیا جائے گا۔ مجال ہے کہ ایک شخص بھی ضرورت سے زائد ان اداروں میں نظر آئے اور یہی ادارے، جو آج قومی ادارے ہوتے ہوئے خسارے کا شکار ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے، نجی ملکیت میں جاتے ہی ان کی ترقی کو پر لگ جائیں گے ۔ البتہ ہمیں میڈیا پر پھر بھی یہی ارباب اختیار مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے نظر آئیں گے کہ انہوں نے ملکی وسائل کا زیاں روکا ہی اور اگر انہیں ’’ عوام‘‘ مزید موقع فراہم کرے، تو وہ اسی طرح ملک کی خدمت میں پیش پیش نظر آئیں گے۔ دعوے ان کے ہمیشہ یہی رہیں گے کہ وہ ملک و قوم کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال کر رہیں گے لیکن مجال ہے کہ ان کا ایک قدم بھی صحیح سمت کی طرف ہو، کوئی ایک اعلی عہدیدار بھی میرٹ پر تعینات ہو، اداروں کو غیر جانبدارانہ طریقے سے بروئے کار آنے کی اجازت ہو، ہوس اقتدار میں اس قد اندھے ہو چکے ہیں کہ بس ہر اہم تعیناتی پر’’ یس سر‘‘ کہنے والا شخص درکار ہے وگرنہ اہل ترین شخص کو بھی راندہ درگاہ کرنے کے لئے مضحکہ خیز قانون سازی سے بھی گریز نہیں کرتے، اس مشق کو سوائے بازی گری، شعبدہ بازی، دھوکہ دہی اور ’’ ملمع کاری‘‘ کے کوئی دوسرا نام دینے سے قاصر ہوں۔