Column

تضاد

صفدر علی حیدری
شیطان بلا کا تجربہ کار تھا، انسانی نفسیات پر اتھارٹی۔ اور کیوں نہ ہوتا اس نے اپنی آنکھوں سے تو اس خاک کے پتلے کو بد بو دار مٹی سے بنتے دیکھا تھا۔ اس غرور اور تعصب کے پتلے کو بھلا کب یہ منظور ہوتا کہ خاکی انسان خلافت ارضی کا تاج اپنے سر پر سجائے۔ سرداری کی جنگ میں یہ’’ خواری‘‘ اسے کیوں کر قبول ہوتی ۔ اس ماہر نفسیات انسانی نے اپنی ’’ دور اندیشی ‘‘ کے سبب بہت کچھ جان لیا تھا ۔ پھر اس نے فرشتوں کے کان میں نا جانے میں کیا پھونک ماری کہ وہ نوری مخلوق بارگائے ایزدی میں عاجزی سے عرض کیے بنا نہ رہ پائی ۔
’’ اے پروردگار تو اسے خلیفہ بنا رہا ہے جو زمین پر فساد برپا کر ے گا‘‘۔
آواز قدرت آئی:’’ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ‘‘۔
سو جس نے اپنی کم علمی و ناتوانی کا اعتراف کر لیا نوازا گیا اور انکار کرنے والا ابلیس ٹھہرا ( یہ لاعلمی کے باوجود اعلم ہونے کی ضد، ہٹ دھرمی اور تعصب شیطانی ورثہ ہی تو ہے )، کیا عجب تضاد ہے کہ مخلوق کے علم غیب پر مطلع ہونے کی پرزور نفی کرنے والا طبقہ بھی دل و جان سے ایمان رکھتا ہے کہ شیطان کو کل کی بخوبی خبر تھی ۔ واہ ! کیا کھلا ہوا تضاد ہے کہ انبیاء کرامٌ کے علم غیب کی نفی کرنے والے شیطان کے علم غیب پر شک نہیں کرتے۔ حالاں کہ نبی کے تو معنی ہی غیب کی خبر دینے والے کے ہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ نبی ﷺکا علم عطائی اور خدا کا ذاتی ہے ۔ خدا کے عالم الغیب ہونے کے قائل سمجھ ہی نہ پائے کہ اس کے آگے کچھ بھی غائب نہیں ۔ سب کچھ ظاہر ہر دم حاضر ۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ جاننا انسانی فطرت کا لازمہ ہے ۔ لیکن یہ انسان جب اپنی فکری تھکن کو اپنی منزل سمجھ کر خیمہ زن ہوتا ہے تو اپنے اردگرد غفلت کی ان دیکھی دیواریں کھڑی کرکے اپنی فکری بے مائیگی اور کم علمی پر تکیہ کر لیا کرتا ہے اور پھر اپنی فکری کوتاہی اور ناقص نظریات کے خلاف سچی سے سچی بات تک کو قبول کرنا گوارا نہیں کرتا ۔ گویا جاننے کی راہ میں خود سد راہ ہو جاتا ہے۔ کیا یہ ایک کھلی ہوا تضاد نہیں جو شاید کم علمی و کم فہمی کی دین ہے ۔
معزز قارئین! راقم یہ بات بلا خوف و تردید کہہ سکتا ہے کہ انسانی زندگی تضادات کا مجموعہ ہے ۔ کیا یہ ایک کھلا ہوا تضاد اور واضح منافقت نہیں کہ انسان ہدایت کا طالب بھی ہے اور ہادیان برحق کا مخالف بھی ، امن کا شیدائی بھی ہے اور جنگ کا متمنی بھی۔ سکون کا متلاشی بھی ہے اور جنون کا شیدائی بھی ، شعور کا حامل بھی اور جہالت میں کامل بھی ، حق کا بھیدی بھی ہے اور تعصب کا قیدی بھی ، آزادی کا علم بردار بھی ہے اورغلاموں کا خریدار بھی ، شرافت کا دعویٰ دار بھی ہے اور بے حیائی کا شکار بھی ، رحمان کا غلام بھی ہے اور نفس کے ہاتھوں نیلام بھی ، سادہ سا بندہ بھی اور گورکھ دھندہ بھی ، کائنات کا محور بھی ہے اور ذات کا گھن چکر بھی ، علم کا مرکز بھی ہے اور لاعلمی کا مظہر بھی ، تہذیب کا امام بھی ہے اور وحشتوں کا مہ تمام بھی ، دوستی سے وابستہ بھی ہے اور دشمنی پر کمر بستہ بھی ، دیدار الٰہی کا شیدا بھی ہے اور حسن مجازی کا رسیا بھی ، عورت پر فریفتہ بھی ہے اور اس کے شر سے چوکنا بھی ، مسند محبت پر فائز بھی ہے اور نفرت کے لائق بھی ، حسن کا سالک بھی ہے اور بد صورتی کا خالق بھی ، سیر و سلوک کا راہی بھی ہے اور خواہشات کا روگی بھی ، زہد کا مقتضی بھی ہے اور عیش کا دھنی بھی ،آخرت کی کامیابی پر آمادہ بھی ہے ، اور دنیا پرستی کا دل دادہ بھی ، الفت پر قادر بھی ہے اور نفرت میں نادر بھی ہے ، امیروں سے متنفر بھی ہے۔دولت کا معترف بھی ۔ خود آگاہی کا جویا بھی ہے اور خود پرستی میں کھویا بھی ، سابقہ گناہوں پر شرم سار بھی ہے اور نئی خطائوں پر تیار بھی ، دانش مندی سے مسجع بھی ہے اور حماقت کا مرقع بھی ، اپنے بندہ ہونے پر نازاں بھی ہے اور شیطاں بنے رہنے پر فرحاں بھی ، مظلوم کا یار بھی ہے اور ظالم کا ہتھیار بھی ، اندھیروں کا مخالف بھی ہے اور نور کے درپے بھی ، رشتوں کا قائل بھی اور قطع تعلق پر مائل بھی ، درد کا درماں بھی ہی اور مصائب کا ساماں بھی ، فعل کا عادی بھی ہے اور قول کا قیدی بھی ، صبر کا نشان بھی ہے اور شکوہ کناں بھی ، جنت کا طالب بھی ہے اور جہنم کا طرف راغب بھی ،شکر کا مجسمہ بھی اور بے صبری کا پتلا بھی، واحدنیت سے سرشار بھی ہے اورکثرت کی محبت میں گرفتار بھی ، مقصدیت میں معروف بھی ہے اور کھیل تماشے میں مصروف بھی ، رازق کا معترف بھی ہے اور حرام کمائی کا مرتکب بھی ، لذت ِ گناہ کو ترساں بھی ہے اور خوفِ سزا سے لرزاں بھی ، رب کی رضا بھی چاہتا ہے اپنی غرض کی بقاء بھی ، تحقیق کا موجد بھی ہے اور اندھا مقلد بھی ، جدت پر مبنی بھی ہے اور عقائد کا روگی بھی ، غیرت کا خواہاں بھی ہے ، بدکاری میں غلطاں بھی، قطبی تارہ بھی ہے ، بمبار طیارہ بھی ، مسیحا بھی ہے قاتل بھی ، ہادی بھی ہے اورراہ زن بھی ، سیکورٹی گارڈ بھی ہے اور دہشت گرد بھی ، بندہ بھی ہے اور درندہ بھی ، دوا ساز بھی ہے اور اسلحہ ساز بھی ، حروف ساز بھی اور خودکش حملہ آور بھی ، آخر یہ انسان ہے کیا ..؟؟؟؟؟؟؟؟ یہ اتنا عجیب ہے اتنا عجیب کہ اس کے خالق نے بھی اسے عجیب کہہ کر مخاطب کیا ہے ۔ محبت کرنے پر آئے تو پتھر کو خدا بنا ڈالے اور نفرت کرنے پر آمادہ ہو تو انسانی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کر دے ۔ انسان اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے ، کوئی بتائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ انسان کے قو ل و فعل کا تضاد ہر اختلاف کی جڑ ہے۔ قول و فعل کی اس ہاتھا پائی میں عموماً قول فیصل رہتا ہے اور عمل خجل ۔ قول کی فتح اختلاف کی عمارت کی پہلی اینٹ ثابت ہوتی ہے۔ یہی تضادات اختلافات کو ہوا دیتے ہیں تو ایک فرد کے اندر کا تضاد ، باہر نکل کر نمو پاتا ہوا ، دو افراد، گھرانوں ، معاشروں، طبقات ، زبانوں ، علاقوں ، ملکوں ،ثقافتوں ، مذاہب، نظریات سے بڑھتا ہوا ، دو دنیائوں کے اختلاف میں تبدیل ہو کر کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ آج جب میں اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو مسائل کا بد بودار انبوہ نظر آتا ہے ، اس سے گھبرا کر اپنے باطن میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہوں تو وہاں بھی تہہ در تہہ لپٹی ہوئی غلاظتوں کا فلک بوس ڈھیر پاتا ہوں ، جب اس ڈھیر کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہوں تو صرف تضاد ہی اس کا’’ روٹ کاز ‘‘ نظر آتا ہے ۔ ہر غلاظت کا ڈھیر تضاد ہی کی بنیاد پر پڑا اور کھڑا دکھائی دیتا ہے اور میں بے اختیار سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ آخر کیوں ہم لوگ تضاد کے قیدی ہو کر رہ گئے ہیں ( آپ اسے ذات کا قیدی بھی سمجھ سکتے ہیں )، کیا اس کی وجہ علم دشمنی تو نہیں وہی علم دشمنی جس کے بارے میں باب مدینۃ العلم کا فرمان حق نشان ہے۔
’’ لوگ جس چیز سے لاعلم ہوتے ہیں اسی بات کے دشمن ہوتے ہیں‘‘۔
کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم نے خود سے یہ فرض کر لیا ہے کہ صرف ہم ہی صاحبان علم ہیں ، اور یہ کہ علم صرف ہماری ذات ہی میں محدود و مرکوز ہے۔ کہیں ہم اپنی لاعلمی سے لاعلم تو نہیں ہو گئے ( کاش فرشتوں کی طرح ہم بھی اعتراف کر لیتے )۔
ارسطو نے کیا اچھا کہا ہے ’’ تم لو گ نہیں جانتے کہ کچھ نہیں جانتے جب کہ میں بخوبی جانتا ہوں کہ کچھ نہیں جانتا ‘‘۔
اور محل حیرت ہے کہ تاریخ کے سب سے بڑے سائنسدان نے علم کا نہیں لاعلمی کا دعویٰ کرتے ہوئے بے ساختہ کہا تھا ’’ میں بس یہ جانتا ہوں کہ کچھ نہیں جانتا ‘‘۔
اور ایک ہم ہی ہیں جو علم کے مدعی ہیں، اور اس بات سے قطعی لاعلم کہ اپنی لاعلمی کا علم ہو نا بھی ایک طرح کا علم ہے ، ایک عرفان ہے بلکہ عرفان ذات ہے۔ جس دن یہ بات ہمیں معلوم ہو گئی اور ہم نے دل سے مان بھی لی، ہمارے ظاہر و باطن کا سارا تضاد اپنی موت آپ مر جائے گا اور علم دشمنی دم توڑ جائے گی ( خواہ یہ لاعلمی کے سبب سے ہو یا کسی تعصب کے بموجب )، انسان کا کما ل تو دیکھیں کہ اسے تضاد محض دوسروں میں دکھاءی دیتا ہے۔
اپنی آنکھ کا شہتیر نہ دیکھ سکنے والی آنکھ دوسر ے کی آنکھ کا تنکا تک بھانپ لیا کرتی ہے ۔ یہ اندھا تعصب شیطانی وصف ہی تو ہے وہی وصف جو فرشتوں کے سردار کو ابلیس بنا دیا کرتا ہے اور جس کی پیروی میں قابیل نے کرہ ارض پر پہلا خون کیا تھا ( اور جس کا سلسلہ آج تک نہیں تھما )۔
اور پیار ے پڑھنے والے جب انسان اپنے باطن میں تضاد کا مشاہدہ کرتا ہے تو اپنے خارج میں بھی وہی سب دیکھنا چاہتا ہے نظر نہ آئے تو خود اسکی تخلیق کر لیا کرتا ہے ( کہ وہ دنیا کو اپنی آنکھ ہی سے نہیں دیکھتا اسے اپنے جیسا بھی دیکھنا چاہتا ہے)۔ اور یوں تضاد کی عمل داری بڑھتی ہی چلی جاتی ہے ۔ اس تعصب کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ ہم خود احتسابی کو روش اپنائیں کیونکہ یہی ایک چیز ہمیں بے زبانی بخش کر خود آگاہی پر مائل کر سکتی ہے۔
بے زبانی بخش دی خود احتسابی نے مجھے
ہونٹ سل جاتے ہیں دنیا کو گلہ دیتے ہوئے
اپنے ظاہر و باطن کے تضاد اور قول و فعل کی خلیج کو پاٹنے کیلئے ( خواہ یہ دوری کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو) ہمیں عملی قدم اٹھانا ہو گا اور اپنی ذات سے اس کا آغاز کرنا ہو گا۔ میرے رسول کریم ﷺ نے اس کا علاج محض ایک جملے میں صدیوں پہلے تجویز فرما دیا تھا۔ اس مدنی نسخے سے ہی ہم انا کے بے قابو جن پر غالب آسکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’ دوسروں کیلئے وہی چیز پسند کرو جو تمہیں محبوب ہو ‘‘۔ صرف اسی ایک بات پر عمل پیرا ہو کر ہم اس دنیا کو پھر سے رہنے کے قابل بنا سکتے ہیں ( اور اس عدم توازن کو دور کر سکتے ہیں جو بقول ناصر ملک ، قیامت کو قریب تر کرتا جا رہا ہے ) تمہاری خیالی’’ ناسٹلجیا ‘‘سے کہیں زیادہ دلکش خوبصورت اور جاذب نظر۔ اور جب تک ایسا نہیں ہو تا ہم گفتار کے غازی خود کو دانش مند، فلسفی، علامہ ، مفکر ، شیخ حتی کہ شیخ الاسلام تک کہہ سکتے ہیں۔
اور کہنے میں کیا حر ج ہے ..؟؟؟؟
صرف کہنے سے کیا ہوتا ہے ..؟؟؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button