بندے کچے مگر کام پکے
تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ
پاکستانی پارلیمنٹ نے بلٹ ٹرین سے زیادہ تیز رفتاری دکھاتے ہوئے سپریم کورٹ، اسلام ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد میں اضافہ اور ساتھ ہی ساتھ مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت میں اضافہ کرنے کے لئے قانون سازی کی ہے۔ اس قانون سازی کی بدولت سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بشمول چیف جسٹس 17سے بڑھ کر 34کردی گئی اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد 9سے بڑھا کر 12کردی گئی ہے۔ گزشتہ ماہ پارلیمنٹ نے مشہور زمانہ 26ویں آئینی ترمیم کی بدولت اعلیٰ عدلیہ کے ججز چیف جسٹس اور ججز کے چنائو، آئینی بینچوں کی تشکیل اور دائرہ اختیار میں نمایاں تبدیلیاں کی تھی۔ اور راقم نے 26آئینی ترمیم کے حوالہ سے ’’ جمہور کی فتح‘‘ کے ٹائٹل سے اپنی معروضات پیش کی تھیں۔ بہرحال حالیہ قانون سازی پر ہر جمہوریت پسند شخص حیران و پریشان ہے۔ حکومت وقت اور اتحادی جماعتوں کو آخر ایسی کیا پریشانیاں لاحق تھیں جو یکدم قانون سازی کی ضرورت پیش آگئی۔ پاکستانی عدلیہ اور پارلیمنٹ کی ہمیشہ سے بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں آمروں کی ناجائز حکومتوں اور مارشل لائوں کو جواز بخشنے کے لئے عدالتی فیصلے میسر رہے تو کبھی پارلیمنٹ سے قانون سازی کی سہولت بھی میسر رہی۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے کچے بندے طاقتور لوگوں کے لئے قانون سازی کی صورت میں کام بہت پکے کر جاتے ہیں۔ بالاشک شبہ یہ پارلیمنٹ کا استحقاق ہے کہ وہ وفاقی محکموں کے لئے قانون سازی کرے۔ مگر کیا ہر بار پارلیمنٹ کو فرد واحد اور خصوصا اعلیٰ ترین سرکاری عہدیداروں کی مدت ملازمتوں میں توسیع اور نوکری پکی کرنے کے لئے استعمال کرنا ضروری ہے؟۔
بدقسمتی سے سروسز چیف، عدلیہ کے چیفس کی مدت ملازمت بڑھانے اور طے کرنے والے وزرائے اعظم کے عہدہ کی مدت آج تک متعین نہ ہو پائی۔ قانون سازی کرنے والوں کی نوکریاں اتنی کچی ہوتی ہیں کہ انکے وزیر اعظم کو کسی بھی وقت کان سے پکڑ کر نکال دیا جاتا ہے اور وزارت عظمی کا اگلا امیدوار ہنسی خوشی مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے لئے شیر وانی پہن کر حلف برداری کی تقریب میں پہنچ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیاقت علی خان سے لیکر میاں محمد شہباز شریف تک بشمول نگران پاکستانی وزرائے اعظم کی تعداد 33ہوچکی ہے مگر اسی عرصہ میں آرمی کے سربراہوں کی تعداد صرف 17، نیوی سربراہان کی تعداد 23اور فضائیہ کے سربراہان کی تعداد صرف 24اور اسی طرح پاکستان کے چیف جسٹس صاحبان کی تعداد 30تک محدود ہے۔
ماضی قریب ہی کی بات ہے جب عمران احمد خان نیازی نے تاحیات مسند اقتدار براجمان رہنے کے لئے قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کے لئے قانون سازی کی اور اب موصوف جیل میں دیسی مرغ کھا رہے ہیں۔ یاد رہے زمانہ اپوزیشن میں موصوف برطانیہ کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ دوسری جنگ عظیم میں بھی آرمی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی گئی تھی مگر جب اقتدار کی ہما سر پر بیٹھی تو موصوف نے کُرسی کو مضبوط تر کرنے کے لئے تمام تر اُصولی نظریات کو پس پشت ڈال کر سپہ سالار کی مدت میں نہ صرف توسیع دلوائی بلکہ توجیہات بھی پیش کیں۔ یہیں نہیں بلکہ جب موصوف کو اقتدار سے نکال باہر کیا گیا تو صدر عارف علوی کی مدد سے ایوان صدر میں رات کی تاریکی میں ہونے والی ملاقاتوں میں موصوف نے قمر باجوہ کے کہنے پر صوبہ پنجاب، صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو بھی تحلیل کیا۔ بات یہی پر نہیں رکتی موصوف قمر باجوہ کو مدت ملازمت میں مزید توسیع دینے کے لئے آفریں کرتے رہے۔ یاد رہے قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے پارلیمنٹ میں موجود تقریبا تمام سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بانہوں میں بانہیں ڈال کر آرمی ایکٹ میں ترمیم منظور کروائی تھی۔ اب بات کرتے ہیں موجودہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی تو انکے بارے میں پہلے ہی مشہور ہے کہ وہ طاقتور حلقوں کے پسندیدہ سیاستدان ہیں مگر پسندیدگی کا معیار اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتا ہے کہ جیل میں دال روٹی کھانے کی باری اک بار پھر میاں شہباز شریف کے نصیب نہیں ہوگی۔ سکندر مرزا سے ایوب خان، ایوب خان سے یحییٰ خان، اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو سے ضیاء الحق اور نواز شریف سے پرویز مشرف اور عمران خان سے قمر جاوید باجوہ، ماضی میں ہر حاکم نے اپنے اقتدار کی مضبوطی کے لئے طاقتور شخص کی خوشنودی حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی مگر انجام ہم سب کے سامنے ہے۔
بحیثیت سیاست و قانون کے طالب علم میں سابق سینٹ چیئرمین میاں رضا ربانی کی پریس ریلیز کی من و عن حمایت کروں گا جس میں انہوں نے 4نومبر کو پارلیمنٹ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا ہے کیونکہ حکومت وقت نے قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ کے قواعد کو معطل کر دیا تھا۔ قواعد کے مطابق قوانین کو متعلقہ سٹیڈنگ کمیٹیوں میں بھیجنا چاہیے تھا، جبکہ ایسا نہیں ہوا اور نہ پارلیمنٹ میں ان قوانین پر بحث ہوئی۔ یقینی طور پر اس قانون سازی کا عدلیہ اور افواج پر اہم اثر پڑے گا، جس کے نتیجے میں سیاست اور جمہوری عمل بھی اثر انداز ہونگے۔ میاں رضا ربانی کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ ایسی کارروائیاں پارلیمنٹ یا آئین کی خود مختاری کا اظہار نہیں بلکہ خوف کا اظہار ہیں۔ اس طرز کی قانون سازی سے پارلیمنٹ خوفزدہ یا جمہوری نظام کمزور ہوجاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر جب آپ کسی فرد واحد کی مدت ملازمت میں توسیع کے انتظامات کر رہے ہوتے تو درحقیقت آپ ادارے یا محکمے کے نظام اور جونیئر افراد کی قابلیت پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔