مکمل غلبے کی خواہش
صورتحال
سیدہ عنبرین
بات اتنی پرانی نہیں کہ ذہنوں سے محو چکی ہو، یوں لگتا ہے جیسے ابھی کچھ ہی عرصہ قبل جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم وقت کو چلتا کر کے اقتدار سنبھالا ہو، جھگڑا دو شخصیات کا تھا باقی سب کہانیاں تھیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کیلئے کہیں یا امریکہ کی جنگ لڑنے کی تیاری میں واک اوور حاصل کرنے کیلئے، ایک منصوبے کے تحت 10برس کیلئے اپنا راستہ صاف کیا۔ جناب نواز شریف سے تحریری معاہدہ کیا کہ وہ 10برس تک پاکستان نہیں آئیں گے اور پاکستان کی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے، انہوں نے اور ان کے برادر خورد نے معاہدے پر دستخط کئے اور عازم جدہ ہو گئے، بصورت دیگر انہیں ایک طویل قید کاٹنی پڑتی۔ 5برس بعد انہوں نے وطن واپسی کی ایک کوشش کی لیکن جنرل پرویز مشرف نے گارنٹی دینے والوں سے رابطہ کیا، وہ آئے اور جناب نواز شریف کو اپنے خصوصی طیارے میں اسی طرح واپس لے گئے جس طرح وہ انہیں پرویز مشرف قید سے رہا کر کے لے گئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف سے آپ سو اختلاف کر لیں لیکن انہوں نے جو کرنا تھا اس کیلئے دو ٹوک موقف اختیار کیا، ایک کام کرنے کیلئے دس بہانے نہیں تراشے، بادی النظر میں لگتا ہے اب بھی پی ٹی آئی کے سربراہ اور بانی کو 10برس کیلئے سیاسی منظر سے دور رکھنے کا فیصلہ ہے لیکن ان کے مخالفین میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اپنے زور بازو پر ایسا کرتے لہٰذا دو نہیں چار بازو استعمال کئے، مگر پھر بھی بات نہ بنی، پہلے ’’ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات‘‘، پھر صوبہ خیبر میں سینیٹ انتخابات سے گریز، پھر فارورڈ بلاک کی کوششیں، اس کے بعد آئینی ترمیم، جسے ان کے مخالفین اور اس کی زد میں آنے والے آہنی ترمیم کہتے ہیں، سب کچھ کر کے دیکھ لیا، بات بنتی نظر نہیں آتی، سائیڈ پروگرام کے طور پر پکڑ دھکڑ، اغوا اور چادر و چار دیواری کی عزت افزائی جاری رکھی گئی، لیکن ابھی تک مکمل غلبہ حاصل نہیں ہو سکا۔
تاریخ کی ان گنت حقیقتوں میں سے ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ نوک سناں پر اقتدار حاصل کرنے والوں کی رات کی نیندیں رخصت ہو جاتی ہیں، باہر پتہ بھی کھڑکے تو دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، ہر وقت خدشہ رہتا ہے جانے کب کون سامنے اٹھ کھڑا ہو جائے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں 17ججوں کے باوجود پریشانی دامن گیر تھی کہ اگر سب نے قانون، آئین اور عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا تو پھر کیا ہو گا، اسی خیال کے تحت کسی عقل کل نے مشورہ دیا ہے کہ اس کا آسان ترین حل موجود ہے مزید 17جج صاحبان لے آئیں، یوں پہلے سے موجود 17کی طاقت صفر ہو جائے گی، نئے آنے والے لانے والوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے، پس یہ فیصلہ صادر ہو گیا، اب خطرہ تھا کہ وکلا تحریک کا، ایپی سوڈ نمبر دو نہ چل جائے ۔ اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ میدان میں نئی نوکریوں کا جال پھینک دیا جائے، جس بار کے جس لیڈر کی جانب سے فعال کردار نظر آیا اسے یہ نوکری پیش کر دی جائے گی۔ یہ سب کچھ عوام کو ریلیف دینے کے نام پر ہو رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ میں قریباً 60ہزار مقدمات کا انبار ہے جبکہ مختلف ہائیکورٹس میں لاکھوں مقدمات اپنی قسمت کا فیصلہ ہونے کے منتظر ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ تمام ہائیکورٹس میں جج صاحبان کا مناسب تعداد اور انداز میں تقرر کیا جاتا تاکہ وہاں سے آنے والے مقدمات کے ریلے کچھ کم ہوتے، مسائل کا سب سے بہتر حل یہ تھا کہ قانون میں ترمیم کی جاتی اور جھوٹے مقدمات بنانے والوں کیلئے سزائیں سخت کی جاتیں اور جرمانے بڑھائے جاتے تاکہ جھوٹے مقدمات درج کرانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی، یہ ترمیم بھی ضروری تھی کہ جب ثابت ہو جائے کہ مقدمہ جھوٹ کی بنیاد پر صرف اس لئے درج کرایا گیا کہ مخالفین کو پریشان کیا جا سکے تو ایسے مقدمے کے فیصلے کے فوراً بعد جھوٹے دعویدار کو فوراً گرفتار کر لیا جائے اور سٹیٹ یا اعلیٰ عدالت خود اس کی مدعی بنے، ایک فریق اپنا حق حاصل کرنے کیلئے کئی دہائیوں تک مقدمہ لڑنے کے بعد ہلکان ہو چکا ہے، اس میں اتنی ہمت و طاقت نہیں رہتی کہ وہ ایک نئے مقدمے میں زندگی کا باقی حصہ گزار دے یا پھر اس کی دوسری نسل اس مقدمے کو بھگتے۔
آئین پاکستان میں ہونے والی 26ترامیم میں کوئی ایک ترمیم ایسی نہیں ہے جس سے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچا ہو، تمام ترامیم نظریہ ضرورت کے تحت اقتدار کو مضبوط کرنے اور اپوزیشن کو جکڑنے کیلئے کی گئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے آئین تو بنا دیا، تمام اپوزیشن رہنمائوں سے دستخط کرانے کے بعد متفقہ آئین بھی پیش کر دیا، لیکن اس کے فوراً بعد اس آئین کا حلیہ بگاڑنے کا کام شروع کر دیا، ان کی راہ میں اگر کوئی دیرینہ دوست حتیٰ کہ پارٹی بنانے والے دوستوں میں سے بھی کسی نے مخالف کی تو انہوں نے سارجنٹ ایٹ آرمز کو بلوایا اور جے اے رحیم جیسے بزرگ اور دیرینہ دوست کو پارلیمنٹ سے اٹھا کر باہر پھنکوا دیا۔ بھٹو کے نواسے نے نانا ابو کی تاریخ دہرانے کی کوششیں کی ہے، انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر ترمیم منظور نہ ہوتی نظر آئی تو وہ ظالم اکثریت سے اسے منظور کرا لیں گے۔ ظالم اکثریت سے ترامیم ہو جائے گی ، اقتدار بھی کچھ طوالت اختیار کر جائے گا، لیکن پھر بھی کتنا۔؟
میدان سیاست میں جس نے جو بویا اسے کاٹنا بھی پڑا، ہم نے دیکھا جنہوں نے ظلم کی انتہا کر دی وہ زمین پر دندناتے پھرتے تھے، انہوں نے بھی آئندہ 20برس تک حکومت کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، وہ اقتدار سے ہٹے تو دار تک پہنچے۔ دنیا کے درجن بھر ممالک کے سربراہ انہیں نہ بچا سکے اسی طرح وہ جو فضائوں میں پرواز کرتے نظر آتے تھے وہ تمام تر حفاظتی انتظامات کے، ایک سہ پہر فضا میں یوں بکھر گئے جیسے آسمان سے ٹوٹا ہوا تارہ گرتا ہے، لیکن زمین پر صرف اس کی راکھ پہنچتی ہے وہ خود نہیں، مکمل غلبے کی خواہش کا انجام کبھی اچھا نہیں دیکھا۔