ناکامیوں اور بربادیوں کی داستان
روہیل اکبر
راجن پور سے گزرتے ہوئے دریائے سندھ میں کشتی پر بیٹھا پانی کی موجوں کو دور تک اٹھکیلیاں کرتے ہوئے دیکھ کر حیران ہورہا تھا کہ ہم لوگ بھی عجیب لوگ ہیں صبح سے شام تک قیدی نمبر 804اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پراپیگنڈا کرنے سے باز نہیں آتے ایک طرف پٹواریوں کا واویلا ہے تو دوسری طرف یوتھیوں کا بھی شور شرابا ہے اسی لڑائی میں ملک اندھیروں میں ڈوب رہا ہے زراعت اور بجلی دونوں کا پانی سے گہرا تعلق ہے اور یہی چیز ہمارے پاس وافر موجود ہے جسے ہم بہت ہی خوبصورتی سے ضائع کرنے میں مصروف ہیں زراعت سے منسلک زمیندار رو رہے ہیں، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے ہماری انڈسٹری بند ہوچکی ہے اور تو اور اب گھروں کے چولہے بھی بند ہیں ہمارے سیاستدان اور حکمران ہیں کہ ایک دوسرے کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کر رہے ہیں اور پھر انہیں اذیتیں دیکر سکون محسوس کرتے ہیں اپنے کپڑے تک بیچنے والے اور قرضوں سے جان چھڑانے والے ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھا رہے ہیں پابندیاں اتنی زیادہ ہیں انہیں پوچھنے پر بھی پابندی ہے اور دوسری طرف دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی روز نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں چین نے بغیر انسانی محنت ڈرون اور ریموٹ کے مدد سے 58کلومیٹر روڈ کی تعمیر مکمل کرکے اک عجیب غریب اور حیران کن ایجاد سے دنیا کو حیران کردیا ہے جاپان میں ایسی سڑکیں بنا دی گئی ہیں جو گاڑیوں کو چارج بھی کررہی ہیں سابق ٹوئٹر اور موجودہ ایکس کے مالک ایلون مسک کی کمپنی اسپیس ایکس نے امریکہ کے ایک چھوٹے سے ساحلی قصبے بوکا چیکا ٹیکساس میں عالمی تاریخ کا ایک نیا باب رقم کردیا ہے جہاں انہوں نے 300ٹن وزنی اور 25منزلہ عمارت کے برابر ایک راکٹ کو کامیابی کے ساتھ زمین پر واپس بحفاظت اتار لیا ہے یہ کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے اب خلا میں انسان کا آنا جانا تقریباً اتنا ہی آسان اور سستا ہو جائے گا جتنا آج ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک کا سفر ہے اس نئی دنیا میں ہمارا مقام کہاں ہو گا اس کا فیصلہ اب ہم نہیں بلکہ وہ کریں گے جو اس ٹیکنالوجی اور سوچ کے مالک ہوں گے کمزور اور نااہل انسانوں کے لیے شاید نو آبادیاتی دور کی طرح ایک اور دور غلامی کا آغاز ہونے والا ہے اور اسکے ذمہ دار ہم سب ہونگے ہم نے تو آج تک اپنا پانی کھلے دل سے ضائع کیا دریائے سندھ پر کوئی ڈیم نہیں بنا سکے اور نہ ہی اس دریا سے کوئی فائدہ اٹھا سکے بلکہ جب بھی سیلاب آتا ہے تو یہی دریا ہمارے لیے مصیبت بن جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے یہی دریا جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا دریا اور دنیا کے بڑے دریاں میں سے ایک ہے اس کی لمبائی 2000ہزار میل یا 3200کلو میٹر ہے چین کے علاقے تبت میں ہمالیہ کا ایک ذیلی پہاڑی سلسلہ کیلاش ہے کیلاش کے بیچوں بیچ کیلاش نام کا ایک پہاڑ بھی ہے جس کے کنارے پر جھیل ’’مانسرور‘‘ ہے جسے دریائے سندھ کا منبع مانا جاتا ہے اسی جھیل سے دریائے سندھ سمیت برصغیر میں بہنے والے 4اہم دریا اور بھی نکلتے ہیں ستلج ہاتھی کے منہ سے نکل کر مغربی سمت میں بہتا ہے گنگا مور کی چونچ سے نکل کر جنوبی سمت میں بہتا ہے برہم پتر گھوڑے کے منہ سے نکل کر مشرقی سمت میں بہتا ہے اور دریائے سندھ شیر کے منہ سے نکل کر شمالی سمت میں بہتا ہے ایک زمانے تک دریائے سندھ کی تحقیق جھیل مانسرور تک ہی سمجھی جاتی رہی۔ حتی کہ 1811عیسوی میں ’’ ولیم مور کرافٹ‘‘ نے اس علاقے میں جا کر بتایا کہ سندھ کا نقطہ آغاز جھیل مانسرور نہیں بلکہ جھیل میں جنوب سے آ کر ملنے والی ندیاں ہیں اسی نظریہ پر مزید تحقیق کرتے ہوئے ’’سیون ہیڈن‘‘ 1907ء میں جھیل سے 40کلومیٹر اوپر ’’ سنگی کباب‘‘ یا ’’سینگے کباب‘‘ کے علاقے میں جا پہنچا جہاں بہنے والی ندی ’’ گارتنگ‘‘ یا ’’ گارتانگ‘‘ جھیل مانسرور کو پانی مہیا کرتی ہے گارتنگ ندی دریائے سندھ کا نقطہ آغاز ہے سنگی کباب کا مطلب ہے شیر کے منہ والا اسی مناسبت سے دریائے سندھ کو شیر دریا کہا جاتا ہے گارتنگ ندی شمال مغربی سمت سے آکر جھیل مانسرور میں ملتی ہے یہاں سی دریا لداخ کی سمت اپنا سفر شروع کرتا ہے دریا کے شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے سلسلے ہیں وادی نیبرا کے مقام پر سیاچن گلیشیئر کے پانیوں سے بننے والا دریا نیبرا اس میں آکر ملتا ہے یہاں تک دریا کی لمبائی تقریباً 450کلومیٹر ہے۔ پھر دریائے سندھ پاکستانی علاقے بلتستان میں داخل ہوجاتا ہے دریائے سندھ پاکستان میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے دریائے شیوک اس میں آ کر ملتا ہے پھر 30کلومیٹر مزید آگے جا کر اسکردو شہر کے قریب دریائے شیگر اس میں آ گرتا ہے مزید آگے جا کر ہندوکش کے سائے میں دریائے گلگت اس میں ملتا ہے اور پھر نانگاپربت سے آنے والا استور دریا آ ملتا ہے اونچے پہاڑیوں سے جیسے ہی دریائے سندھ نشیبی علاقے میں داخل ہوتا ہے تربیلا کے مقام پر ایک بہت بڑی دیوار بنا کر اسے ڈیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے تھوڑا سا آگے جا کر جرنیلی سڑک کے پاس اٹک کے مقام پر دریائے کابل بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے دریائے سندھ کا سفر پوٹھوہاری پہاڑی علاقے سے چلتا ہوا کالا باغ تک جاتا ہے کالاباغ وہ مقام ہے جہاں سے دریائے سندھ کا پہاڑی سفر ختم ہوکر میدانی سفر شروع ہوتا ہے اسی مقام پر کالا باغ ڈیم بھی بننا تھا جو ہماری سیاسی رہنماں نے بننے نہیں دیا کسی کہا کہ ہماری لاشوں سے گذر کر بنا سکتے ہو تو بنا لو آدھا ڈیم بنا کر چھوڑ دیا گیا جو اصل میں ہماری ترقی کا راستہ تھا جسے سب نے مل جل کر بند کر دیا اور آج ہم سطح غربت سے نیچے کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں جنہوں نے اس ڈیم کی مخالفت کی وہ پہلے بھی خوشحال تھے اب بھی مزے میں ہیں اور جن لوگوں نے اس دریا کے پانی سے فائدہ اٹھا کر اپنے پاں پر کھڑا ہونا تھا وہ لوگ وڈیروں کے اس فیصلے کے بعد دریا کے ساتھ ہی بہہ گئے اور انکی نسلیں ابھی تک ہر سال دریائے سند ھ کے سیلابی ریلوں میں ڈوب کر اپنی پسماندگی اور جہالت کی برسی مناتے ہیں اسی مقام پر ہی دریائے سواں سندھ میں ملتا ہے تھوڑا سا آگے مغربی سمت سے آنے والا کرم دریا بھی اس میں شامل ہوجاتا ہے مزید آگے جاکر کوہ سلیمان سے آنے والا گومل دریا دریائے سندھ میں اپنا پانی شامل کر دیتا ہے مظفر گڑھ سے تھوڑا آگے جا کر پنجند کا مقام آتا ہے جہاں پنجاب کے پانچوں دریا جہلم، چناب، راوی، ستلج، بیاس آپس میں مل کر دریائے سندھ میں سما جاتے ہیں گڈو سے سندھ جنوبی سمت میں بہتا ہے سکھر شہر کے بیچ سے اور لاڑکانہ اور موئن جو دڑو کے مشرق سے گزرتا ہوا سہون کی پہاڑیوں سے ہوتا ہوا حیدرآباد کے پہلو سے گزر کر ٹھٹھہ کے مشرق سے گزر کر کیٹی بندر میں چھوٹی چھوٹی بہت ساری شاخوں میں تقسیم ہو کر بحیرہ عرب میں شامل ہوجاتا ہے اسی دریا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے نام پر سندھ اور ہندوستان کا نام انڈیا پکارا گیا ہے خیبر پختون خواہ میں اس دریا کو ابا سین یعنی دریاں کا باپ کہتے ہیں اسی دریا کے کنارے آریائوں نے اپنی مقدس کتاب رگ وید لکھی تھی رگ وید میں اس دریا کی تعریف میں بہت سارے اشلوک ہیں یہ برصغیر کا واحد دریا ہے جس کی ہندو پوجا کرتے ہیں اور یہ اڈیرو لال اور جھولے لال بھی کہلاتا ہے اس دریا کے کنارے دنیا کی ایک قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک منفرد تہذیب نے جنم لیا تھا قدیم زمانے میں اس دریا کو عبور کرنے بعد ہی وسط ایشیا سے برصغیر میں داخل ہوسکتے تھے یہ دریا اپنی تند خوئی اور خود سری کی وجہ سے بھی شیر دریا کہلاتا ہے یوں یہ دریا چین کے تبت اور لداخ سے ہوتا ہوا ہندستان سے گھومتا ہوا پاکستان کے حسین ترین علاقوں گلگت، اسکردو، استور نانگا پربت کے پہاڑی سلسلوں اور میدانی علاقوں سے بل کھاتا ہوا آخر کار ہماری ناکامیوں اور بربادیوں کی داستان سناتا ہوا بڑے پانیوں میں گم ہوجاتا ہے اور ہم پوری قوم گم سم بنی بیٹھی ہے۔