’’ پاکستان کا اللہ حافظ ہے ‘‘
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
ہمارے ہاں اداروں کا کیا حال ہے، کسی بھی ذی ہوش شخص سے مخفی نہیں۔ اکثر ادارے خسارے میں ہیں اور بجائے چلنے کے، رینگ رہے ہیں۔ ملکی معیشت پر بھاری بوجھ کی طرح ہیں۔ ہر سال ان کا خسارہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کا حل ہمیں یہ سوجھا کہ ہم ان کو فروخت کر دیں۔
اربوں روپے کے خسارے کا شکار ان اداروں میں پاکستان ریلوے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ( پی آئی اے)، پاکستان سٹیل مل اور بجلی بنانے والی کمپنیاں سرِ فہرست ہیں، جنہیں فعال رکھنے کے لیے حکومت پاکستان کو ہر سال اربوں روپے قومی خزانے سے ادا کرنا پڑتے ہیں۔
ذیل میں چند اداروں کا ذکر کیا جاتا ہے جو سفید ہاتھی بن کر قومی خزانے پر کے ٹو پہاڑ جیسا بوجھ ہیں۔
پہلا سفید ہاتھی: پی آئی اے کی سالانہ رپورٹ 2022کے مطابق اُس برس ایئر لائن کا خسارہ 88ارب روپے تھا۔ پی آئی اے کی جانب سے سال 2023ء کے صرف پہلے چھ مہینوں کے مالیاتی نتائج کا اب تک اعلان کیا گیا اور اس کے مطابق ایئر لائن کا ابتدائی چھ مہینوں کا خسارہ 60ارب رہا تھا۔ ہماری تجربہ کار حکومت اسے بیچنا چاہتی ہے ۔ پھر یہ ہوا کہ دس ارب روپے کی بولی لگی۔ اس پر بی بی سی اردو نے سرخی جمائی’’ کیا باکمال لوگوں کی ایئر لائن کی نجکاری میں حکومت بری طرح پھنس گئی ہے ‘‘۔
’’ باکمال لوگ۔۔۔ لاجواب پرواز ‘‘ پاکستان کے معروف شاعر فیض احمد فیض نے یہ جملہ پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے لیے لکھا تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا بھر سے نہ صرف مسافر اس فضائی سروس کے ذریعے سفر کرنے کو فخر سمجھتے تھے بلکہ بہت سی خلیجی ریاستوں کی فضائی کمپنیوں کے عملے کی تربیت سازی بھی اس قومی ادارے کے سپرد تھی ۔ مگر پھر وقت کی اڑان تیز اور پی آئی اے کی سروس سست اور معیار گرتا چلا گیا۔ اگرچہ اس کی بہت سی سیاسی و معاشی وجوہات رہیں مگر ان پر بات کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ جملہ تبدیل ہوا اور ’’ باکمال لوگ۔۔۔ لاجواب سروس‘‘ قومی ایئر لائن کی گرتی سروس پر طنز بن کر رہ گیا اور اس طنز نے بہت سے مواقع پر حقیقت کی شکل بھی اختیار کی ۔
ایسا ہی کچھ رواں ہفتے جمعرات کو بھی ہوا جب زبوں حالی اور اربوں روپے خسارے کے نیچے دبی ہوئے اس قومی ادارے کی نجکاری کے لیے بولی لگائی گئی ۔آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت پاکستان کو اپنے خسارے میں چلنے والے چند قومی اداروں کی نجکاری کرنا ہے اور اسی سلسلے میں قومی ایئر لائن کی نجکاری کے سلسلے میں جمعرات کو اسلام آباد میں بولی لگائی گئی ۔ پاکستان کے نجکاری کمیشن کی جانب سے بولی سے قبل اس کی کم از کم قیمت 85ارب روپے رکھی گئی تھی تاہم پاکستان کی قومی ایئر لائنز پی آئی اے کی نجکاری کے سلسلے میں ایک نجی کمپنی کی طرف سے اسے محض10ارب روپے میں خریدنے کی پیشکش کی گئی ہے ۔
دوسرا سفید ہاتھی: آڈٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلویز کو مالی سال 2022۔23میں 48195.28ملین روپے کے خسارے کا سامنا ہوا، ریلوے انتظامیہ کئی برسوں سے ریلوے کے نقصانات کو صفر کرنے میں ناکام رہی، گزشتہ برسوں سے خسارہ 2.04فی صد زیادہ تھا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت میں ریلوے اب بھی منافع بخش ادارہ ہے اور ہمارے ہاں یہ سفید ہاتھی ہے ۔
تیسرا سفید ہاتھی: پاکستان اسٹیل ملز یا پاکستان اسٹیل ملک کو بھاری دھاتی مصنوعات بنا کر دیا کرتی تھی اور اس منافع بخش ادارے نی نہ صرف ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کیا بلکہ دفاع میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا لیکن اب اس کا خسارہ 600ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
چوتھا سفید ہاتھی: واپڈا کا سرکلر ڈیٹ دوبارہ 98ارب تک پہنچ گیا ۔ صرف سرکاری اور بڑے پرائیویٹ اداروں نے 78ارب کے بل ادا نہیں کیے ۔ جبکہ رواں ماہ کے آخر سے یہ خسارہ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ پانی کی کمی کے باعث ستمبر کے آخر میں ہائیڈرل پیداوار کم ہوجائے گی اور زیادہ انحصار تھرمل پاور پر کرنا ہو گا ۔ جس سے خسارہ تیزی سے بڑھنے کا امکان ہے ۔
اب اسلام آباد ایئر پورٹ کا حال بھی سن لیجئے ۔ کل ہم اسے بنا کے خوش تھے اور آج اسے نیلام کر کے خوش ہو رہے ہیں ۔ ایئرپورٹ کی آئوٹ سورسنگ کے ٹینڈر کے لیے اہم پیش رفت ہوئی ہے جس میں ترکیہ کی کمپنی کی دستاویز اور بولی کو تکنیکی طور پر منظور کر لیا گیا ہے ۔ جبکہ آئوٹ سورسنگ کے لیے بڈ بھی پاکستان ایئر پورٹس اتھارٹی ہیڈ کوارٹرز کراچی میں جمع کرا دی گئی ہے۔
ادارے کیوں کمزور ہوتے ہیں ، اس لیے کہ افراد مضبوط ہو جاتی ہیں۔ جو چاہتے ہیں ملک ترقی کرے ، ان کے نیک ارادے کامیاب نہیں ہوتے اور ادارے کمزور سے کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اس ضمن میں دو واقعات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کے پی کے ایک سیاستدان وزیر ریلوے ہوا کرتے تھے۔ ان کا محکمہ مسلسل خسارے سمیٹ رہا تھا۔ ایک دن ایک صحافی نے ان سے سوال کہ اگر ریلوے اسی طرح خسارے میں رہا تو یہ محکمہ بند ہو جائے گا۔ وزیر ریلوے نے بڑی ڈھٹائی سے فرمایا ’’ اگر یہ محکمہ بند بھی ہو گیا تب بھی میں وزیر ریلوے رہوں گا ‘‘۔
یادش بخیر مشرف صاحب سے ایک اخبار نویس نے سوال کیا کہ آپ کیسے کہتے ہیں کہ آپ ملک و قوم کے لیے ضروری ہیں تو وہ برجستگی سے کہہ گئے ’’ بس میں نے کہہ جو دیا میں وہ ضروری ہوں‘‘ اور پھر جاتے جاتے کہہ گئے
’’ پاکستان کا اللہ حافظ ہے ‘‘