Editorial

پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی قیاس آرائیاں غلط ہیں

آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کے 77برسوں میں پاکستان چند ایک کو چھوڑ کر تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے اور اس حوالے سے اُس کی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ دُنیا بھر کے ممالک کے ساتھ وطن عزیز کے اچھے تعلقات ہیں۔ کچھ اس کے انتہائی گہرے دوست بھی ہیں۔ چین اور سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے مثالی تعلقات ہیں۔ سعودی عرب پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہے، جس نے ہر مشکل موقع پر وطن عزیز کا بھرپور ساتھ نبھایا ہے۔ پوری قوم اس سرزمین سے خاص لگائو رکھتی ہے۔ اسی طرح چین بھی پاکستان کا آہنی برادر ہے۔ اُس نے بھی وطن عزیز کو ہر بار مشکلات سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قوم بھی ان دونوں کے ساتھ تعلقات کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ پاکستان امن پسند ملک ہے۔ اس نے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں بڑی خدمات سرانجام دی ہیں، جن کو ہمیشہ ستائش کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ پاکستان نے کبھی بھی کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت دی۔ ملکی تاریخ اس امر کا بیّن ثبوت ہے۔ پاک امریکا تعلقات بھی 7عشروں سے زائد عرصے پر محیط ہیں۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات رہے ہیں، لیکن یہ تعلقات بعض اوقات سردمہری کا شکار بھی ہوتے رہے ہیں۔ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اُس کی ہر ممکن مدد و معاونت کی ہے۔ امریکا کی جانب سے پاکستان کے اس کردار کو بارہا سراہا بھی گیا ہے۔ کچھ روز امریکا میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار صدر منتخب ہوئے ہیں۔ پوری دُنیا سے اُنہیں مبارک باد پیش کیے جانے کے سلسلے جاری ہیں۔ اُن کے منتخب ہونے کے بعد اندرونِ ملک کچھ حلقے طرح طرح کی باتیں بنانے میں مصروف ہیں، عجب قسم کے مفروضے تراشے جارہے ہیں، جن کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ تاریخ گواہ ہے پاکستان نے کبھی بھی کسی دبائو کو قبول نہیں کیا ہے۔ حق اور سچ بات ببانگ دہل کہی ہے۔ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں وطن عزیز ہمیشہ آواز بلند کرتا چلا آیا ہے اور اس حوالے سے اس کی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، دونوں ممالک کے تعلقات اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر مبنی ہیں، پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی قیاس آرائیاں غلط ہیں، پاکستان کے فارن مشنز اور دفتر خارجہ میں بات چیت سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہوتی ہے۔ ان خیالات کا اظہارترجمان نے پریس بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف 11نومبر کو الریاض سمٹ میں شرکت کریں گے۔ پاکستان فلسطین کی آزاد ریاست اور اسرائیلی جارحیت کے خاتمہ کا مطالبہ کرے گا۔ وزیر اعظم 12اور 13نومبر کو جمہوریہ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں کوپ 29کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کوپ کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف اور بھارتی وزیراعظم کی ملاقات کا امکان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا قاضی فائر عیسیٰ کی گاڑی پر حملے کے معاملے پر برطانوی حکومت سے رابطے میں ہیں۔ ابتدائی معلومات کے بعد حکومت کی جانب سے معاملہ باضابطہ طور پر اٹھایا جائے گا۔ ترجمان نے کہا کہ صدر مملکت اور وزیراعظم نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک باد دی ہے، پاکستان کے امریکا کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، پاکستان اور امریکا پرانے دوست اور شراکت دار ہیں، ہم ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر مبنی تعلقات کے حامی ہیں۔ پاکستان امریکا کے ساتھ مضبوط دو طرفہ تعلقات کا خواہاں ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان کے فارن مشن اور وزارتِ خارجہ کے درمیان بات چیت سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہوتی ہے۔ پاکستان دوسرے ممالک کی سیاست اور اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی قیاس آرائیاں غلط ہیں۔ ترجمان نے کہا، پاکستان کے چین سے تعلقات ہماری پالیسی کا حصہ ہیں۔ دہائیوں پر مشتمل یہ تعلقات کسی چیز سے متاثر نہیں ہوتے۔ پاکستان اور چین کے سیکیورٹی معاملات سمیت تمام شعبوں میں رابطے ہیں، چینی باشندوں پر حملے کی تحقیقات جاری ہے۔ تمام ممالک کا ایک پُرامن دنیا بالخصوص پُرامن مشرق وسطیٰ کے لیے کام کرنا ضروری ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا، بھارتی انتظامیہ سے یاسین ملک کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا، حریت رہنما یاسین ملک کی بھوک ہڑتال پر شدید تشویش ہے، حریت رہنما یاسین ملک کو فوری صحت سہولتیں فراہم کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنے موقف پر قائم ہیں، بھارت بہیمانہ حربوں سے کشمیریوں کے جذبات کو نہیں کچل سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ پاکستانی اور ایرانی سیکیورٹی فورسز کے پاک ایران سرحد پر مشترکہ آپریشن کی خبر غلط ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ سوشل میڈیا کی خبریں ہیں جو دہشت گردوں نے پھیلائی ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے غزہ میں فوری فائر بندی کا مطالبہ کیا ہے، غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہیں، پاکستان مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کا حامی ہے، غزہ میں نسل کشی کو فوری بند کرنے کیلئے اقوام عالم اپنا کردار ادا کرے۔ترجمان دفتر خارجہ نے حقائق کو کھل کر بیان کرڈالا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی قیاس آرائیوں کو ختم ہوجانا چاہیے۔ دوسری جانب یاسین ملک کی رہائی کا صائب مطالبہ کیا گیا ہے۔ بھارت کو حریت رہنما کی غیر قانونی حراست کو ختم کرتے ہوئے اُنہیں فوری رہا کرنا چاہیے۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو ایک بار پھر دُنیا کے ساتھ اُٹھایا ہے۔ عالمی اداروں اور دُنیا کو ان علاقوں میں مسلمانوں کی نسل کشی بند کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اقبالؒ کا 147واں یوم ولادت
مصور پاکستان، شاعر مشرق، حکیم الامت یہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے القاب ہیں۔ اس عظیم شاعر پر جتنا فخر کیا جائے، کم ہے۔ آج پوری قوم اُن کا 147واں یومِ ولادت عقیدت و احترام سے منارہی ہے۔ اس حوالے سے ملک بھر میں مختلف تقریبات کا انعقاد ہوگا، ٹی وی چینلوں پر پروگرام نشر کیے جائیں گے۔ دیکھا جائے تو علامہ اقبالؒ کی بیش بہا خدمات کا قرض یہ قوم ادا کرنے سے قاصر ہے، انہوں نے مسلمانوں کے لیے ایک ایسے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا تھا، جہاں مسلمان آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں، اس خواب کو قائداعظمؒ نے شرمندہ تعبیر کیا۔ یہ اقبالؒ کے فلسفے اور عظیم نظریات کا ہی کمال تھا کہ ہمیں آزاد فضا میں سانس لینا نصیب ہوا۔ اُمت مسلمہ کے لیے اُن کی بیش بہا خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اقبالؒ کی شاعری اور اُن کے افکار نے برصغیر کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُن کی شاعری لازوال ہے۔ وہ بہ حیثیت شاعر عالمی شہرت رکھتے ہیں، آج بھی دُنیا کے مختلف ملکوں میں اُن کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے معاشرے کے ہر فرد کو مخاطب کرتے ہیں۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں۔ اُن کے لافانی افکار بلاشبہ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ اُن پر چل کر ہم اپنی زندگیوں کو سنوار سکتے ہیں۔ شاعرِ مشرق کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہے، اُنہوں نے خاصے مشکل حالات میں زیست بسر کی۔ ہمیں ان عظیم رہنما کے افکار کا پرچار محض اُن کے یوم ولادت اور برسی کے مواقع پر ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہر لمحہ اُنہیں ملحوظ خاطر رکھنا اور اُن کو پروان چڑھانا چاہیے۔ افسوس ناک امر ہے کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود بھی اُن کی آفاقی فکر کا عملی اطلاق ہمارے معاشرے پر نہیں کیا جاسکا، اُن سے دانستہ بے اعتنائی برتی جاتی رہی، ان کے نام لیوا تو بہت ہیں لیکن اُن کے افکار پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت کوئی محسوس نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک عزیز میں ہر سُو خرابے دِکھائی دیتے ہیں اور آج ہم بہ حیثیت قوم و ملک پستیوں کا سفر طے کر رہے ہیں۔ ایسی کون سی بُرائی ہے جو ہمارے معاشرے میں موجود نہیں اور اس میں روز بروز اضافہ نہ ہورہا ہو جب کہ اچھائیوں کی کمی شدّت اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کے افکار، فلسفے اور نظریات کا ہر سطح پر خوب پرچار کیا جائے۔ محض اُن کے نام کی مالا نہ جپی جائے بلکہ اُس سے آگے بڑھتے ہوئے علامہ اقبالؒ کے لافانی نظریات پر عمل کو اپنا شعار بنایا جائے۔ اس عظیم مفکر سے سماج کے ہر فرد کو صحیح معنوں میں روشناس کرایا جائے۔ اُن کے خیالات کو معاشرے کا ہر انسان ناصرف سمجھتا ہو بلکہ اُن پر عمل درآمد بھی کرے۔ اقبالؒ کے افکار اور نظریات پر عمل پیرا ہوکر ہی خوشحالی کی منازل طے کی جاسکتی ہیں۔ ملک و قوم کو ترقی کے حقیقی ثمرات بہم پہنچائے جاسکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button