امریکی انتخابات: ابتدائی ووٹنگ کا رزلٹ آگیا، پروفیسر ایلن لچ مین کی پیشگوئی سچ ہو گئی!
واشنگٹن ( سپیشل رپورٹ فرخ وڑائچ ) امریکی صدارتی الیکشن جوں جوں قریب آرہے ہیں ویسے ہی گہما گہمی اور وہاں کے شہریوں کا جوش و خروش بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں دنیا کے دیگر ممالک بھی اس اہم ترین الیکشن پر نظریں لگائے ہوئے ہیں۔
مختلف سروے کبھی ڈونلڈ ٹرمپ کا پلڑا بھاری دکھاتے ہے تو کبھی کملا ہیرس جیتتی نظر آتی ہیں۔ چنانچہ ایسے میں امریکہ کی ووٹرز بھی کچھ کچھ کنفیوژن کا شکار نظر آتے ہیں۔
ایک طرف کملا ہیرس جو بائیڈن انتظامیہ میں نائب صدارت کے منصب پر فائض ہیں اگر وہ صدر بن جاتی ہیں تو امریکی تاریخ میں پہلی بار کوئی خاتون اس عہدے تک پہنچے گی۔ اور دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ بھی دوسری بار امریکہ کے صدر منتخب ہونے کے لیے خاصے پرامید نظر اتے ہیں۔
بہرحال یہ تو فیصلہ وہاں کے ووٹرز نے ہی کرنا کہ اس بار وہ کسے اپنا صدر منتخب کرتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں 5 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں اب تک7 کروڑ 50 لاکھ (75 ملین) سے زائد ووٹرز نے قبل از وقت ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کرلیا۔
رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف فلوریڈا میں قائم کیے گئے الیکشن لیب کے ڈیٹا کے مطابق 4 کروڑ 10 لاکھ لوگوں نے پولنگ اسٹیشنز پر جا کر اپنا ووٹ دیا جب کہ 3 کروڑ 40 لاکھ لوگوں نے پوسٹل بیلٹ یاای میل ووٹنگ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
سب سے زیادہ نارتھ کیرولائنا میں 54 فیصد ووٹ قبل از وقت کاسٹ ہو چکے ہیں۔جارجیا میں 49 اور ٹینیسی میں 48فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے۔ ٹیکساس اور فلوریڈا میں 46 فیصد ووٹرز نے وقت سے پہلے ووٹ ڈالا۔
دوسری جانب امریکی نیوز چینلز امریکی صدارتی الیکشن پر اپنی خصوصی ٹرانسمیشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اب تک آنے والے ایک اہم سروے کے مطابق کملا ہیرس کا پلڑا ہے اور اس بار انتخابی میدان جیتتی نظر آ رہی ہیں۔ اس طرح پروفیسر ایلن لچ مین کی پیشگوئی درست ثابت ہونے جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ پروفیسر ایلن لچ مین کو امریکی صدارتی انتخابات کا نوسٹراڈیمس کہا جاتا ہے، کیونکہ اُنہوں نے 1984 سے اب تک تقریباً ہر امریکی الیکشن کی بالکل صحیح پیشگوئی کی ہے۔
ایلن لِچ مین تاریخ کے پروفیسر ہیں اور اُن مٹھی بھر لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی بالکل صحیح پیشگوئی کی تھی۔
پروفیسر ایلن لِچ مین نے 120 سال کی امریکی صدارتی تاریخ کی بنیاد پر 1981 میں پیشگوئی کا ایک طریقہ تیار کیا، اِس میں 13 پوائنٹوں کا جائزہ لے کر الیکشن سے پہلے ہی بتایا جا سکتا ہے کہ اگلا صدر کون ہوگا۔
اِن 13 پوائنٹوں میں وائٹ ہاؤس کی پرفارمنس، مڈ ٹرم الیکشن، سیاسی جماعتوں کی اندرونی سیاست، معیشت، خارجہ پالیسی، اسکینڈلز اور اُمیدواروں کی شخصیات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
اِن 13 پوائنٹوں کی بنیاد پر پروفیسر ایلن لِچ مین کو یقین ہے کہ 2024 کا امریکی الیکشن، ڈیموکریٹک پارٹی کی کملا ہیرس جیتیں گی اور وہ امریکی تاریخ کی پہلی خاتون صدر ہوں گی۔
تاہم دونوں صدارتی امیدوار سوئنگ ریاستوں میں بھرپور انٹکابی مہم چلا رہے ہیں اور دونوں ہی تقریباً ایک ہی روز اسی ریاست میں پہنچ جاتے ہیں جہاں دوسرا امیدوار ہوتا ہے، کیونکہ امریکی صدارتی انتخابات میں 7 ریاستوں، ایریزونا، جارجیا، مشیگن، نیواڈا، شمالی کیرولینا، پینسلوینیا اور وسکونسن کا کردار اہم ہوگا۔
ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان سخت مقابلے کا امکان ہے اور یہی ریاستیں فیصلہ کریں گی ملک کا اگلا صدر کون ہو گا۔
ڈیموکریٹک اور ریپبلکن، دونوں جماعتیں سوئنگ اسٹیٹس کہلانے والی ان ریاستوں میں، غیر فیصلہ کن ووٹروں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جن کا ووٹ ان کےلیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
7.4 ملین آبادی والی ریاست ایریزونا، میں الیکٹورل کالج ووٹوں کی تعداد11 ہے۔
ایریزونا کی میسکیکو کے ساتھ ملنے والی سرحد کے سبب امیگریشن اور اسقاط حمل کے حق سے متعلق تنازعات بھی سامنے آچکے ہیں۔
11 ملین آبادی والی ریاست جارجیا کے الیکٹورل کالج کی تعداد 16 ہے۔ جارجیا کی آبادی کا ایک تہائی حصہ افریقی نژاد امریکی ہے، جو ملک کے سیاہ فام باشندوں کے سب سے بڑے تناسب میں سے ایک ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 2020 میں بائیڈن کی اس ریاست میں کامیابی میں اس آبادی کا اہم کردار تھا، کملا ہیرس اس حلقے کو متحرک کرنے کی امید رکھتی ہیں۔
10 ملین آبادی اور 15 الیکٹورل کالج رکھنے والی ریاست مشی گن میں گذشتہ دو صدارتی انتخابات میں جو امیدوار کامیاب ہوا، وہی وائٹ ہاؤس تک پہنچا۔
مشی گن میں عرب نژاد امریکیوں کی آبادی کا تناسب سب سے زیادہ ہے، یہ ریاست غزہ کی جنگ کے دوران اسرائیل کے لیے امریکی صدر کی حمایت پر ملک گیر ردعمل کی علامت بن گئی ہے۔
6 الیکٹورل کالج رکھنے والی ریاست، نیواڈا نے گذشتہ کئی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کو ووٹ دیا ہے، لیکن اس بار یہاں ریپبلکنز کی طرف جھکاؤ کے آثار ہیں۔ دونوں امیدوار ریاست کی قابل ذکر لاطینی آبادی کا اعتماد جیتنے کے لیے کوشاں ہیں۔
16 الیکٹورل کالج رکھنے والی ریاست شمالی کیرولائنا میں کملا ہیرس کی بطور صدارتی امیدوار نامزدگی کے بعد مقابلہ سخت ہو گیا ہے اور کچھ تجزیہ کار اب اسے ’ٹاس اپ‘ سمجھ رہے ہیں۔ شمالی کیرولائنا کی سرحد جارجیا سے متصل ہے اور اس کے کچھ سرفہرست انتخابی خدشات جارجیا اور ایریزونا سے ملتے جلتے ہیں۔
پنسلوانیا میں الیکٹورل کالج کی تعداد 19 ہے، دیگر ریاستوں کی طرح یہاں بھی معیشت سب سے اہم مسئلہ ہے۔
10 الیکٹورل کالج رکھنے والی ریاست وسکونسن میں رائے شماری کے اندازے آزاد امیدوار رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کی خاطر خواں حمایت کا اشارہ دیتے ہیں۔ اس سے ہیرس یا ٹرمپ کے ووٹ کم پڑ سکتے ہیں۔ کینیڈی نے اگست کے اواخر میں اپنی مہم ختم کر کے ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ ٹرمپ نے اس ریاست کو ’بہت اہم‘ قرار دیا ہے۔
واضع رہے کہ امریکہ میں 5 نومبر 2024 کوصدارتی انتخابات ہوں گےیہ امریکہ کی تاریخ میں 60 ویں صدارتی انتخابات ہوں گے،2024 کے صدارتی انتخابات کا فاتح 20 جنوری 2025 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائے گا۔