کبھی ہنس بھی لیا کیجیے
تحریر: رفیع صحرائی
ہر انسان کے نصیب میں کمینے دوست ہی کیوں ہوتے ہیں؟ اس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے اپنے گوڑھے سجن شکیل علوی سے یہی بات پوچھی۔ کہنے لگا، ’’ ہاں یار ٹھیک کہتے ہو۔ کبھی کبھی میں بھی یہی سوچتا ہوں کہ سارے کمینے میرے اردگرد ہی اکٹھے کیوں ہو گئے ہیں‘‘۔
ہمارے ارد گرد کے علاوہ وجود کے اندر بھی اس قدر حبس ہو گئی ہے کہ تازہ ہوا کے جھونکوں کی اشد ضرورت ہے۔ ہر بندہ ٹینشن، ڈپریشن، انگزائیٹی اور گھٹن کا شکار ہے۔ ایسے میں تھوڑی سی ہنسی، ٹھنڈی ہوا کا معمولی سا جھونکا بھی تازگی کا احساس دلاتا ہے۔ اسی لیے آج کا کالم کسی گمبھیر مسئلے کی نشاندہی کی بجائے اِدھر اُدھر کی حماقتوں کو اکٹھا کر کے آپ کے چہرے پر ہنسی لانے کی کوشش ہے کہ ’’ ہنسی علاجِ غم ہے‘‘۔
ابھی سوچ ہی رہا تھا، کہاں سے شروع کروں کہ شکیل علوی کا فون آ گیا۔
’’ کیا حال ہے؟‘‘
’’ یار میں سخت ڈپریشن میں ہوں‘‘
’’ اچھا آ آ آ۔۔۔۔ ذرا ڈپریشن کے سپیلنگ تو بتائیں‘‘، اس نے اچھا کو لمبا کھینچتے ہوئے کہا۔ اب میں سر کھجا رہا تھا اور وہ قہقہے لگا رہا تھا۔ مخولیا کہیں کا۔
بات مخول کی طرف چل نکلی تو آئیے کچھ مزید مخولیا باتوں پر ’’ کچّا ہاسا‘‘ ہنستے ہیں۔
آفس سے تھکی ہاری خاتون چھٹّی کے بعد گھر جانے کے لئے بس میں سوار ہوئی اور سیٹ پر بیٹھ کر آنکھیں موند کر تھوڑا سا ریلیکس کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ ابھی بس چلی ہی تھی کہ اگلی قطار میں بیٹھے ایک صاحب نے اپنا موبائل نکالا اور اونچی آواز میں گفتگو شروع کر دی۔ اُن کی گفتگو کچھ اس طرح سے تھی:
’’ جان میں شیدا بول رہا ہوں، بس میں بیٹھ گیا ہوں اور گھر ہی آ رہا ہوں۔ ہاں ہاں مجھے پتہ ہے کہ سات بج رہے ہیں پانچ نہیں۔ بس ذرا آفس میں کام زیادہ تھا اس لئے دیر ہو گئی‘‘
’’ نہیں جان، میں شازیہ کے ساتھ نہیں تھا، میں تو باس کے ساتھ میٹنگ میں تھا‘‘۔
’’ نہیں جان، صرف تم ہی میری زندگی میں ہو‘‘۔
’’ ہاں قسم سے‘‘۔۔۔
اس اونچی آواز میں مسلسل گفتگو سے خاتون کا سارا ریلیکس کرنے کا پروگرام غارت ہو چکا تھا اور وہ بہت ان ایزی محسوس کر رہی تھی۔ کافی دیر بعد تک بھی جب یہ سلسلہ جاری رہا تو خاتون کی ہمت جواب دے گئی۔ وہ اٹھی اور فون کے پاس جا کر زور سے بولی۔
’’ شیدے ڈارلنگ، فون بند کرو، بہت ہو چکا۔ اس پاگل عورت کو کتنی صفائیاں دو گے؟‘‘۔
اب شیدے میاں ہسپتال سے واپس آ چکے ہیں، لیکن پبلک مقامات پر انہوں نے موبائل کا استعمال مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔
عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ بھی عقلمند ہیں۔ اس امید کو یقین میں بدلنا آپ کا کام ہے۔ چلیے اگلی مخولیا بات کی طرف بڑھتے ہیں۔
کسی گاں کے چودھری کا انتقال ہو گیا۔ مرنے والے میں ساتوں شرعی عیبوں کے علاوہ چودہ غیر شرعی عیب بھی تھے۔ تدفین کے بعد جب گائوں کے لوگ ’’ پھوڑی‘‘ پر بیٹھے تو مولوی صاحب نے رسمِ دنیا کے مطابق بات شروع کرتے ہوئے کہا: ’’ اللہ چودھری صاحب کی مغفرت کرے، مرحوم۔۔۔۔‘‘
اس کے بعد ان کی زبان رک گئی، ذہن سوچنے لگا کہ مرحوم کی کیا خوبی بیان کروں کیونکہ خوبی تو کوئی تھی ہی نہیں۔ انہیں خاموش دیکھ کر ایک اور زمیندار بولا: ’’ رب سوہنا چودھری ہوراں نوں بخشے۔۔۔۔‘‘
اس کے بعد اس بیچارے کو بھی سمجھ نہ آئی کہ کیا کہوں۔
اتنے میں گائوں کے پرائمری سکول کے واحد ماسٹر صاحب نے کھنکار کر گلا صاف کیا:’’ یہ دنیا فانی ہے، سب نے اک روز چلے جانا ہے۔ آج چودھری صاحب بھی چلے گئے۔ مرحوم بہت۔۔۔۔‘‘
یہاں پہنچ کر ماسٹر صاحب کو بھی چپ لگ گئی۔ چودھری کا بڑا بیٹا یہ دیکھ کر بہت پیچ و تاب کھا رہا تھا لیکن خود اسے بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ابا جی کی کیا خوبی بیان کی جائے۔ ناچار اس نے گائوں کے نائی کو گھور کر دیکھا اور آنکھ سے اشارہ کیا کہ تم ہی منہ سے کچھ پھوٹو۔۔۔۔۔
بیچارہ نائی بھی سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کہوں؟
آخر کار اس نے چودھری کے بیٹے کے پائوں پکڑ لیے اور بولا: ’’ رب سوہنا وڈے چودھری صاحب کی بخشش کرے۔ اوناں دیاں مُچھاں دے وال زیادہ سخت نئیں سن‘‘۔
اب اگر آپ نائی سے مراد پی ٹی آئی کے ورکرز، جیالے، متوالے، پارلیمانیے، صدارتیے، اسٹیبلشیے اور ق لیگیے لیتے ہیں تو آپ کی مرضی، ہم نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔
بابو صاحب کنڈکٹر کو کرایہ دینے کے لیے سائیڈ جیب میں ہاتھ ڈالنے لگے تو ساتھ بیٹھے اجنبی نے ان کا ہاتھ سختی سے پکڑتے ہوئے کہا: ’’ نہیں بابو صاحب! آپ کا کرایہ میں دیتا ہوں‘‘۔
بابو نے بہت کہا کہ وہ اپنا کرایہ خود دے گا لیکن اجنبی بہت مہربان ہو رہا تھا۔ اس نے زبردستی کرایہ کنڈکٹر کو دے دیا۔ اگلے سٹاپ پر اجنبی اتر گیا۔ بابو نے کسی چیز کو نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو سر تھام کر بیٹھ گیا۔ اجنبی نے اس کی جیب کا صفایا کر دیا تھا۔
دوسرے دن وہ چور بازار میں بابو کے ہتھے چڑھا تو بابو کو گلے لگا کر رونے لگا۔ ’’ بابو صاحب! مجھے معاف کر دو۔ آپ کی جیب کاٹنے کے بعد میری بیٹی مر گئی‘‘۔
بابو نے نرم دلی سے اسے معاف کر دیا۔ چور چلا گیا لیکن گلے ملتے وقت اس نے پھر بابو کی جیب کا صفایا کر دیا تھا۔
چند دن بعد بابو صاحب موٹر سائیکل پر کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں اس چور نے انہیں روکا، روتے ہوئے معافی مانگی اور سارے پیسے بابو صاحب کو لوٹا دئیے۔ پاس کی دکان میں لے جا کر بابو کو کولڈ ڈرنک کی بوتل پلانے کے بعد چلا گیا۔
بابو خوشی خوشی جب اپنی موٹر سائیکل والی جگہ پر آیا تو دیکھا کہ اس بار چور اس کی موٹر سائیکل لے گیا تھا۔
ارے۔۔۔۔! آپ ہنس کیوں رہے ہیں؟۔ کیا آپ کو ہمارے حکمران یاد آ گئے ہیں؟۔ جن پر آپ بار بار اعتماد کرتے ہیں اور ہر بار وہ آپ کو نئے نئے طریقوں سے لوٹتے ہیں۔