Column

شرم و حیا

شہر خواب ۔۔۔۔۔
صفدر علی حیدری
حیا کے لغوی معنی وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔ یہ بے شرمی، فحاشی اور بے حیائی کی ضد ہے ۔
حیا سے مراد وہ شرم ہے جو کسی امرِ منکر کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اور خدا کے سامنے محسوس کرتا ہے ۔
امام راغب اصفہانی نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے ’’ حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے‘‘۔
علامہ ابن حجر کے نزدیک’’ حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر اُبھارتا ہے‘‘۔
عام طور پر حیا کو عورت کی صفت سمجھا جاتا ہے لیکن قرآن پاک سے یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ حیا مرد اور عورت دونوں کا یکساں اخلاقی وصف ہے۔ یہ وصف ہمیں پوری آب و تاب کے ساتھ قصہ آدم و حوا میں نظر آتا ہے۔ جب دونوں میاں بیوی نے ابلیس کے دھوکے میں آ کر شجرِ ممنوعہ کا پھل کھا لیا تو ان کا جنتی لباس اتر گیا اور دونوں کو اپنی برہنگی کا احساس ہوا اور اس حالت میں انہیں اور کچھ نہ سْوجھا تو انہوں نے فوراً جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنی شرم گاہیں ڈھانپنے کی کوشش کی ۔
’’ جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو اْن کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے‘‘۔
حجاب کا حکم قرآن حکیم کی سورہ نور کی آیت نمبر 31میں بھی آتا ہے ۔
’’ اے نبی ( صلی اللہ علیہ و سلم ) مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بنائو سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں‘‘۔
تمام انبیائٌ باحیا تھے اور حیا کو پسند کرنے والے تھے۔ انبیاء کرامٌ کی سنتوں سے بھی ہمیں حیا کی تاکید ملتی ہے۔ ہر دور میں اللہ نے اس معاشرے کا سب سے باحیا شخص بطور نبی مبعوث کیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک عظیم پیغمبر تھے جو اللہ سے براہ راست ہم کلام ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں بیان کیا کہ جب موسیٰ ٌ مصر سے نکل کر مدین پہنچے، تب گرمی کا موسم تھا اور ان کے پائوں ننگے تھے، سفر کی تھکاوٹ اور پیدل چل چل کر پائوں میں چھالے پڑ چکے تھے۔ ذرا آرام کرنے کے لیے درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر کنواں ہے، وہاں سے کچھ نوجوان اپنی بکریوں کو پانی پلا رہے ہیں اور ان سے کچھ فاصلے پر دو باحیا لڑکیاں کھڑی ہیں۔ جب آپٌ نے ان کو دیکھا تو حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ یہ دونوں لڑکیاں جنگل میں کھڑی ہو کر کس کا انتظار کر رہی ہیں۔ حضرت موسیٌٰ نے جب وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ ان کا کوئی بھائی نہیں ہے، باپ بوڑھا ہے، وہ اس قابل نہیں کہ چل پھر سکے۔ دونوں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے آئی ہیں کہ جب تمام لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جائیں تو آخر میں یہ اپنی بکریوں کو پانی پلائیں گی۔ حضرت موسیٌٰ ان کی بات سننے کے بعد آگے بڑھے اور خود پانی کنویں سے نکالا اور ان کی بکریوں کو پلا دیا۔ لڑکیاں جب خلاف معمول جلدی گھر پہنچیں تو باپ نے جلدی آنے کی وجہ پوچھی دونوں نے باپ کو پوری حقیقت سے آگاہ کر دیا۔ باپ خود بھی پیغمبرٌ تھے ان فرمایا کہ جائو اس نوجوان کو بلا کر لائو تا کہ ہم اس کو پورا پورا بدلہ دیں۔ جب ایک لڑکی حضرت موسیٰ ٌکو بلانے آئی تو وہ کس طرح آئی اس کا انداز کیا تھا، قرآن نے، اس کے چلنے کا انداز جو شرم و حیا سے لبریز تھا، اس طرح بیان کیا ہے ’’ پھر ان دونوں میں سے ایک شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی اور کہنے لگی کہ میرا باپ آپٌ کو بلاتا ہے تاکہ وہ بدلہ دے جو آپٌ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔ جب حضرت موسیٰ ٌ ان کے پاس پہنچے اور ان سے اپنا سارا حال بیان کیا تو وہ کہنے لگے اب نہ ڈر تو نے ظالم قوم سے نجات پائی‘‘۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے ’’ پہلی شے جسے اس امت سے اٹھا لیا جائے گا وہ حیاء اور امانت ہے پس تم ان دونوں چیزوں کا اللہ تعالیٰ سے سوال کرو!‘‘۔
یقینا وہ دور آچکا ہے ، شرم و حیاء اٹھ چکی ہے، اسلام کے جس کا مزاج و مدار ہی حیاء تھا، آج اس کے ماننے والے اسی وصفِ حیاء سے عاری ہوتے چلے جاتے ہیں ۔
نبی پاکؐ کا فرمان ذی شان ہے’’ بے شک ہر دین کا ایک خُلُق ہوتا ہے اور اسلام کا خُلُق شرم و حیاء ہے‘‘۔
پس ہمیں وصفِ حیاء سے خود کو متصف کرنا پڑے گا نیز شرم و حیاء کا یہ پیغام حسبِ طاقت و منصب پھیلانا ہوگا ورنہ کہیں ایسا نہ ہو بے شرمی و بے حیائی کے اس طوفان میں متاعِ ایمان ہاتھ سے نکل جائے، حضرت ابو موسیٰ ؓبیان کرتے ہیں: ’’ حیاء اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے جب جاتے ہیں تو دونوں ساتھ جاتے ہیں‘‘۔
ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ حیاء اور ایمان دونوں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں، ان میں سے اگر ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا خود بخود اٹھ جاتا ہے‘‘، یعنی ایمان و حیاء لازم و ملزوم ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہی: ’’ ہر دین کا کوئی نہ کوئی امتیازی وصف ہے اور دین اسلام کا امتیازی وصف حیاء ہے‘‘۔
ہمارے رسولؐ اللہ کے بارے میں حضرت ابوسعید الخدریؓ سے روایت ہے ’’ رسولؐ اللہ تخلیہ میں بیٹھی ایک کنواری دوشیزہ سے بھی کہیں بڑھ کر صاحبِ حیا تھے۔ حضورؐ کو جب کوئی چیز ناگوار گزرتی تو ہم آپ ؐ کے چہرے سے بھانپ لیا کرتے تھے‘‘۔
عفت و پاک دامنی حیا کے سبب سے ہے۔ گویا اس کا لازمہ ہے۔ بلاشبہ حیاء وہ عمدہ اخلاق ہے جو انسان کو ہر برائی سے باز رکھتا ہے ۔ گناہ کی راہ میں حائل ہو کر آدمی کو برائی میں گرنے سے بچاتا ہے۔ اسلام کا عملاً دارو مدار حیاء پر ہے کیوں کہ وہی ایک ایسا قانون شرعی ہے جو تمام افعال کو منظم اور مرتب کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کرامٌ نہ صرف خود حیاء دار اور با اخلاق تھے بلکہ انہوں نے ان پر بہت زور دیا ہے۔ یہ واقعہ ہے جس میں جن و انس کے تمام شیاطین مل کر بھی تبدیل نہیں کر سکتے۔ جس میں حیاء ہوتی ہے اس میں نیکی کے تمام اسباب موجود ہوتے ہیں اور جس شخص میں حیاء ہی نہ رہے اس کے نیکی کرنے کے تمام اسباب معدوم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کیوں کہ حیاء انسان اور گناہ کے درمیان میں حائل ہونے والی چیز ہے۔ اگر حیاء قوی ہے تو گناہ کی قوت ماند پڑ جائے گی۔ اور اگر حیاء کمزور پڑ جائے تو گناہ کی قوت غالب آ جاتی ہے ۔
حیا ایمان سے جْڑ کر حلال و حرام کی تمیز پیدا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں سے منع کیا ہے، اْن کے کرنے سے روکتی اور جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا، ان کو بجا لانے کی تحریک دیتی ہے۔ جب یہ شعور کی روشنی بنتی ہے تو اس سے اللہ کی وحدانیت کا احساس مضبوط ہوتا ہے ۔ ایمان باللہ کو تقویت ملتی ہے، تَعَلْق بِاللّٰہ میں مضبوطی آتی ہے اور باطن سے حب اللہ کی شعاعیں پھوٹتی ہیں ، توکل علی اللہ کی خاصیت اجاگر ہوتی ہے۔ دُکھ، خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جب کہ شَرْم و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان میں پایا جاتا ہے اور یہ جانور اور انسان کے درمیان میں وجہِ امتیاز اور ان دونوں میں فرق کی بنیادی علامت ہے ۔ اگر لب و لہجے ، حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بہ خود پانی پھر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وَقعت کھو دیتے ہیں۔ جب تک انسان شرم وحیا کے حصار ( دائرے) میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اِس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے ۔
اسی لیے تو جناب ختمی مرتبت نے فرمایا ہے ’’ جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر‘‘۔
حضرت عبد اللہ بن جعفر سے سوال کیا گیا’’ اے ابو جعفر! عیش کسے کہتے ہیں؟‘‘، آپ نے جواباً فرمایا: ’’ نفسانی خواہش کا انسان پر سوار ہو جانا اور انسان کا حیاء کو ترک کر دینا‘‘۔
وہب بن منَبَّہ علیہ الرحمہ نے جو بات ارشاد فرمائی تھی ان کے اس قول کو ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی بے شرمی اور بے حیائی کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو مستقبل کے حوالے سے مایوسی نظر آتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ناجائز صنفی تعلقات کو روکنے کے لیے عورتوں اور مردوں کے درمیان میں حجابات حائل کرنا اور معاشرت میں اْن کے آزادانہ اختلاط ( میل جول) پر پابندیاں عائد کرنا دراصل اْن کے اخلاق اور اْن کی سیرت پر حملہ ہے۔ اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ گویا تمام افراد کو بدچلن فرض کر لیا گیا ہے اور یہ کہ ایسی پابندیاں لگانے والوں کو نہ اپنی عورتوں پر اعتماد ہے نہ مردوں پر۔ بات بڑی معقول ہے مگر اسی طرز استدلال کو ذرا آگے بڑھائیے۔ ہر تالا جو کسی دروازے پر لگایا جاتا ہے گویا اس امر کا اعلان ہے کہ اس کے مالک نے تمام دنیا کو چور فرض کر لیا ہے۔ ہر پولیس مین کا وجود اس پر شاہد ہے کہ حکومت اپنی تمام رعایا کو بدمعاش سمجھتی ہے۔ ہر لین دین میں جو دستاویز لکھوائی جاتی ہیں، وہ اس امر پر دلیل ہے کہ ایک فریق نے دوسرے فریق کو خائن قرار دیا ہے۔ اس طرز استدلال کے لحاظ سے تو آپ ہر لمحے چور، بدمعاش، خائن اور مشتبہ چال چلن کے آدمی قرار دئیے جاتے ہیں، مگر آپ کی عزتِ نفس کو ذرا سی بھی ٹھیس نہیں لگتی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ صرف اسی ایک معاملہ میں آپ کے احساسات اتنے نازک ہو گئے ہیں؟
’’ جب بچے میں دو عادتیں ہوں خوف اور شرم و حیائ، تو اس کی ہدایت کی امید کی جا سکتی ہے‘‘۔
مولا علیؓ فرماتے ہیں ’’ حیاء و صبر سے بڑھ کر کوئی ایمان نہیں ‘‘۔ ’’ جس پر حیا نے اپنا لباس پہنا دیا ہے اس کے عیب لوگوں کی نظروں کے سامنے نہیں آ سکتے ‘‘۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا نے ہمارے اخلاقیات کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے ۔ گھر کے بڑے بھی اتنی مصروف ہو گئے ہیں ان کو یہ یاد ہی نہیں رہا کہ انھیں بچوں کی تربیت کرنا تھی ۔ وہ خود فیس بک وٹس ایپ ٹوئٹر انسٹا گرام وغیرہ پر مصروف ہیں ۔
ایک عربی کہاوت یاد آتی ہے ’’ جب گھر کا بڑا ( بزرگ) طبلہ بجا رہا ہو تو اولاد کو رقص کرنے پر ملامت نہیں کرنی چاہیے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کو سفید بالوں سے حیا آتی ہے۔
خدا کرے کہ ہمیں بھی اپنے سفید بال دکھائی دے جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button