ColumnImtiaz Aasi

Exceptional Case

امتیاز عاصی
پہلے پہل سنا کرتے تھے کوئی اغوا ہو گیا تو اغوا کاروں نے تاوان طلب کیا اور مغوی کے خاندان نے تاوان ادا کرکے بند ہ آزاد کرا لیا۔ یہ نہیں سنا تھا اغوا کار مغوی کو گاڑی میں لئے پھر رہے ہیں۔ عام طور پر اغوا کار مغوی کے گھروالوں کو مطلع کرکے تاوان کی رقم لینے کے بعد بندے کو چھوڑ دیتے ہیں۔ دراصل ڈرامہ رچانے کی بھرپور کوشش کی گئی ڈرامہ فلاپ ہو گیا۔ ایک روز پہلے اٹارنی جنرل اسلام آباد ہائی کورٹ کو یقین دہانی کراتے ہیں انتظار پنجوتھا کو چوبیس گھنٹوں میں پیش کر دیا جائے گا۔ کسی حد تک بات یہاں تک ٹھیک تھی بندے کو پیش کر دیا جائے گا ورنہ تو یہ کہا جا سکتا ہے اٹارنی جنرل صاحب کو بندے کا پتہ تھا وہ کہاں اور کس کی تحویل میں ہے۔ دیکھا جائے تو یہ اپنی نوعیت کا منفرد کیس ہے جس میں حکومت پاکستان کے اٹارنی جنرل صاحب عدالت کو یقین دہانی کر ا رہے ہیں بندہ پیش کر دیا جائے گا۔ عجیب تماشا ہے اغوا کار بندے کو حسن ابدال کے قریب چھوڑ جاتے ہیں پولیس او ر اغوا کاروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے دونوں طرف سے کوئی آدمی زخمی نہیں ہوتا ہے ورنہ کبھی سنا پولیس اور ملزمان میں فائرنگ ہو تو کسی طرف سے کوئی زخمی نہ ہوا ہو۔ انتظار پنجوتھا کا یہی قصور تھا وہ عمران خان کا ترجمان ہے۔ حالات ا س قدر خراب ہو چکے ہیں عمران خان کا نام لینا جرم عظیم ہے۔ اٹارنی جنرل صاحب کتنے پہنچے ہوئے ہیں انہیں پہلے علم ہو گیا تھا بندہ کل بازیاب ہو جائے گا۔ حکومت کو ایسے قانون دانوں کی اشد ضرورت ہے جو اغوا ہونے والوں کے بارے میں قبل از وقت عدالت کو بتا دیتے ہیں بندہ کل پیش کر دیا جائے گا۔ اس ناچیز نے ایوبی دور دیکھا ، جنرل یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار کا قریب سے مشاہدہ کیا اس قدر لاقانونیت نہیں دیکھی جتنی مسلم لیگ نون کے دور میں ہے۔ یوں تو پیپلز پارٹی والے جمہوریت کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ نون کی بات ہم نہیں کرتے جس جماعت کی بنیاد دور آمریت میں رکھی گئی ہو اسے جمہوریت سے کیا سروکار ہو سکتا ہے۔ دونوں جماعتوں نے یس مین کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ میاں شہباز شریف سے کوئی لاکھ اختلاف کر سکتا ہے ایک بات ضرور ہے وہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے واضح طور پر کہہ دیا ہے وہ جناب سپہ سالار صاحب کے ممنون ہیں جنہوں نے انہیں اقتدار سونپا ہے۔ میاں شہباز شریف کے اس بیان کے بعد فارم 47اور الیکشن ٹریبونل کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔ ٹریبونل کے ججوں کے تنخواہوں اور دیگر مراعات پر اربوں خرچ ہو جائیں گے ملک پہلے ہی مقروض ہے ۔ ہمارا ملک اپنے بینکوں کا بہت مقروض ہے لہذا قرضے بڑھانے کی ضرورت کیا ہے۔ حکومت چل رہی ہے۔ بڑے میاں صاحب نے کہہ دیا ہے چھوٹے میاں صاحب اور ان کی ہونہار بیٹی بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ عمران خان جیل میں ہے آنے والے وقتوں میں اس کی رہائی کا دور دور تک امکان نہیں۔ مقدمات ختم ہو بھی گئے تو نئے بنانے میں کون سی دیر لگتی ہے۔ الیکشن میں عوام ووٹ دے کر گھروں کو لوٹ آتے ہیں بعد میں جو کچھ ہوتا ہے ان کی دسترس سے باہر ہے ۔ مملکت کو نہ تو سفارتی سطح پر نہ داخلی طور پر کوئی مسئلہ درپیش ہے کوئی مسئلہ ہے وہ عمران خان کی مقبولیت کا ہے۔ حکومت نے اپنے طور پر بہت کوشش کر لی کسی طرح پی ٹی آئی اور عمران خان کی مقبولیت کم ہو سکے آخر اس بڑے مسئلے کو حکومت نے حل کرنا ہے جس کے لئے غیر ملکی ماہرین کی خدمات لینا ہوں گی کسی طریقہ سے پی ٹی آئی کا خاتمہ ہو سکے۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کا جلسہ کرنے کی کال دینے کی دیر ہے پکڑ دھکڑ شروع ہو جاتی ہے۔ اس وقت راولپنڈی، اٹک، جہلم اور دیگر جیلیں پی ٹی آئی ورکرز سے بھری پڑی ہیں۔ جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کے لئے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ڈسٹرکٹ جیلوں میں ویسے گنجائش کم ہوتی ہے اوپر سے چار پانچ سو نئے حوالاتیوں کو بھیج دیا جائے تو جیلوں کے ملازمین کے لئے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو عدالتوں کا جو بے گناہوں کی ضمانتیں لے لیتی ہیں ورنہ تو جیلوں میں خون خرابے کا امکان ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ورکرز کو جیلوں میں عام قیدیوں اور حوالاتیوں سے علیحدہ رکھا جاتا ہے تاکہ کوئی حادثہ پیش نہ آجائے۔ انتظار پنجوتھا سے ہماری کوئی شناسائی نہیں فیس بک پر دیکھ کر انہیں دیکھ کر دکھ ہوا جس کرب میں وہ شخص مبتلا تھا اس نے اس بات کا اعتراف کیا ہے اس پر تشدد کیا گیا۔ لگتا ہے اغوا کاروں کو پشتو بولنے کی بھی تربیت دی جاتی ہے مغوی ان کی بات چیت سمجھ نہ سکے۔ پاکستانی قوم کتنی ذہین و فطین اور دور اندیش ہے۔ اغوا کار انتظار پنجوتھا کو ایسے چھوڑ جاتے تو معاملہ اتنا گھمبیر نہیں ہوتا۔ وکلاء برادری قانون کی بالادستی کی دعویٰ دار ہے مختلف گروہوں میں منقسم ہے۔ بقول ایک کالم نگار کے مشرف کے خلاف وکلاء تحریک کی پشت پر کوئی اور لوگ تھے جو سب نے مل کر جدوجہد کی۔ آج وکلا اور ان کی تنظیمیں کیوں خاموش ہیں ؟ سپریم کورٹ بار کے انتخابات پر بھاری رقوم خرچ کی گئیں وہ رقم کہاں سے آئی سوشل میڈیا پر شور و غوغا ہے۔ سیاسی جماعتیں لولی لنگڑی جمہوریت کو دفن کرنے کے درپے ہیں۔ سب مل کر معتوب جماعت کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا کل ان باری آسکتی ہے۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی عمران خان کبھی طاقتور حلقوں کی ناک کا بال تھا اب جیلوں کی ہوا کھا رہا ہے۔ ایک بات ضرور ہے وہ مضبوط اعصاب کا مالک ہے شائد بعض لوگوں نے اسے underestimateکیا وہ ہار ماننے والا نہیں جس شخص کا مطمع نظر یہ ہو وہ جیل میں موت کو ترجیح دے سکتا ہے آزادی پر سمجھوتہ نہیں کرے گا ایسے بندے کو شکست دینا ممکن نہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کو انتظار پنجوتھا کیس کا از خود نوٹس لینا چاہیے، ہم داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے اس ڈرامے کا سکرپٹ لکھنے والے کو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button