Ali HassanColumn

ایوب خان کی آخری تقریر

علی حسن
صدر پاکستان جنرل ایوب خان کے وزرائ، مشیر اور نمک خوار ان کی حکومت کے دس سال مکمل ہونے پر ترقی کے دس سال کا جشن منا رہے تھے۔ سب نے ملک میں ایوب خان کے خلاف پیدا ہونے والے نفرت کے طوفان کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ حالانکہ سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ ٹھیک ہونا بھی کیسے تھا۔ مہنگائی کے خلاف عوام کو شور تھا۔ امن و امان کی مخدوش حالت عوام کو قابل قبول نہیں تھی۔ عوام کو اظہار رائے کی آزادی نہیں تھی۔ حکومت کا ایک ہی نسخہ تھا کہ جو کوئی بھی حالات حاضرہ کے خلاف رائے زنی کرے، اسے جیل کو دروازہ دکھایا جائے۔ یہ قدم بھی حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ کا سبب بنا۔ ایسے حالات میں جنرل ایوب خان کے نہایت با اعتماد ساتھی ، ان کے ہی مقرر کر دہ فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان ایوب خان کے خلاف گھات لگائے بیٹھے تھے۔ ایوب خان ان کی سازشوں کو اندازہ ہی نہیں کر سکے اور ایک رات یحییٰ خان نے سرکاری ایوان صدر جو ایوب خان کے زیر استعمال تھا، پر شب خون مارا۔ ایوب خان کو بے دست و پا کیا گیا۔ اور ان سے ملک کا اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر نے خط تحریر کرایا گیا۔ ایوب خان کو اپنے دور حکومت میں نافذ کئے گئے آئین کے تحت حکومت قومی اسمبلی کے سپیکر کے حوالے کرنا چاہئے تھا لیکن بند کمرے میں ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ۔ خط لکھا کر کاپی حاصل کر کے یحییٰ خان تو واپس اپنی رہائش گاہ چلے گئے اور جاتے جاتے بیمار، نحیف، اور بستر لگے ایوب خان کو ایوان صدر خالی کرنے کا اشارہ دے گئے۔
مجبور اور بے کس ایوب خان نے قومی سے خطاب کیا۔
’’ میرے عزیز ہم وطنو! السلام علیکم۔ میں صدر پاکستان کی حیثیت سے آپ سے آخری مرتبہ خطاب کر رہا ہوں۔ ملک میں صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ انتظامی ادارے مفلوج ہورہے ہیں۔ ملک میں عجیب نفسانفسی کا عالم ہے۔ ہجوم گھیرائو ڈال کر اپنی من مانی کرا رہے ہیں اور زبردستی اپنے مطالبات منوا رہے ہیں اور کسی میں سچ کہنے کی جرات نہیں ہے۔ جو لوگ ملک کی خدمت کیلئے میدان میں آئے تھے اب عوام کے آگے بھاگ رہے ہیں۔ ان میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اس جنون کا مقابلہ کر سکے۔ ملک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے۔ کارخانے بند ہورہے ہیں اور پیداوار روز بروز گھٹ رہی ہے۔ اس لمحہ جو میرے جذبات ہیں آپ ان کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ جس ملک کی ہم نے خون اور پسینہ سے آبیاری کی تھی چند ماہ میں وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ میں نے ایک بار آپ سے کہا تھا کہ قومی مسائل جوش سے نہیں ہوش سے حل کیے جانے چاہئیں۔ آپ نے دیکھ لیا کہ ایک بار جوش کی آگ بھڑک اٹھنے کے بعد ہم کتنے بے بس ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے تجویز پیش کی کہ اگر یہ تمام مطالبات تسلیم کر لیے تو ملک میں امن و سکون بحال ہوجائے گا۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ کون سے ملک میں؟ کیوں کہ ان مطالبات کو تسلیم کرنے سے پاکستان کا وجود ختم ہوجائے گا۔ میں نے ہمیشہ آپ سے یہ کہا ہے کہ پاکستان کی نجات مضبوط مرکز میں ہے۔ میں نے وفاقی پارلیمانی نظام اس لیے قبول کیا کہ اس طرح مضبوط مرکز کو برقرار رکھنے کا امکان تھا لیکن
اب یہ کہا جارہا ہے کہ ملک کو دو حصوں میں بانٹ دیا جائے اور مرکز کو غیر موثر اور بے اختیار چھوڑ دیا جائے۔ مسلح افواج کو مفلوج کر دیا جائے اور مغربی پاکستان کی سیاسی حیثیت ختم کردی جائے۔ میرے لیے یہ ناممکن ہے کہ میں ملک کی تباہی و بربادی کی کاروائی پر صدر بنا بیٹھا رہوں۔ میرے لیے یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ میری یہ آرزوپوری نہ ہوسکی کہ سیاسی اقتدار آئینی طور پر منتقل کر دیا جائے۔ میں نے اپنی پوری صلاحیت و لیاقت کے مطابق خدمت کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرا یہ پختہ یقین ہے کہ پاکستانی عوام کے دل ایمان کی ابدی دولت سے مالا مال ہیں اور ان میں ہر مشکل پر قابو پانے کی صلاحیت ہے۔ ہمارے عوام کو استقامت، نظم و ضبط اور اتحاد کی ضرورت ہے۔29فروری کو میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لوں گا۔ مجھے امید تھی کہ اس اعلان کے بعد عوام پرامن ماحول بحال کر لیں گے اور ملک کے سیاسی مسائل کا پرامن حل تلاش کرلیا جائے گا۔ میرا خیال تھا کہ دلوں کی کدورتیں دور ہوجائیں گی اور ایک بار پھر ہم ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں گے۔ لیکن یہ بدقسمتی سے ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ آپ گول میز کانفرنس کے نتیجے سے باخبر ہیں۔ ہفتوں کے غور و خوض کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے درمیان دو مطالبات کے سلسلے میں اتفاق رائے ہوا تھا اور میں نے دونوں مطالبات کو تسلیم کر لیا۔ میں نے پارلیمانی نظام اس لیے قبول کیا کہ اس طرح مضبوط مرکز برقرار رکھنے کا امکان تھا۔ لیکن اب یہ کہا جارہا ہے کہ ملک کو دو حصوں میں بانٹ دیا جائے مرکز کو غیر موثر اور بے اختیار بنا دیا جائے۔ دفاعی افواج کو مفلوج کرکے رکھ دیا جائے۔ اور مغربی پاکستان کی سیاسی حیثیت ختم کردی جائے۔ میرے لیے یہ ناممکن ہے کہ ملک کی تباہی وبربادی کی کاروائی کرتے ہوئے صدر کے عہدے پر بیٹھا رہوں۔ میرے لئے یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ میری یہ آرزو پوری نہ ہوسکی کہ سیاسی اقتدار کی آئینی طریقے سے منتقلی عمل میں آنے کی روایت قائم ہو اور جاری رہے۔ ملک کے موجودہ حالات میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا ممکن نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کے کچھ ممبر اجلاس میں شرکت کیلئے آنے کی جرات نہ کر سکیں اور جو ممبر آئیں وہ خوف کی وجہ سے اپنی رائے نہ ظاہر کر سکیں۔ اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ قومی اسمبلی خون خرابہ کا شکار ہوجائے ملک کی سلامتی کا معاملہ سب سے سے افضل ہے۔ آئینی مسائل پرامن ماحول میں صرف اس صورت میں حل ہوسکتے ہیں جب کہ عوامی نمائندے پرسکون ماحول میں غوروخوض کر سکیں۔ آج ملک میں ایسا ماحول موجود نہیں ہے۔ جیسے ہی حالات کچھ بہتر ہوتے ہیں کوئی نہ کوئی چنگاری پھینک دیتا ہے۔ یہ بات بھی بڑے دکھ کی ہے کہ لوگ وہ سب کچھ ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو گزشتہ دس سال کے دوران اور اس سے پہلے کی حکومتوں کے دور میں حاصل کیا گیا تھا۔
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو قائد اعظمؒ کے بنائے ہوئے ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ اب صورت حال حکومت کے بس میں نہیں رہی ہے۔ تمام سرکاری ادارے خوف، تشدد اور دھمکیوں کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ ملک کا ہر مسئلہ سڑکوں پر حل کیا جارہا ہے۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلح افواج کے سوا کوئی آئینی اور موثر طریقہ نہیں ہے۔ پوری قوم کا یہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کی بری افواج کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خاں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ پاکستان کی بحری اور فضائی فوج ان کے ساتھ ہے۔ پوری قوم کو ان کی بہادری اور حب الوطنی پر اعتماد ہے۔ انہیں عوام کی بہبود کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے اور ان کا ہر عمل اسلامی اصولوں کے مطابق ہوگا۔ ملک کی سلامتی کا تقاضا ہے کہ افواج کی قانونی فرائض کی انجام دہی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور انہیں آزادی کے ساتھ اپنے فرائض پورے کرنے دیئے جائیں۔ ان خیالات کے پیش نظر میں نے آج سے صدر کے عہدے سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
میں آپ کی جذبات سے آگاہ ہوں۔ خدا پر یقین رکھئے اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیئے۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے نہ صرف دس سال تک پاکستان کا صدر رہنے کا اعزاز بخشا بلکہ ملک کی تعمیر و ترقی کے کام میں حصہ بھی لیا۔ آپ کے کارنامے تاریخ میں سنہری حروف میں لکھے جائیں گے۔ میں سرکاری ملازمین کا بھی ممنون ہوں کہ انہوں نے انتہائی دشوار لمحات میں جرات کا مظاہرہ کیا اور ہر طریقہ پر قوم کی خدمت کی۔ میرے بعض قریبی ساتھیوں کو انتہائی شدید نکتہ چینی کا نشانہ بنایا گیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے ملک کی بہبود کے لیے دن رات کام کیا خدا انہیں اس کا اجر دے گا۔
میرے عزیز ہم وطنو! آپ سے میری آخری درخواست یہ ہے کہ آپ صورت حال کی نزاکت کو سمجھیں اور نظم و نسق بحال رکھنے میں اپنے فوجی بھائیوں سے تعاون کریں، یہ سپاہی آپ کا بھائی ہے۔ وہ وطن کی محبت کے جذبے سے سرشار ہے اور اس کا دل اسلام کی روشنی سے منور ہے۔ میں خداوند برتر سے دعا گو ہوں کہ ملک میں جلد امن اور ہم آہنگی قائم ہوجائے تاکہ ہم جمہوریت کے راستے پر ترقی اور خوشحالی کے لئے آگے بڑھتے رہیں۔ آمین! پاکستان پائندہ باد‘‘۔

جواب دیں

Back to top button