ہم لُٹے اپنوں سے اپنے دیس میں
رفیع صحرائی
سیاست کو کبھی خدمت کا ذریعہ ہی نہیں، عبادت کا درجہ بھی دیا جاتا تھا۔ سیاستدان الیکشن کے دنوں میں سیاسی جوڑ توڑ تو کرتے تھے مگر اپنے مخالفین کے ساتھ صرف سیاسی مخالفت ہی کیا کرتے تھے۔ سیاسی مخالفت ذاتی دشمنی میں بدلنے کی نوبت نہیں آیا کرتی تھی۔ کٹر مخالف سیاستدان بھی ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہونا فرض سمجھتے تھے۔ لیڈر شپ سے ہٹ کر باقی سیاستدانوں میں ان روایات کی اب بھی پیروی کی جاتی ہے البتہ سیاسی لیڈرشپ نے سیاسی مخالفت کو آپس کی شدید دشمنی میں اس حد تک بدل دیا ہے کہ یہ لیڈران کسی بھی فورم پر مل بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔ سیاست میں یہ شدت اس وجہ سے آئی ہے کہ ترجیحات بدل گئی ہیں۔ اب سیاست کھیل نہیں بلکہ نشہ بن گئی ہے۔ سیاست کو خدمت یا عبادت کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ اب مطمعِ نظر اقتدار کا حصول، بے تحاشا اختیارات سے لطف اندوز ہونا اور اپنی دولت میں کئی گنا اضافہ کرنا رہ گیا ہے۔ سیاستدان جن عوام کے کندھوں پر چڑھ کر ایوانوں میں پہنچتے ہیں ان کو اپنے پیروں کی خاک بنائے رکھتے ہیں۔ خود جائز و ناجائز سرکاری مراعات سے فیض یاب ہوتے ہیں جبکہ عوام کو آٹا، گھی اور پٹرول کی قطاروں میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ بجلی اور گیس کی بے تحاشہ قیمتیں بڑھا کر انہیں غمِ روزگار میں الجھا دیا
گیا ہے۔ اوپر والی سطح کی لیڈرشپ اور وزراء سے ہٹ کر ایم پی ایز اور ایم این ایز کی مراعات دیکھ لیں تو لگتا ہے ہم پوری دنیا کو قرض دینے والا امیر ملک ہیں جبکہ عوام کی حالتِ زار دیکھیں تو کسی افلاس زدہ تباہ حال افریقی ملک کا گمان ہوتا ہے۔
شاید یہ بات بہت سے قارئین کے لیے انکشاف کی حیثیت رکھتی ہو کہ عوامی نمائندے ’’ ہمارے لیے‘‘ فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں کی مد میں جو گرانٹ منظور کراتے ہیں اس کا 10فیصد کمیشن لینا ان کے لیے سرکاری طور پر جائز ہے۔ اب یہ عوامی نمائندے پر منحصر ہے کہ پچاس کروڑ کا کوئی منصوبہ منظور کروا کر پانچ کروڑ ’’ جائز کمیشن‘‘ جیب میں ڈال کر لاتعلق ہو جاتا ہے، اپنا کمیشن چھوڑ کر ٹھیکیدار سے ایمانداری کے ساتھ منصوبہ مکمل کراتا ہے یا دس فیصد کے علاوہ بھی ٹھیکیدار سے مک مکا کر کے منظور شدہ منصوبے کا بیڑا غرق کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں، ہمارے یہ نمائندے بھاری بھرکم تنخواہ اور الائونسز بھی ہر ماہ وصول کرتے ہیں جبکہ دیگر مراعات کے اخراجات اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہیں۔ ان کا میڈیکل فری ہے، انہیں بیرون ملک بھی سرکاری طور پر علاج معالجے کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔ ہر ماہ ریل اور جہاز کے ٹکٹ ملتے ہیں۔ گاڑی میں سرکاری پٹرول استعمال کرتے ہیں۔ ان کے بجلی اور گیس کے بل سرکار ادا کرتی ہے۔ ٹیلی فون سرکار کے خرچے پر استعمال کرتے ہیں۔ سرکاری پروٹوکول سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ ایسے نشے ہیں جو ایک بار لگ جائیں تو چھوڑے نہیں جا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار کے نشے کی خاطر انہوں نے قوم کو تقسیم کر دیا ہے۔ ان کی اپنی اولادیں بیرونِ ممالک پرتعیش زندگی گزار رہی ہیں اور یہ عام لوگوں کی اولاد کو جھوٹے نعروں اور دعووں کے پرفریب جال میں پھنسا کر سڑکوں پر مروا رہے ہیں۔ سرکاری خزانے کو ذاتی پونجی سمجھ لیا گیا ہے اور توشہ خانہ نے ہر ’’ امیر المومنین‘‘ کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ اس بہتی گنگا میں سب نے مقدور بھر ہاتھ دھوئے ہیں بلکہ اشنان تک کیا ہے۔ عوام آٹے کے پیچھے رُل جاتے ہیں جبکہ سرکاری گوداموں میں گندم پڑی پڑی گل سڑ رہی ہوتی ہے۔ جب تک عوام زندہ باد، مردہ باد کے نعروں سے نکل کر اپنے نمائندوں سے اپنے حقوق کی بابت سوال نہیں کریں گے تب تک یہ ذلت ایسے ہی ان کا مقدر رہے گی۔ تب تک ہمارے راہبر ایسے ہی راہ زن بن کر ہمیں لوٹتے رہیں گے۔ تب تک عوام کے لیے سرکاری خزانہ یونہی خالی اور ان مراعات یافتہ لوگوں کے لیے بھرا رہے گا۔ اقتدار میں آ کر کئی گنا اثاثے بنانے والوں سے جب تک ان کی آمدن کا حساب نہ لیا جائے گا تب تک یہ برہمن بن کر عوام سے شودروں جیسا سلوک کرتے رہیں گے۔
ہمارے ہاں ذاتی انا کی خاطر ملکی مفاد کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن دانستہ حکومت سے تعاون نہیں کرتی کہ کہیں حکومت مضبوط اور مقبول نہ ہو جائے۔ ملکی مفاد اور عوام جائیں بھاڑ میں۔ البتہ ارکانِ پارلیمنٹ کی مراعات اور تنخواہ میں اضافے کی بات ہو تو ایسے بل کی حمایت میں محمود و ایاز ایک صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔
محمد بن عروؒ یمن کا گورنر بن کر شہر میں داخل ہوئے، لوگ استقبال کے لئے امڈ آئے، ان کا خیال تھا کہ نئے گورنر لمبی چوڑی تقریر کریں گے، محمد بن عروہ نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی وہ جملہ تھا۔
’’ لوگو! یہ میری سواری میری ملکیت ہے۔ اس سے زیادہ لے کر میں واپس پلٹا تو مجھے چور سمجھا جائے‘‘۔
یہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا سنہرا دور تھا۔ محمد بن عروہ نے یمن کو خوشحالی کا مرکز بنایا۔ جس دن وہ اپنی گورنری کے ماہ و سال پورے کرکے واپس پلٹ رہے تھے، لوگ ان کے فراق پر آنسو بہا رہے تھے۔ وقتِ رخصت لوگوں کا جمِ غفیر موجود تھا۔ امید تھی کہ لمبی تقریر کریں گے۔ اپنی کامیابیوں کے قصے بیان کریں گے۔ محمد بن عروہ نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی وہ جملہ تھا۔
’’ لوگو! یہ میری سواری میری ملکیت تھی میں واپس جا رہا ہوں میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔
پاکستانیو! اپنے وزرائے اعظم، وزیروں، مشیروں، صدور، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے آنے اور جانے والے دن کا تقابل کیجئے بس!
مرحوم سائیں ناز حسین ناز کیا خوب کہہ گئے ہیں۔
راہ زن ہیں راہبروں کے بھیس میں
ہم لٹے اپنوں سے اپنے دیس میں
اپنے لٹنے کا ہمیں کچھ غم نہ تھا
غیر سے لٹتے اگر پردیس میں