گرین ٹریکٹر اور پی آئی اے
فیصل رمضان اعوان
پنجاب حکومت کی گرین ٹریکٹر سکیم کی بالآخر قرعہ اندازی ہوگئی، ہمارے ایک بھائی نے ہمارا نام بھی لکھ کر اس سکیم میں شامل کر دیا، انتظار کی سولی پر لٹکتے رہنے کے بعد قرعہ اندازی میں ہمارا کہیں نام و نشان تک نہ تھا، ہمارے سادہ لوح لوگ اسے مقدر کا کھیل بھی سمجھتے ہیں، گویا قرعہ اندازی میں ہم بدنصیب ٹھہرے، خوش نصیب ٹریکٹر لے اڑے، ویسے ہم دور دراز علاقوں کے باسی لوگ بڑا عجیب مزاج رکھتے ہیں، ٹریکٹروں میں ایسے الجھے کہ اپنی دو گز بارانی زمین میں گندم کی بیجائی کیلئے قرعہ اندازی میں نکلنے والے گرین ٹریکٹر کا انتظار کرتے رہے، وہ تو بھلا ہو ہمارے بڑے بھائی کا جو گائوں کی زمینوں کو سونا بنانے کیلئے ایسے گم ہوئے کہ دس مہینے سے مٹی میں مٹی ہوگئے لیکن ابھی تک نتائج کچھ بھی حاصل نہ کر سکے۔ سولر پینل واٹر پمپنگ کھیتوں میں گویا نئی جدت لا رہے ہیں، ایک عدد بور، جو دس ماہ سے جاری ہے لیکن ابھی تک پایہ تکمیل نہ پہنچ سکا، ہر بار ایک نئی مصیبت سامنے کھڑی ہوجاتی ہے، آلو کی فصل کاشت کردی گئی لیکن بارانی علاقوں کی بنجر مٹی کو سیراب نہ کیا جاسکا کیونکہ فی الحال پانی کا انتظام نہیں ہوا، ایک عدد کنویں کی کھدائی بھی زور و شور سے جاری ہے لیکن بڑے بھائی کا یہ پراجیکٹ بھی کئی مہینوں پر محیط دکھائی دیتا ہے۔ خیر، ہمارے بھائی کی زراعت میں دلچسپی کی وجہ سے ہمیں یہ فائدہ ضرور ہوا کہ انہوں نے ہمیں اطلاع فراہم کی کہ زمین میں موجود وتر تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ گرین ٹریکٹر کا انتظار کرتے کرتے آپ کی گندم کی بیجائی تاخیر کا شکار ہورہی ہے لہٰذا جلدازجلد گندم کی بیجائی کا اہتمام کیا جائے۔ گرین ٹریکٹر آئے گا تب کی تب دیکھ لیں گے، خیر سے گرین ٹریکٹر ہماری ماڑی قسمت میں نہیں تھا لیکن بہرحال گندم کی بیجائی ہوگئی ہے۔ وطن عزیز پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کی آخری سانسوں کی کہانیاں منظرعام پر ہیں، ماضی میں یہ باکمال لوگ لاجواب سروس دنیا بھر میں مقبول تھی لیکن بالآخر ہر عروج کو زوال ہوتا ہے، بدقسمتی سے اس قومی اثاثے کو ایسے لوٹا گیا کہ اب اس کو کباڑ سمجھ لیا گیا اور کباڑ کی بولیاں لگادی گئیں۔ ہمارے حکمران اس کو خریدنے کی باتیں کر رہے ہیں تو دوسری طرف ملک میں تباہ حال معیشت کا رونا دھونا ہے۔ اب یہ معیشت تباہ کس نے کی ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔ بڑے بڑے صنعتکار کہاں ہیں، ان سے بات کریں، یہ لوٹ مار کا مال ان کو ادارے کی اصل قیمت پر دیں۔ اقربا پروری سے دور رہیں، اپنوں کو نہ نوازیں تو یہ قومی اثاثہ ایک بار پھر منافع بخش ادارہ بن سکتا ہے لیکن یہاں تو حکمران ہی قومی اثاثوں کی خریدوفروخت پر لگے ہوئے ہیں، کیسے بچے گا ہمارا ملک؟ غریب کا کیا بنے گا؟ تعلیمی اداروں کے تجربات بھی کچھ سالوں بعد اپنے بھیانک نتائج سامنے لائیں گے تو ہم سب کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ اس تجربے سے بنیادی تعلیم کا ڈھانچہ تباہ و برباد ہو جائیگا۔ سرکاری سکولوں میں نکمے اور نالائق لوگوں کے وجود سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا اس نجکاری نظام میں ہوگا۔ بنیادی ڈھانچہ ہی تباہ ہوگا تو ثانوی اور اس سے آگے کیا ہوگا۔
اللہ ہی ہم پر رحم کر دے تو بات بن سکتی ہے وگرنہ جو سلسلے چل پڑے ہیں ملکی نازک موڑ ختم ہی نہیں ہونگے۔ حکمران باریاں بدلتے رہیں گے، غریب لٹتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو خوب گالیاں بھی سناتے رہیں گے۔ گرین ٹریکٹر کے انتظار ہوتے رہیں گے اور پی آئی اے جیسے قومی اثاثے بندر بانٹ کا شکار ہوتے رہیں گے۔