پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے کیا سبق سیکھنا چاہیے؟
ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی حالیہ امریکی تاریخ کا اہم موڑ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے صدارتی امیدوار ہیں، جنہوں نے ایک صدارتی الیکشن میں شکست کے بعد دوسری مرتبہ امریکی صدارتی انتخاب جیتا ہے۔ صدارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکٹورل کالج کے 295 ووٹ حاصل کر لیے ہیں، اور پوسٹل بیلٹس کی گنتی مکمل ہونے کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو 300 سے زائد الیکٹورل ووٹ مل جائیں گے۔ یہ ان امریکی میڈیا پولز کے دعوؤں کے برعکس ہے جن میں کاملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین کانٹے کا مقابلہ دکھایا جا رہا تھا، جو زمینی حقائق کے بالکل برعکس تھا۔ کاملا ہیرس محض 226 الیکٹورل ووٹ ہی حاصل کر پائی۔
اگر دونوں امیدواروں کو پڑنے والے ووٹوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ امریکی عوام جن میں خصوصاً لاطینی اور سیاہ فام ورکنگ ووٹرز ایسے ہیں جنہوں نے ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان 4 امریکی سوئنگ ریاستوں، پینسلوینیا، جورجیا، مشی گن اور وسکانسن نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو یقینی بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا، کیونکہ یہ ریاستیں 2020 کے صدارتی انتخابات میں جوبائیڈن کی جیت میں شامل تھیں۔ اور ان ریاستوں میں سیاہ فام اور لاطینی ووٹرز کی کثیر تعداد قیام پذیر ہے۔ ایک حالیہ ایگزٹ پول نتائج کے مطابق، اس مرتبہ صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کو 54 فیصد امریکی مردوں، جبکہ کاملا ہیرس کو 44 فیصد مردوں نے ووٹ دیا، لیکن خواتین کی محض 54 فیصد تعداد ہی کاملا ہیرس کو ووٹ پول کر پائی جو کاملا ہیرس کیلئے بھی حیران کن ہے، جو اسقاط حمل جیسے مسئلے کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنا کر یہ خیال کر بیٹھی تھی کہ وہ خواتین کی بھاری اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کوجن 44 فیصد امریکی خواتین نے ووٹ دیا ان میں اکثریت سیاہ فام خواتین کی ہے۔
اس کے علاوہ پاپولر ووٹ کے لحاظ سے ڈونلڈ ٹرمپ نے 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے، جبکہ کاملا ہیرس صرف 47 فیصد ووٹ ہی حاصل کر پائیں۔ یہ شرح اس ٹرمپ مخالف میڈیا مہم کے باوجود برقرار رہی، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ماضی کے جنسی تعلقات اور خواتین کو لے کر مخصوص خیالات کو منفی انداز میں پیش کیا جاتا رہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے ساتھ ہی ریپبلکن پارٹی سینیٹ میں واضح اکثریت حاصل کرنے اور ایوان نمائندگان کا کنٹرول حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ دونوں امریکی ایوانوں میں ریپبلکن پارٹی کی جیت ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے کسی بلینک چیک سے کم نہیں، جو آنے والے 4 سالوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا ایجنڈا مکمل کرنے میں مدد کرے گی۔
ٹرمپ کی جیت نے ایک بار پھر امریکی معاشرے کو اکٹھا کر دیا ہے جو افراط زر کی بڑھتی شرح کے باعث مشکلات کا شکار تھا۔ ان انتخابات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ امریکی عوام کیلئے انتخابات میں وہ موضوع زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، جو ان کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرتے ہیں، خارجہ تعلقات بہت بعد کی بات ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے صدارت سنبھالنے کے بعد سب سے بڑا چیلنج امریکی اکانومی کی بحالی، غیر قانونی تارکین وطن کی بے دخلی اور یوکرین روس جنگ کو ختم کرنا ہوگا۔ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش ہو گی کہ اس مرتبہ مڈل ایسٹ میں امریکہ کیلئے پرانے دوستوں کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے استوار کیا جائے۔ سعودی عرب کا اس سلسلے میں کردار واضح کرے گا کہ آنے والے دنوں میں مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورت حال کیا رخ اختیار کرے گی۔ کیا ایران اسرائیل کشیدگی میں مزید تیزی آئے گی یا امریکی مداخلت کے ساتھ کوئی بڑی پیش رفت ممکن ہو پائے گی؟ کیونکہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے وعدوں پر قائم رہتے ہیں اور کسی نئی جنگ کو شروع نہیں کرتے تو مشرق وسطیٰ کی کشیدگی کے تناظر میں ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات منفی صورت حال بھی اختیار کر سکتے ہیں جس کا فائدہ اسرائیل کو ہوگا۔ ویسے بھی اسرائیل کی خواہش ہے کہ عرب دنیا میں سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے تاکہ ایران پر دباؤ کو مزید بڑھایا جا سکے۔
یہاں ایک بات حیران کن ہے کہ ایران کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے واضح اشاروں کے باوجود امریکی انتخابات کے موقع پر اسرائیل پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا، جس کی توقع امریکی میڈیا کر رہا تھا۔ یہ ایران کی جانب سے مصالحت کی ایک خاموش کوشش ہے۔ دوسری طرف چائنہ سے تجارتی جنگ میں تیزی لانا اس مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کا اہم پہلو ہوگا۔ نئی امریکی انتظامیہ کی کوشش ہوگی کہ امریکہ میں چائنہ کی مصنوعات پر مزید ٹیرف عائد کیے جائیں تاکہ امریکی مصنوعات چین کی مارکیٹ کا مقابلہ کر سکیں۔ اس سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے دوست ایلون مسک بھی اہم اتحادی ثابت ہوں گے۔ یاد رہے ٹیسلا اور ایکس کے مالک ایلون مسک نے اس مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کیلئے 13 کروڑ ڈالر کا چندہ دیا تھا اور ظاہر ہے یہ مستقبل کی سرمایہ کاری کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر چین کے ساتھ امریکہ کی تجاری جنگ میں شدت آتی ہے تو اس صورت حال میں پاکستان کو اپنی مصنوعات کیلئے امریکہ میں نئی منڈیاں تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔
ٹرمپ کی دوبارہ جیت اپنے اندر پاکستان کیلئے بھی کئی معنی رکھتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے جہاں تک ہو سکا ڈونلڈ ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس تک آنے کا ہر راستہ روکنے کی کوشش کی مگر آخرکار امریکی عوام کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔ اب 21 ویں صدی میں پاپولزم کی لہر کے سامنے دیوار کھڑی کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر دو قاتلانہ حملے ہوئے، جنسی تعلقات کو لے کر مہم چلائی گئی، اور پھر امریکی میڈیا جس میں CBS,CNN نیویارک ٹائمز جیسے بڑے ادارے شامل ہیں، انہوں نے امریکی عوام کو بے وقوف بنانے کی ہر ممکن کوشش کی، جھوٹے Public Polls کروائے گئے، جس میں یہ دکھایا گیا کہ کاملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین کانٹے کا مقابلہ ہے لیکن امریکی صدارتی نتائج نے ان کے تمام پولز کے پرخچے اُڑا دیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی 300 سے زائد الیکٹورل ووٹوں سے کامیابی ان امریکی میڈیا ہاؤسز کے (جو سرمایہ داروں کے آلہ کار ہیں) کے منہ پر طمانچہ ہے۔
اس ساری صورت حال میں پاکستانی میڈیا کیلئے بھی ایک سبق ہے کہ وہ حقائق کو عوام تک پہنچائے، بجائے اس کے کہ کسی طاقتور ادارے کے دباؤ کے تحت عوام کو گمراہ کرنے پر لگ جائے۔ عمران خان کی رہائی امریکی دباؤ کے تحت ہوتی ہے یا نہیں، یہ آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا، مگر اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ آنے والی نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو تشکیل دینے کیلئے مثبت اقدامات کرے۔ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی پاکستان کیلئے ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہے، اسے غلط فیصلوں سے ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے والے 4 سال ناصرف امریکہ، امریکی عوام بلکہ دنیا بھر کیلئے اہمیت رکھتے ہیں۔ کیا دنیا کسی نئی جنگ کی طرف بڑھے گی جس میں غیر روایتی فوجی اتحاد بنیں گے اور مشرق وسطیٰ ایک نئی جنگ کا تھئیٹر ہوگا یا پھر ایک ایسے نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل ممکن ہو پائے گی جہاں دنیا میں غربت کے خاتمے، موسمیاتی تبدیلیاں، نیوکلیئر ہتھیاروں کی روک تھام، سرمائے کی مساوی منتقلی اور انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے گا؟ ڈونلڈ ٹرمپ یقیناً اب کی بار فیصلہ سازی میں زیادہ متحرک ہوں گے۔ نئی ٹرمپ انتظامیہ میں ممکن ہے Susie Wiles چیف آف اسٹاف ہوں (جو ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کی انچارج رہی ہیں)، اور یہ انتظامیہ پروجیکٹ 2025 کو عملی شکل دینے میں زیادہ قوت کے ساتھ کام کرتی نظر آئے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے اس بار امریکی عوام کو پہلے سے زیادہ توقعات ہیں۔ یہ وقت ثابت کرے گا کہ ڈونلد ٹرمپ اپنے America First کے ایجنڈے کو کتنی جلدی حقیقت کی شکل دے پاتے ہیں!