Column

جگائے گا کون؟

اب رلانے والا روئے گا
تحریر: سی ایم رضوان
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نومبر 2027ء تک اس عہدے پر موجود رہیں گے جس سے نظام کو تسلسل ملے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں فوجی آمروں سمیت کئی آرمی چیفس نے خود اپنے آپ کو ایکسٹنشن دی۔ تاہم اب ہم نے مسلح افواج کے تینوں بازوئوں کے لئے قانون بنا دیا ہے۔ ہم نے اس میں کوئی تفریق نہیں کی ہے۔ خیال رہے کہ پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ نے مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی منظوری دی ہے۔ یاد رہے کہ بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان کی مدت ملازمت بڑھانے کے لئے متعلقہ اداروں کے قوانین میں ترامیم کو پہلے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی نے منظور کیا اور پھر فوراً سینیٹ کے اجلاس میں بھی انہیں منظور کر لیا گیا۔ اس دوران دونوں ایوانوں میں اپوزیشن ارکان نے نعرے بازی کی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے مسلسل احتجاج اور نو نو کے نعرے لگائے گئے جبکہ سینیٹ کے اجلاس میں خواجہ آصف کی تقریر کے دوران شرم کرو، حیا کرو کے نعرے لگے۔ اس بل میں ترمیم کی بعد پاکستان کی بری فوج میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہو گا۔ یعنی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت میں آرمی چیف بطور جنرل کام کرتا رہے گا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل آرمی ایکٹ کے تحت آرمی چیف سمیت تمام سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سال مقرر تھی اور ایگزیکٹو کے اختیارات کے تحت آرمی چیف کو تین سال کی ایکسٹینشن دی جاتی رہی تھی۔ آخری بار مدت ملازمت میں توسیع سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو دی گئی تھی اور ان کی ایکسٹیشن کی منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی گئی تھی جس کے بعد ایگزیکٹو نے ان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی تھی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا کہ پاکستان میں ایکسٹنشن کا سلسلہ ایوب خان کے دور میں شروع ہوا۔ اس کے بعد آٹھ، نو آرمی چیفس کو ایکسٹنشن دی گئی۔ ایوب خان، ضیا الحق، مشرف نے خود اپنے آپ کو ایکسٹنشن دی۔ یہ ساری ایکسٹنشنز افراد کے لئے تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ آصف نے کہا کہ اب ہم نے اس حوالے سے قانون واضح کر دیا ہے۔ اس سوال پر کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی، خواجہ آصف نے کہا کہ موجودہ حالات میں تسلسل کی ضرورت ہے اور یہ ضروری ہے کہ جو بھی مسلح افواج کا سربراہ ہو وہ اسمبلی اور دیگر اداروں کی پانچ سالہ مدت کی طرح مناسب وقت کے لئے بہتر دفاعی منصوبہ بندی کر سکے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ سروس چیفس کی مدت میں طوالت سے نظام کو استحکام ملے گا اور یہ توقعات کے مطابق چل سکے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار اب بھی ہمارے یعنی حکومت کے پاس ہی ہے۔ ہم نے گنجائش نکالی ہے کہ کوئی کامن گرانڈ نکالا جائے۔ ہم نے نظام کو قانونی اور آئینی شکل میں ڈھالا ہے تاکہ قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ اسی طرح وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے سروس چیفس کی مدت ملازمت کے تعین کو اچھا اقدام قرار دیتے ہوئے اس کا دفاع کیا ہے۔ ان کے بقول یہ ایکسٹنشن نہیں بلکہ مدت ملازمت کا تعین ہے اور یہ اچانک نہیں ہوا، اس پر قانونی مشاورت پہلے سے جاری تھی۔ وزیر اعظم اور اتحادی جماعتوں سے مشورہ کیا گیا۔ اس کے بعد ترمیم لائی گئی۔ اس پر تنقید بے جا ہے کیونکہ یہ قانون سازی کسی فرد کے لئے نہیں بلکہ عہدے اور ادارے کے لئے کی گئی ہے۔ اس سے قبل مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے حکومتی اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ویسے بھی آرمی چیفس کی مدت چھ سال عام ہے۔ آپ سمجھیں کہ ایک سال کی کمی ہوئی ہے۔ دوسری طرف قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا ہے کہ سروس چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع ملک اور مسلح افواج کے لئے اچھی چیز نہیں اور اس سے کئی افسران کی حق تلفی ہوگی۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ یہی قانون سازی کل وزیر اعظم شہباز شریف کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ جس طریقے سے قانون سازی کی گئی وہ غلط ہے۔ القصہ جہاں ایک طرف حکومتی وزرا کھل کر اس نئی قانون سازی کا دفاع کر رہے ہیں تو وہیں سوشل میڈیا پر ملا جلا رد عمل بھی دیکھنے میں آیا ہے جبکہ اصل معاملہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں واپس آنے کا مزید واضح ہو گیا ہے کہ اب پی ٹی آئی کا اقتدار میں آنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا لیکن محض کارروائی ڈالنے کے لئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے آخری حد تک جائیں جبکہ درحقیقت وہ منافقت کی آخری حد تک پہنچ کر بانی کی گرفتاری اور اذیت کے بدلے کے پی کی حکومت کے مزے لے رہے ہیں اور محض دکھاوے کے لئے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی اپنے حقوق کے لئے جدوجہد نہ صرف پرامن بلکہ قانون اور آئین کے دائرے میں بھی ہے۔ پی ٹی آئی 8فروری کے انتخابات اور 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات چاہتی ہے۔ گنڈا پور نے کہا کہ ان کو یقین ہے کہ جلد بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان بھی جیل سے باہر آ جائیں گے۔ تاہم، انہوں نے بشریٰ بی بی کی رہائی میں اپنے کردار کی تصدیق یا تردید نہیں کی اور کہا کہ بشریٰ بی بی کو عدالت کے حکم پر رہا کیا گیا۔ بشریٰ بی بی کو ایک ماضی کی عدالت نے جعلی مقدمات میں جیل بھیجا تھا، اسی لئے تو وہ اب جیل سے باہر ہیں، عدالت نے ان کی ضمانت منظور کی ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی بھی جلد جیل سے باہر آ جائیں گے کیونکہ ان کے اوپر بھی کوئی کیس باقی نہیں ہے، تمام کیسز جعلی ہیں۔ کسی کی بھی رہائی کے لئے ہم ڈیل پر یقین نہیں رکھتے اور کوئی ڈیل نہیں کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہم کسی بھی ادارے کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی کسی فرد کے خلاف ہیں، ہم صرف ان کی پالیسیوں کے خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ اِن پالیسیوں کو درست کیا جائے۔ وارننگ دیتا ہوں کہ پی ٹی آئی کے خلاف ڈراما بازی اور الزامات بند کیے جائیں، واضح رہے کہ گزشتہ روز علی امین گنڈا پور نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں دھمکی دی تھی کہ اگر اب بانی پی ٹی آئی کو کوئی تکلیف دی گئی تو پھر وہ اور ان کی جماعت پرامن نہیں رہیں گے حالانکہ بانی کو جیل میں رکھنے سے زیادہ کون سی تکلیف دی جا سکتی ہے۔ پھر بھی اپنے کارکنوں کو دھوکہ دیتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ میں آپ کو وارننگ دے رہا ہوں کہ عمران خان کی ملاقاتوں، ان کے کھانے، ورزش یا بجلی بند کرنے سے متعلق کوئی شکایت آئی تو پورے پاکستان کو بند کر کے اس حکومت سے عوام کی جان چھڑا دیں گے۔ دوسری جانب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع جیسے پارلیمانی اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے فواد چودھری کا کہنا ہے کہ اس سے تو بہتر تھا کہ ملک میں خلافت یا بادشاہت کا نظام قائم کر دیتے، ایک اور انصافی رہنما کا کہنا ہے کہ اتنی جلدی تو میکڈونلڈ کا برگر نہیں ملتا جتنی جلدی بل پاس ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان بیانات کے سوا ان قائدین کے پاس کوئی روڈ میپ یا انقلابی پروگرام نہیں ہے۔
یاد رہے کہ بشریٰ بی بی کی رہائی سے پہلے جیل میں ہونے والی عدالتی کارروائیوں کے دوران بانی پی ٹی آئی صحافیوں کے ذریعے باہر بہت سخت پیغام بھیج رہے تھے۔ تاہم گزشتہ ہفتے جب میڈیا سے گفتگو پر عائد پابندی ختم ہوئی تو وہ دو مرتبہ صحافیوں سے ملے ہیں لیکن ان کا لب و لہجہ پہلے سے بہت مختلف بتایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف خود تحریک انصاف کے رہنماں نے بھی بیانات کی مہم شروع کر رکھی ہے کہ بانی پی ٹی جلد رہا ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈیل تو ہوئی ہے لیکن کیا اس ڈیل میں بانی پی ٹی آئی باہر آ رہے ہیں؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں یہ درست نہیں ہے۔ یہ اسی طرح کی ڈیل ہے جو علی امین گنڈا پور کے ساتھ موجود ہے۔ اسی کی ایکسٹینشن اب بشری بی بی اور بہنیں ہیں۔ ایک بفر بنا دیا گیا ہے کہ اب ان کا کام یہی ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی کو اشتعال انگیزی سے پرہیز کروائیں۔ مزی کی بات یہ ہے کہ آب اس کے اثرات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کا لہجہ بدلنا شروع ہو گیا ہے۔ اور یہ بات سب نوٹ کر رہے ہیں۔ یعنی ڈیل صرف اس حد تک ہے کہ خیبر پختونخوا میں حکومت چلتی رہے۔ گورنر راج نہ لگے۔ بشریٰ بی بی اپنے گھر پر رہیں اور بانی پی ٹی آئی پارٹی کو جارحانہ احکامات نہ دیں کیونکہ اس بات کا ثبوت بھی آ چکا ہے کہ پہلے سے دیئے گئے جارحانہ احکامات بھی پی ٹی آئی کی جانب سے عدم تعمیل کا شکار رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ابھی تک تو صرف بظاہر ہونے والی باتوں پر تبصرہ کر سکتے ہیں اور یہی کہا جا سکتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے بیانات میں قدرے اعتدال اور شدت و نخوت میں کمی آئی ہے پھر جو تاثر دیا گیا تھا کہ بشریٰ بی بی لاہور میں محفوظ نہیں ہوں گی وہ بھی غلط ثابت ہوا ہے اور وہ پورے اہتمام کے ساتھ وہاں پر موجود ہیں۔ ان کو سکیورٹی بھی دی جا رہی ہے۔ تو ان اشارات سی عیاں ہوتا ہے کہ دونوں اطراف سے ایک ایک قدم پیچھے کی جانب اٹھایا گیا ہے۔ یہ جو پی ٹی آئی رہنماں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ کپتان جلد رہا ہو رہے ہیں۔ یہ بھی ڈیل کے ضمن میں ملنے والی ڈھیل کا شاخسانہ ہے اور یہ رہنما اپنے ووٹروں اور سٹریٹ سنگرز کو گویا یہ کہہ رہے ہیں کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ اس وقت جزئیات کے بارے میں تو بات نہیں ہو سکتی ہے۔ لیکن یوں لگ رہا ہے کہ کشیدگی میں کمی آئی ہے۔ اگلے کچھ دنوں میں صورت حال مزید واضح ہوتی چلی جائے گی۔ اگر بانی پی ٹی آئی کو مزید ریلیف ملتا ہے اور ساتھ ساتھ ان کی حکمت عملی میں بھی نرمی آتی ہے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ یہ مشترکہ بندوبست ہے اور دونوں فریق اپنا اپنا فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ بشریٰ بی بی کے بعد اب بانی پی ٹی آئی بھی کسی آئندہ پیشی پر روتے پیٹتے نظر آئیں۔ وہ جو کہتے تھے کہ ان کو رلائوں گا اب خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ خود روئیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button