Column

سانحہ پی آئی اے

تحریر : سیدہ عنبرین
ادارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے تو ایک مسلمہ طریقہ کار کے مطابق عمل اسے ترقی کی طرف لے جاتا ہے، کاروباری اصولوں سے انحراف شروع ہو جائے تو ترقی ختم اور تنزلی شروع ہو جاتی ہے، مزید ستم، چوری چکاری شروع ہو جائے تو تباہی کی رفتار تیز تر ہو جاتی ہے اور جب چوکیدار چوروں کے ساتھ مل جائے تو دہائیوں میں حاصل کی گئی کامیابیاں محض چند برسوں میں مٹی میں مل جاتی ہیں۔ قومی فضائی کمپنی کے ساتھ صد فیصد ایسا ہی ہوا، 60کی دہائی میں دنیا کی بہترین ایئر لائن میں شمار ہونے لگا تھا، اس کا سفر سہل اور سروس درحقیقت لاجواب تھی، عملہ تمیزدار اور شائستہ اطوار تھا، جہاز نئے تھے، ملک میں دیانتداری کا کلچر تھا، عوامی نمائندوں سے لے کر حکومت کے سربراہ اور اداروں کے سربراہ سبھی ایماندار تھے، اس کا اثر قومی اداروں پر بھی تھا، وہاں بھی رزق حلال کمانا ہی ترجیح اول تھی، نتیجتاً تمام قومی ادارے بشمول پی آئی اے منافع میں تھے۔ پاکستان میں سیاسی کلچرل 1985ء میں تبدیل ہوا، سیاستدان گھر بٹھا دیئے گئے تو کاروباری طبقہ سیاست میں آ گیا، جنہوں نے کم وقت میں زیادہ پیسہ کمانے کے رجحان کو فروغ دیا اور اپنے مقاصد کے حصول کیلئے تمام کاروباری اصول پامال کر دیئے، پیسے کے زور پر اقتدار اور اقتدار کے زور پر پیسہ کمانے کا چلن اس زمانے میں شروع ہوا۔ اقتدار کو مستحکم کرنے کیلئے تمام دنیا میں اقتصادی ترقی کے منصوبوں پر عمل ہوتا ہے، ہمارے یہاں ووٹرز کو خوش کرنے اور انہیں ساتھ ملانے کیلئے نوکریاں بانٹنے کا فارمولا اپنایا گیا، پرکشش تنخواہوں اور مراعات کے اعتبار سے پی آئی اے اور سوئی گیس کے ساتھ ساتھ ہائوس بلڈنگ فنانس بہت اچھے سمجھے جاتے تھے، لہٰذا حکومتوں نے ان اداروں میں سیاسی بھرتیاں شروع کر دیں، یہی حال پاکستان سٹیل ملز اور ریلوے کا کیا گیا۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے زمانہ اقتدار میں بے دریغ بھرتیاں کیں، زبان زد عام حقیقت یہ ہے کہ ان اداروں سے وابستہ لاتعداد افراد تنخواہیں تو وصول کرتے تھے لیکن پورا وقت اپنے کاروبار یا کسی اور جگہ صرف کرتے تھے ۔ دانشوروں لکھاریوں نے متعدد مرتبہ اس طرف توجہ دلائی، لیکن سننے والا کوئی نہ تھا، جنہوں نے سننا اور اس پر عمل کرنا تھا وہی تو مجرم تھے، پس اصلاح احوال کی بجائے بربادی بڑھتی گئی، آج ان میں سے زیادہ تر ادارے بند ہو چکے ہیں، ایک آدھ ایسا ہے جو زمین پر رینگ رہا ہے اور ہزاروں ارب روپے قرض تلے دبا ہوا ہے۔
دنیا بھر میں ایک جہاز کی نسبت 150ملازمین ہوتے ہیں، ہمارے یہاں یہ تعداد 350ملازمین فی جہاز ہو گئی، آج اس ادارے میں 7ہزار ملازم ہیں، جبکہ جہاز صرف 20وہ بھی ایسے چھکڑا نما ہیں جو پرانی جی ٹی ایس جیسے ہیں، ان بسوں کے بارے میں کہا جاتا تھا ان کے ہارن کے سوا سب کچھ بجتا ہے۔
دنیا پر راج کرنے والی قومی فضائی کمپنی کے کیبن کریو کی تعریف کچھ اس انداز میں کی جاتی تھی۔ فلاں لڑکی اتنی خوبصورت ہے، اتنی مہذب ہے جیسے ایئر ہوسٹس ہو، پھر وہ زمانہ بھی ہم نے دیکھا جب ایسی ایئر ہوسٹس بھرتی کر لی گئیں جو نانی اماں بن چکی تھیں، وہ کھانے اور مشروبات کی ٹرالی کھینچتے ہوئے خود فرش پر گر جاتی تھیں، جو خود گرنے سے بچ جاتیں وہ چائے مسافروں پر گرا دیتی تھیں۔ امریکہ، یورپ، لندن سے آنے والی پرواز میں ایسے تماشے بھی دیکھے ، فلائٹ لاہور سے ابھی 2گھنٹے کی دوری پر تھی، ایک مسلمان پاکستانی مسافر نے پینے کیلئے پانی مانگا تو اسے بتایا گیا کہ پانی ختم ہو گیا ہے، وہ بے چارہ صبر شکر کر کے خاموش ہو گیا، ٹھیک چند مند بعد ایک غیر ملکی مسافر نے شراب میں مکس کرنے کیلئے پانی مانگا تو اسے مہیا کر دیا گیا، جس پر اس مسافر نے عملے کے ہر مرد و زن کو بلا کر ایسی بے عزتی کی جو ان کا حق تھا، ہماری ایئر لائن پر ایسا وقت بھی آیا جب درجن بھر غیر ملکی سٹیشنز پر تعینات سیلز سے وابستہ افراد غیر ملکی فضائی کمپنیوں سے کمیشن لے کر اپنے مسافر انہیں فروخت کر دیتے اور پی آئی اے کے جہاز آدھے سے زیادہ خالی سفر کرتے، مبینہ طور پر ایسی ایسی کہانیاں سامنے آئیں کہ انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ سمگلنگ میں ملوث عملے کے ارکان نے عرصہ دراز تک ادھم مچائے رکھا، جو رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے وہ دو ہفتے بعد اپنی سلیٹ صاف کرانے کے بعد بحال ہو جاتے رہے، قومی فضائی کمپنی میں لوٹ مار اور اقربا پروری کا کلچر قریباً 40 برس جاری رہا سب خاموش رہے، اتنی لوٹ مار کے بعد آج بھی اس ادارے کے اثاثے کئی ہزار ارب کے ہیں، جن پر درجنوں افراد کی رالیں ٹپک رہی ہیں، وہ اسے اونے پونے داموں ہتھیانا چاہتے ہیں۔ یہ فصلہ کرنے میں 20برس لگے کہ اسے پرائیویٹائز کرنا ہے ، گزشتہ دو حکومتیں اس منصوبے پر کام کرتی رہیں کیئر ٹیکر سیٹ اپ میں ’’ نہایت قابل اور دیانتدار افراد‘‘ اس کام پر مامور ہوئے انہوں نے ایک فرم سے گاہک گھیرنے کا معاہدہ کیا، انہیں اس کے عوض سوا سات ملین ڈالر ادا کئے، ایک اشتہاری کمپنی کو بھاری معاوضہ دیا کہ وہ گاہکوں کو متوجہ کرنے کیلئے اشتہار بازی کرے، ان تمام کوششوں کے بعد ہماری ایئر لائن خریدنے کیلئے پانچ، چھ پارٹیاں سامنے آئیں، جن میں سے پانچ کو طریقے سے بھگا دیا گیا، ایک پارٹی نے 10 ارب کی پیشکش کی، یعنی قریباً ایک بڑے جہاز کی قیمت میں وہ پوری ایئر لائن خریدنا چاہتے ہیں، ان کے پیچھے کون ہے، یہ بھی اب واضح ہو چکا ہے، سارا منصوبہ کیا ہے یہ بھی ظاہر ہو چکا ہے۔ ایک کاروباری سیاسی شخصیت نے آواز لگائی کہ اگر کوئی شخص مفت میں بھی پی آئی اے لینا چاہے تو اسے دے دی جائے۔ اس کا پاکستان پر احسان ہو گا۔ اس شخصیت کی اپنی ایک ایئر لائن ہے، جو اس نے اپنے زمانہ اقتدار میں بنائی ہے جو خوب منافع میں ہے۔
کاروباری گدھ دور دور سے آ رہے ہیں، اس کا انجر پنجر بھی چٹ کر جائیں گے، سب کی نظر اس کے اثاثوں پر ہے، اس کے روٹس اس کا بڑا اثاثہ ہیں، ایک برس میں یہ ایئر لائن اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکتی ہے، مزید ایک برس میں اپنے قرض اتار سکتی ہے مگر نہیں ایسا کوئی نہیں چاہتا، پی آئی اے کا سانحہ یہی ہے، اسے اس انجام تک پہنچانے والے قومی مجرم ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button