Column

جعلی ادویات، حکومتی رویّے، تڑپتے عوام

تحریر: رفیع صحرائی
قریباً سات ماہ قبل ایف آئی نے کوئٹہ میں کریک ڈائون کرتے ہوئے بڑی مقدار میں جعلی ادویات برآمد کی تھیں۔ یہ کامیاب کارروائی ایک خفیہ اطلاع پر عمل میں لائی گئی تھی جس کے دوران ایک بڑے سٹور پر چھاپے کے دوران ایک سو سے زائد اقسام کی جعلی ادویات پکڑی گئیں۔ ادویات کو ڈریپ حکام کے حوالے کر دیا گیا۔ بتایا گیا تھا کہ ایف آئی اے نے ڈریپ عملہ کے ساتھ مل کر 33چھاپہ مار کارروائیاں کیں جبکہ ان کارروائیوں کے نتیجے میں 26انکوائریوں کا اندراج کیا گیا۔ مقامی اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ اس خبر کو شائع کیا مگر سات ماہ گزرنے کے بعد بھی جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والے دھڑلے سے اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی موثر کارروائی تاحال عمل میں نہیں لائی جا سکی جس کی وجہ سے وہ کھل کھیلنے میں آزاد ہیں۔
دیکھا جائے تو جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت ملکِ عزیز کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ کوئی حکومت بھی اس مافیا پر سخت ہاتھ نہیں ڈال سکی۔ موت کے یہ سوداگر نہ صرف عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں بلکہ دونوں ہاتھوں سے ان کی خون پسینے کی کمائی بھی لوٹنے میں مصروف ہیں۔
کچھ عرصہ قبل معروف صحافی رانا عظیم کی ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ ملک میں جعلی ادویات تیار کرنے کی تین ہزار فیکٹریاں موجود ہیں جو ہزاروں اقسام کی جعلی ادویات تیار کرنے میں دن رات مصروف ہیں۔ ان فیکٹریوں کے مالکان میں 35فیصد موجودہ و سابق اراکین اسمبلی ہیں۔ جعلی ادویات کی تیاری میں سندھ پہلے، پنجاب دوسرے، کے پی تیسرے جبکہ بلوچستان چوتھے نمبر پر ہے۔ جعلی ادویات میں طاقت کے انجکشن اور اینٹی بائیوٹکس ادویات سب سے زیادہ تیار ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ لاہور میں لوہاری مارکیٹ، پشاور میں صدر بازار، کراچی میں ایم اے جناح روڈ جعلی ادویات کی بڑی ہول سیل مارکیٹیں ہیں جبکہ سکھر، حیدرآباد اور کوئٹہ میں بھی یہ ادویات بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں کے مالکان میں 21 فیصد پرائیویٹ ہسپتالوں کے مالکان جبکہ 15 فیصد ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ یہ بھی پتا چلا ہے کہ پرائیویٹ ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ بعض سرکاری ہسپتالوں میں بھی جعلی ادویات استعمال کی جاتی ہیں۔
جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں میں بھارت، چین اور ایران سے سستا اور غیرمعیاری خام میٹیریل درآمد کر کے ان ادویات کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جن سے مریضوں کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہو رہا ہے۔ مریض پرائیویٹ ہسپتالوں میں لاکھوں روپے علاج پر خرچ کرنے کے باوجود موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ ہوشربا انکشاف ہمارے حکمرانوں اور حکامِ بالا کہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ ہمارے دیہات میں 70فیصد ادویات جعلی استعمال کی جا رہی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ انہیں استعمال کرنے والے بھی نان کوالیفائڈ پریکٹشنر ہوتے ہیں جو چند روز کسی ڈسپنسر یا میڈیکل سٹور پر بطور اسسٹنٹ کام کرنے کے بعد خودساختہ ڈاکٹر بن کر پریکٹس شروع کر دیتے ہیں۔ ڈرگ انسپکٹرز ان ’’ ڈاکٹرز‘‘ سے اپنا ماہانہ بھتہ وصول کر کے انہیں مریضوں کی زندگیوں سے کھیلنے اور لوٹ مار کرنے کی کھلی چھٹی دے دیتے ہیں۔
ہماری ہر حکومت کو صورتِ حال کا مکمل طور پر علم ہوتا ہے مگر اس مافیا پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کبھی کوئی حکومت بھی نہیں کر سکی کیونکہ حکومت کے اپنے اندر موت کے یہ ہرکارے بیٹھے ہوتے ہیں جو اپنے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونے دیتے۔ اس کے برعکس ہر چند ماہ بعد یہ مافیا حکومت پر دبائو ڈال کر ادویات کی قیمتیں بڑھوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
معزز قارئین! درج بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ میں آ گئی ہے کہ ہمارے اراکین اسمبلی اور بڑے لوگ اپنے علاج کے لیے بیرون ملک کیوں جاتے ہیں۔ انہیں اپنے ملک میں علاج کروانا کیوں پسند نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ انہیں صورتِ حال کا پتا ہوتا ہے بلکہ ان میں سے یقیناً کئی حضرات تو خود جعلی ادویات کی فیکٹریوں کے مالک ہوتے ہوں گے۔
’’ ایک یونیورسٹی کے طلباء نے ہوائی جہاز بنایا اور اپنے اساتذہ سے جہاز کا وزٹ کرنے کی درخواست کی۔ تمام اساتذہ خصوصی طور پر جہاز میں پہنچ گئے۔ انہوں نے اپنے سٹوڈنٹس کی کاوش کو سراہا اور مبارک باد دی۔ جب اساتذہ کو بتایا گیا کہ اب جہاز کو اڑایا جائے گا تو وہ گھبرا گئے اور جہاز سے نیچے اتر گئے۔ انہیں اپنے شاگردوں کی صلاحیتوں پر شک تھا مگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر سکون کے ساتھ جہاز کے اندر بیٹھے رہے۔ کوشش کے باوجود جہاز کے انجن سٹارٹ نہ ہو پائے۔ سٹوڈنٹس اور وائس چانسلر جہاز سے باہر آ گئے۔ اساتذہ نے وائس چانسلر صاحب سے پوچھا کہ کیا انہیں ڈر نہیں لگا کہ جہاز کسی حادثے کاشکار ہو جائے گا؟‘‘
’’ بالکل بھی نہیں‘‘، وائس چانسلر نے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’ مجھے اپنے طلباء کی صلاحیتوں کا پتا تھا اور یقین تھا کہ یہ جہاز ٹیک آف ہی نہیں کر سکے گا‘‘۔
ہمارے حکمرانوں، اراکینِ پارلیمنٹ، مراعات یافتہ لوگوں اور اشرافیہ کو بھی ہوتا ہے کہ ان کے ملک میں ہسپتالوں اور ادویات کا کیا معیار ہے۔ ڈاکٹرز کی ایک بڑی تعداد کیسے ڈرگ مافیا کی سہولت کار بنی ہوئی ہے اس لیے وہ ملک کے اندر علاج کروانے کا رسک ہی نہیں لیتے۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ میاں نواز شریف لندن اور امریکہ سے اپنا علاج کروا رہے ہیں۔ سنا ہے بلاول بھٹو بھی بسلسلہ علاج بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ صدرِ مملکت جناب آصف زرداری صاحب بھی دوبئی میں اپنے پاں کا علاج کروا رہے ہیں۔ یہ خبر بھی زیرِ گردش ہے کہ محترمہ مریم نواز شریف بھی علاج کے سلسلے میں لندن تشریف لے جانے والی ہیں۔ جب ہمارے یہ خادم پاکستان میں علاج ہی نہیں کرواتے تو انہیں کیا خبر ہو گی کہ اس وقت پاکستانی عوام علاج معالجے کی مہنگی دستیابی اور جعلی ادویات کے سبب کس قدر کرب و اذیت کا شکار ہیں۔ حقیقت میں اس وقت پاکستانی عوام کی حیثیت جانوروں اور کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
لیکن یہی عوام جب تک جہالتوں کے پہاڑ بن کر زندہ باد، مردہ باد، آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کے نعروں سے باہر نہیں نکلتے تب تک حکمرانوں کے لیے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button