ColumnRoshan Lal

فائز عیسیٰ کے ساتھ نازیبا سلوک سے بھی پہلے۔۔۔۔

تحریر : روشن لعل
پاکستان کے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ لند ن میں جو کچھ ہوا ، اسے یہاں لوگوں کی اکثریت نے بدسلوکی قرار دیا۔ دو لفظوں کے مرکب ’’ بدسلوکی‘‘ کو بھی حالانکہ منفی اور قابل مذمت رویہ تصور کیا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود ، برطانیہ میں جس مذموم سوچ کے تحت قاضی صاحب کی تضحیک کی گئی اس کے لیے ’’ نازیبا سلوک‘‘ کا استعمال زیادہ مناسب لگتا ہے۔ اگرچہ یہاں کچھ ناعاقبت اندیش یوٹیوبر، سابق چیف جسٹس سے نازیبا سلوک کرنے والوں کو ہیرو بناکر پیش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، لیکن ان یو ٹیوبرز کے برعکس مین سٹریم میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والوں کی اکثریت قاضی صاحب کی گاڑی کے پیچھے بھاگنے والوں کی کھل کر مذمت بھی کر رہی ہے۔ مین سٹریم میڈیا کا ایک ٹی وی چینل قاضی فائز عیسیٰ سے لندن میں نازیبا سلوک کرنے والوں کی مذمت کرنے میں سب سے آگے ہے۔ اس ٹی وی چینل کی حالیہ نشریات دیکھ کر اس کے سرکردہ لوگوں کا کوئی ڈیڑھ دہائی قبل ادا کیا گیا وہ افسوس ناک کردار یاد آگیا جس میں انہوں نے پاکستان کی ایک اعلیٰ ترین ریاستی شخصیت کے ساتھ لندن میں کی جانے والی مبینہ بیہودگی کو اس طرح پیش کیا تھا جیسے بیہودگی کا مظاہرہ کرنے والے شخص نے کوئی عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہو۔ مذکورہ ٹی وی چینل کا اپنے ماضی کے برعکس کردار دیکھ کر فوراً ذہن میں یہ خیال آیا کہ جس ٹی وی چینل کو آج قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ بیہودگی لگ رہا ہے اصل میں کل اسی چینل سے وابستہ لوگوں نے لندن میں رہنے والے پاکستانیوں کو بیہودہ رویہ اختیار کرنے کی طرف مائل کیا تھا۔
سطور بالا میں جس چینل کا ذکر کیا گیا ہے، تقریباً ڈیڑھ دہائی قبل معروف اینکر عائشہ بخش نے اس چینل کو جوائن کیا تھا۔ اس چینل کی غالباً 7یا 8اگست 2010ء کی نشریات کے دوران عائشہ بخش نے تقریباً چیختے ہوئے ایک اہم اعلان کیا۔ عائشہ بخش نے عجیب و غریب لب و لہجے میں جو اعلان کیا وہ کچھ یوں تھا کہ ’’ لندن میں منعقدہ ایک تقریب میں صدر آصف علی زرداری پر جوتا اچھالنے کی خبریں سامنے آئی ہیں، اگر کسی کے پاس جوتا اچھالنے کی تصویر یا فوٹیج موجود ہے تو وہ فوراً فلاں نمبروں پر ۔۔۔۔ ٹی وی چینل کی انتظامیہ سے رابطہ کرے‘‘۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ آصف علی زرداری جب 2008ء میں پاکستان کے صدر منتخب ہوئے اس وقت پاکستان کا تقریباً ہر بااثر ریاستی و غیر ریاستی ادارہ ان خلاف عرصہ سے سرگرم غیر علانیہ محاذ میں شامل تھا۔ سال 2008ء میں جونہی آصف علی زرداری کے صدارتی امیدوار بننے کا اعلان ہوا، اسی وقت ان کی کردار کشی کی اس مہم کو تیز تر کر دیا گیا تھا جسے 1980ء کی دہائی سے مسلسل جاری رکھنے کے بعد 2006ء میں میثاق جمہوریت کی وجہ سے عارضی طور معطل کیا گیا تھا۔ جس محاذ نے آصف علی زرداری کی کردار کشی کو اپنا اولین فرض بنا رکھا تھا اس محاذ کا اہم حصہ وہ ٹی وی چینل بھی تھا جس پر معروف اینکر عائشہ بخش نے یہ دعوت خاص دی کہ اگر کسی کے پاس پاکستان کے صدر پر لندن میں جوتا اچھالنے کی تصویر یا فوٹیج موجود ہے تو وہ فوراً چینل کی انتظامیہ سے رابطہ کرے۔
اگست 2010ء میں، آصف علی زرداری پر جوتا اچھالنے کی خبر نشر ہونے کے فوراً بعد ان کے ترجمان فرحت اللہ بابر کی طرف سے یہ بیان جاری ہوا کہ لندن میں صدر پاکستان کے خطاب کے دوران جوتا اچھالنے جیسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، اگر ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا ہوتا تو ضرور اس کی کوئی فوٹیج یا تصویر سامنے آچکی ہوتی۔ فرحت اللہ بابر کا وضاحتی بیان جاری ہونے کے بعد اکثر نشریاتی اداروں نے جوتا اچھالنے کی خبر نشر کرنے سے گریز کرلیا لیکن جو چینل آج قاضی فائز عیسیٰ سے بدسلوکی کرنے والوں کی سب سے زیادہ مذمت کر رہا ہے اس چینل پر جوتا اچھالنے کے دعویدار سردار محمد شمیم خان نامی بندے کو ہیرو بنا کر پیش کردیا گیا ۔ ادھیڑ عمر کا سردار شمیم خان، خصوصی اہتمام کے تحت اس چینل پر یہ کہتا پایا گیا کہ اس نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بیس میٹر کی دوری سے آصف علی زرداری پر جوتا اچھالا تھا۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جو لوگ سابق چیف جسٹس کی گاڑی کے پیچھے دوڑنے کو بدسلوکی اور نازیبا حرکت سمجھتے ہیں انہیں ریاست کے حاضر صدر پر جوتا اچھالنے کو بیہودگی سے بھی زیادہ قبیح حرکت تصور کرنا چاہیے تھا، مگر وطن عزیز میں ایسا نہیں ہوا۔ جس چینل سے چیف جسٹس سے بدسلوکی کرنے والوں کی مذمت اور صدر مملکت کے خلاف بیہودہ رویہ اختیار کرنے والوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا وہ چینل اصل میں تن تنہا نہیں بلکہ ایک کارٹل کا حصہ بن کر دہرے کردار کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ زرداری مخالف اس کارٹل میں چوٹی کے سیاستدان، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلیٰ عہدیدار، بڑے بڑے میڈیا ہائوسز کے مالکان اور عدلیہ کے چیف تک شامل تھے۔ اس کارٹل میں شامل ہر اہم فرد نے عوام میں آصف علی زرداری کا امیج خراب کرنے کے لیے جو حرکتیں کیں وہ اس حرکت سے کہیں زیادہ پست تھیں جو پی ٹی آئی کے لونڈے لپاڑوں نے سابق چیف جسٹس کی گاڑی کے پیچھے بھاگ کر کی۔ مذکورہ کارٹل کی طرف سے آصف علی زرداری کی بے جا کردار کشی سے زیادہ المناک بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے لندن میں صدر مملکت پر جوتا اچھالنے جیسی حرکت کی راہ ہموار کی اور اس طرح کی حرکت کرنے والوں کو سراہا پھر برطانیہ میں ان لوگوں کے ساتھ اس سے بھی برا ہوا جو انہوں نے زرداری کے ساتھ کرنے کی کوشش کی۔ میاں نوازشریف کے ایون فیلڈ فلیٹوں کے باہر پی ٹی آئی کے لونڈوں لپاڑوں نے دو برس تک جو دھما چوکڑی مچائی اس سے کون واقف نہیں ہے، سابق چیف جسٹس افتخار چودھری پر لندن میں راہ چلتے جس طرح سے آوازے کسے گئے اس کے ثبوت یو ٹیوب پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف اور افتخار چودھری تو ٹھیک ہے مگر قاضی فائز عیسیٰ کیوں۔ جن لوگوں کے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کیوں وہ جھوٹ کا پلندہ ثابت ہو چکے میمو گیٹ کی تفتیش کے لیے بنائے گئے کمیشن کے سربراہ کے طور پر ادا کئے گئے قاضی صاحب کے کردار کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ جس ٹی وی چینل نے سیاستدانوں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور میڈیا کے مذکورہ کارٹل میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا اس کے سیٹھ پر پہلے توہین کا مقدمہ درج ہوا اور پھر اسے کئی مہینے نیب کی حراست میں رہنا پڑا۔ جہاں تک ایجنسیوں کی بات ہے تو ان کا شائد ہی کوئی اعلیٰ عہدیدار اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد سماج میں معتبر سمجھا گیا ہو۔
مذکورہ کارٹل میں شامل سرکردہ لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے مکافات عمل سمجھنے کی بجائے اس نظریے سے دیکھنا چاہیے کہ جن لوگوں نے اپنی تمام تر توانائیاں اس خطے کو آلودہ کرنے پر صرف کیں وہ بعد ازاں خود بھی اپنی پھیلائی ہوئی آلودگی کے زہر سے محفوظ نہ رہ سکے۔ جو کچھ ہوا اس میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے مگر تاریخ سے سبق کون سیکھتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button