Column

ایک بیورو کریٹ کی کہانی، از سردار محمد حبیب خان مرحوم

تحریر : پروفیسرخالد اکبر

سردار محمد حبیب خان کا تعارف سن شعور سنبھالنے کے بعد اپنے بزرگوں کے توسل سے اپنے علاقے اور قبیلے کی ایک بڑی شخصیت کے طور پر ہو چکا تھا۔ ان کا میرے گائوں بن جونسہ میں ننھیال کے علاوہ کئی اور نسبتوں کے ساتھ تعلق وابستہ ہے۔ تاہم ان سے زند گی میں ملاقات ہوئی نہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ زمانہ طالب علمی میں غازی ملت سر دار محمد ابراہیم خاں کی سوانح حیات: متاع زیست پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ تو اس کتاب میں سردار محمد حبیب خان کی شخصیت کا تعارف بہت شاندار اور جاندار الفاظ میں ملا۔ سردار محمد ابراہیم خان صاحب اور سردار محمد حبیب خان صاحب مرحوم کلاس دہم سے گریجوایشن تک ہم جماعت، دوست بلکہ پوری زند گی ہم دم دیرینہ رہے۔ سردار محمد ابراہیم خان مرحوم نے انھیں علم و فضل، ذہانت و فطانت، مستعدی اور جفا کشی کے لحاظ سے اپنے سے کئی گنا بہتر مانا اور گردانا ہے۔ ان کی لکھی ہوئی کتا ب: THE STORY OF A BUREAUCRATکو اپنے ایک محترم استاد کے ہاتھوں میں دیکھا تو بڑی منت و سماجت کے بعد اسے حاصل کر کے بہت تو جہ سے پڑھا۔ بہت عرصہ پہلے اپنی پہلی اشاعت کے بعد یہ کتاب شاید چند لو گوں تک محدود رہی اور دوسری اشاعت نہ ہونے کے کارن کسی اور تک نہ پہنچ سکی۔ سچی بات یہ ہے کہ کتابوں سے ہلکی پھلکی رغبت ہونے کے باوصف، راقم کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اتنی تاریخی نابغہ روز گار شخصیت کی ایسی ضیخیم تاریخی تصنیف موجود ہے ۔
سردار محمد حبیب خان 1915ء میں کھڑک راولاکوٹ کے ایک متمول خانوادے میں پیدا ہوئے۔ اس وقت پونچھ ایک علیحدہ ریاست تھی۔ جموں و کشمیر کے مہاراجہ کا اس پر کوئی خاص کنٹرول نہ تھا، یوں پیر پنجال کے دامن میں آباد یہ منی کشمیر، ریاست پونچھ ، جموں و کشمیر کے باقی علاقوں کے مقابلے میں تعلیمی، معاشرتی اور معاشی لحاظ سے بہت پسماندہ تھی۔ تعلیمی سہولتیں نہ ہو نے کے برابر تھیں۔ صرف دو فیصد لوگ برائے نام ہی خواندہ کہلاتے تھے۔ سردار صاحب کے بقول پوری ریاست پونچھ کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی۔ اگر چہ اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ لیکن ہندو اور سکھ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ جن کے حالات زندگی بھی مسلمانوں سے زیادہ بہتر نہ تھے۔ سردار صاحب نے ابتدائی تعلیم راولاکوٹ سے حاصل کی۔ اس وقت راولاکوٹ میں ایک ہی پرائمری سکول تھا۔ مڈل اور ہائی سکول کی تعلیم صرف پونچھ شہر میں میسر تھی۔ جہاں پر شہر کے باہر کے غیر سکونتی طلبہ کے لئے ہوسٹل کی سہو لت میسر تھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد، انہیں مزید تعلیم کے حصول کے لئے پونچھ شہر میں جانا پڑا جس کا راولاکوٹ سے فاصلہ بتیس کلومیٹر تھا۔ سڑک کا نام و نشان تک نہ تھا۔ یوں یہ سفر انہیں پیدل ہی طے کر نا ہوتا جب وہ اپنے ہم جماعت سردار محمد ابراہیم خان کے ساتھ اختتام ہفتہ یا چھٹیوں میں اپنے آبائی گھر پلٹتے۔ سکول میں تعلیم کے دوران ان کا قیام ہوسٹل میں تھا۔ اس حوالے سے زیر تبصرہ کتاب میں ایک بہت ہی دلچسپ باب اس وقت کے سکول کے حالات زندگی، اساتذہ کرام، ہم مکتب ساتھیوں سے متعلق ہے جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کتاب میں اس وقت کے ریاست پونچھ کے راجائوں کی تعلیمی پالیسی کی ایک جھلک بھی ملتی ہے۔ اس وقت تمام مذاہب کے لو گوں کے لیے ان کے اپنے اپنے ادیان کی تعلیم کے لئے علیحدہ علیحدہ اساتذہ کرام مقرر تھے۔ سردار صاحب نے پہلے ریاستی ثانوی امتحانی بورڈ کے زیر اہتمام، پوری ریاست میں جماعت دہم کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اس سے قبل طلبہ کو میٹرک کا امتحان راول پنڈی جاکر دینا پڑتا تھا۔ طلبہ کو دس دن پہلے ہی چھٹی دے دی جاتی تھی جس میں کم از کم پانچ دن ان کے پیدل سفر میں گزر جاتے تھے۔ یہ سفر معصوم طلبہ کے لیے بہت ہی جانکاہ اور مشکل کام تھا ۔ ازاں بعد سردار محمد حبیب خان نے اسلامیہ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی میں بھی اپنی اعلیٰ تعلیمی لیاقت اور استعداد کا لوہا منوایا اور امتیازی پوزیشن کے ساتھ سکالر شپ بھی حاصل کیا۔ بی ایس سی کے بعد آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی میں ایم ایس سی فزکس میں داخلہ لیا۔ اسی دوران جموں و کشمیر کی حکومت نے مسلمانوں کے لیے محکمہ جنگلات میں دو جر یدہ اسامیوں کا اعلان کیا تو آپ نے اس امتحان میں حصہ لیا اور پہلی پوزیشن حاصل کر کے ریاست پونچھ سے پہلے گزیٹڈ آفیسر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ اسی طرح انہوں نے دھیرہ دھن فارسٹ کالج سے بی ایس فارمسیی میں بھی پورے ہندوستان سے آئے ہوئے طلبہ میں ٹاپ کیا۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ انڈین پبلک سروس کمیشن کوالیفائی کر نے والے جموں و کشمیر کے پہلے فرد ہو نے کے اعزاز کے حامل بھی ہیں ۔
سٹوری آف اے بیوروکریٹ کل 42ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں خاندان، سکول، اسلامیہ کالج لاہور، علی گڑھ یونیورسٹی دھیرہ دھن میں قیام، امریکہ میں تربیت، بطور چیف کنزرویٹر آزاد کشمیر، این ڈ بلیو ایف پی میں بطور چیف کنزریویٹر، چیف کنزرویٹر ملتان ، ڈیویلپمنٹ کمشنر آزاد کشمیر، بطور مشیر گورنر این ڈبلیو ایف پی۔ مشیر صدر آزاد کشمیر، بطور صدر سدھن ایجوکیشن کانفرنس، صدر کے ای ایف کے علاوہ، چند مضامین مسئلہ کشمیر، سیاست اور سیاست دانوں سے متعلق ہیں۔ اس آپ بیتی کے بارے میں یہ بات پورے وثوق اور تسلی سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ صد سالہ حیات مستعار گزارنے والے خطہ پونچھ کے ایک عظیم سپوت کی ایک آپ بیتی سے زیادہ جگ بیتی بلکہ ایک عہد کی تاریخ ہے۔ اس میں تقسیم سے پہلے جموں و کشمیر کے پہلے انتظامی و ریا ستی ڈھانچہ کی کافی زیادہ تفصیلات ملتی ہیں جس سے ہم اس وقت کے غیر منقسم کشمیر اور موجودہ آزاد کشمیر کے درمیان ایک موازنہ کر کے مابعد حالات و احوال کی ایک درست تصویر و تفہیم کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسی قسم کے پیرائے میں وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں:’’ مہاراجہ کشمیر صاف ستھرے اور سر سبز کشمیر کا بہت دلدادہ تھا۔ وہ ویران اور خالی جگہوں پر جنگلات لگوانے میں بہت دلچسپی رکھتا تھا۔ اس دور میں ا گر کسی سڑک کی نکاسی کرائی جاتی تو اس سڑک کے دونوں اطراف میں ایک فر لانگ تک ایک جھاڑی تک کاٹنے کی بھی اجازت نہ تھی اور ساتھ ہی ساتھ نئے درخت بھی لگوائے جاتے تھے۔ سردار صاحب تقسیم کشمیر کے بعد، یہاں کے جنگلات کے ساتھ وسیع پیمانے پر کھلواڑ کا کئی جگہوں پر ذکر کرتے ہوئے بہت آزردہ ہو جاتے ہیں۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے بارے میں وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ بہت لبرل فرد تھا جو جنگلات اور سبزہ کے ساتھ گہری دلچسپی کے ساتھ ساتھ آرٹ موسیقی اور گھڑ سواری کا بھی بہت شوقین و دلدادہ تھا۔
خان صاحب مہاراجہ کشمیر کے انتظام حکومت اور بدعنوانی سے پاک کشمیر کی بھی بہت تحسین کرتے ہیں۔ ایک جگہ رقم طراز ہیں: جموں و کشمیر کے محکمہ جنگلات جس میں وہ ڈی ایف او کے طور پر تعینات تھے وہاں ان کے علاوہ چھتیس جریدہ آفیسرز تعینات تھے۔ ان میں سے چھ آفیسر کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث پائے گئے۔ جن میں پانچ ہندو تھے۔ ان کو جرم ثابت ہونے پر نوکری سے نکال دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ باقی ماندہ ان کے رفقاء کارکو تاحیات ان کے ساتھ ہر طرح کے سماجی تعلق، یہاں تک کہ ان کی غمی و خو شی میں شامل ہو نے سے بھی منع کر دیا گیا۔ تقسیم ریاست کے بعد کشمیر دربار کے جنگلا ت کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا اور اس شعبہ میں کس کس طرح کی بدعنوانیاں در آئیں اور تزویراتی دفاعی نظام کے قیام اور سہولت کے نام پر کس طرح کی غیر ضروری رعائیتں دی گئیں یا دھونس اور ڈنڈے کے زور پر لی گئیں۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )

، اس کی اہم تفصیلات و توضیعات بھی اس سوانح عمری میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جو یقینا بہت چشم کشا اور فکر انگیز ہیں ۔ قصہ کوتاہ یہ کہ یہ بہت ہی اہم تاریخی نگارش ہے۔ کشمیر کے باب میں لکھیں جانے والی چند بہترین اور صف اول کی سوانح عمر یوں میں اس کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب زبان غیر یعنی انگریزی میں لکھی گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کا اردو تر جمہ بھی ہو جائے تو عام لوگ بھی اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں اس اعلیٰ تاریخی تصنیف کو خطہ کشمیر کے تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں ہو نا چاہیے چونکہ یہ ایک تاریخی دستا ویز ہے۔ جس سے ہماری نوجوان نسل کی علم و آگہی ہونا از حد ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button