آئین و قانون پسند۔ مرد قلندر
محمد مبشر انوار
کسی بھی چھوٹے آدمی کی پہچان بالعموم اس کا رویہ ہی ہوتا ہے کہ ذاتی مفادات کے لئے ،ذلالت و پستی کی کسی بھی حد تک گر جاتا ہے، اصول و ضوابط کو روندنے میں قطعا عار محسوس نہیں کرتا،ایسے شخص عام زندگی میں انفرادی سطح پر لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ مقام و مرتبہ حاصل ہو جائے تو ملک و قوم کو شدید نقصان سے دوچار کرتے ہیں۔ دوسری طرف ’’ بڑا آدمی‘‘ ذاتی خواہشات کا اسیر نہیں ہوتا بلکہ اس کی ذات سے عمومی زندگی میں لوگ مستفید ہوتے ہیں اور اگر ایسا کوئی ’’ بڑا آدمی‘‘ مقام و مرتبے سے سرفراز ہو،تو اس سے مستفید ہونے والوں میں ملک و قوم شامل ہوتے ہیں۔بڑے آدمی کی نظر خال ہی کسی مقام و مرتبہ پر ہوتی ہے البتہ نظام میں رہتے ہوئے اگر اپنے وقت پر ،جو اس کا حق ہوتا ہے،ارباب اختیار کے مذموم مقاصد کی بھینٹ چڑھ کر،اگر مقام و مرتبہ نصیب نہ ہو تو اس پر واویلا کرتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ انتہائی وقارو متانت و سنجیدگی سے اس پر اپنا ردعمل دے کر،اپنا نام امر کروا لیتا ہے گو کہ ایسا ردعمل دینا بسا اوقات بڑے آدمی کے لئے بھی بہت مشکل ہوتا ہے لیکن یہی ردعمل اسے ’’ بڑا آدمی‘‘ بناتا ہے۔سید منصور علی شاہ ،دور حاضر میں ایسے ہی ایک ’’بڑے آدمی‘‘ کی پہچان بن کر ابھرے ہیں گوکہ ان کی شخصیت کا یہ رخ میرے لئے قطعا نیا نہیں کہ انہیں ایک عرصہ سے جانتا ہوں،ان کے مزاج سے آشنائی رکھتا ہوں،یہ بھی جانتا ہوں کہ عدلیہ میں شامل ہوتے وقت ان کے عزائم کیا تھے،جن میں اعلی ترین منصب کاحصول قطعا شامل نہیں تھا ماسوائے کہ اس منصب پر سرفراز ہو کر،وہ اپنی نیت اور وژن کے مطابق ملک وقوم کی بہتری اور بہترین نتائج دینے کی تمنا و آرزو رکھتے تھے۔ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار کماحقہ ادا کرنا چاہتے تھے لیکن ’’ کٹھ پتلی‘‘ارباب اختیار میں اتنا دم خم نہیں کہ ایک ایسے ’’ بڑے آدمی‘‘کو اس کا حق دے سکتے۔میری نظر میں تقریبا تمام سیاسی جماعتیں،سید منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری سے قطعا خوفزدہ نہیں تھی کہ انہیں بخوبی علم ہے کہ سیدمنصور علی شاہ کا کوئی سیاسی ایجنڈا کبھی بھی نہیں رہا اور وہ صرف آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور حقیقتا یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ عدلیہ میں وہ ایک ایسے جج کی حیثیت میں معروف ہیں کہ جو خود نہیں بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں۔اس وقت میڈیا پر یہ پراپیگنڈہ تواتر سے کیا یا کروایا جا رہا ہے کہ سید منصور علی شاہ کا جھکاؤ تحریک انصاف کی طرف ہے،جو صریحا جھوٹ پر مبنی ہے،ماضی میں سید منصور علی شاہ کے کئی ایسے فیصلے موجود ہیں کہ جس میں انہوں نے ن لیگ سمیت کئی دیگر سیاسی جماعتوں کے حق میں فیصلے دئیے ہیں،تو موجودہ صورتحال میں آئین و قانون کے مطابق جو انصاف ،تحریک انصاف کے لئے بنتا ہے،سید منصور علی شاہ نے آئین و قانون کے مطابق ان کا حق انہیں دیا ہے۔تاہم سید منصور علی شاہ کے ایسے فیصلے ،پس پردہ قوتوں کے اپنے منصوبوں سے میل نہیں کھاتے،ان سے خواہش ملاقات کی کہانی بھی میڈیا کی زینت بن چکی ہے،کہ جس سے انکار کی پاداش میں انتہائی عجلت اور بدنیتی میں 26ویں آئینی ترمیم منظور کروائی گئی،اس سے قبل فارم 47کے وزیر دفاع سے اس موقف کا اظہار کروایا گیاکہ سید منصور علی شاہ کے چیف بننے سے موجودہ حکومت کی دھڑن تختہ ہو سکتا ہے،سید منصور علی شاہ پر دباؤ بڑھایا گیا کہ کسی طرح وہ اس دباؤ میں آکر ملاقات کر لیں لیکن منصور صاحب اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ایک ایسا ’’بڑا آدمی‘‘ایسے بڑے منصب کے لئے کس طرح موزوں ہو سکتا ہے جو اس منصب کے لئے سوائے اللہ کے حضور کہیں اور سجدہ ریز ہونے کے لئے تیار نہ ہو؟زمینی خداتو ایسے بڑے منصب کے لئے کسی ایسے ’’چھوٹے آدمی‘‘ کی تلاش میں رہتے ہیں جو زمینی خدا کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو جائے،بڑے منصب کے لئے ہر حد سے گزر جانے کے لئے دل و جان سے تیار ہو،جس کے لئے اپنے اور آقائوں کے مفادات،ملک وقوم کے مفادات پرمقدم ہوں،جیسا سابقہ چیف جسٹس کا کردار رہا ہے۔
سید منصور علی شاہ کی شخصیت اپنے اجلے پن کے باعث ان خرافات کا حصہ نہیں بن سکتی تھی ،بس اتنا عرض کردیتا ہوں کہ عدلیہ میں شامل ہونے سے پہلے ہی ان کی شخصیت سے ایک زمانہ ہر لحاظ سے مستفید ہوتا رہا ہے،جو جج بننے کے بعد بھی جاری رہا ہے۔انتہائی ملنسار،غمگسار،مخلص،سخی ،انتہائی پروفیشنل ،بااصول اور اعلی ظرف انسان،جس سے نہ صرف سیکھنے کا موقع میسر رہتا ہے بلکہ موجودہ مادہ پرست دورمیں انسان پرور شخصیت کی حقیقی تصویر سید منصور علی شاہ کی صورت میں موجود ہے،ان کا حلقہ احباب ان کی ان صفات کے باعث انہیں ’’ پارس پتھر‘‘کا لقب دیتا ہے۔ آئین و قانون کے پابند،اپنے ہر فیصلے میں آئین و قانون کی تشریح کرتے دکھائی دیتے ہیں،عدالت میں دوران سماعت ،ان کا محور و مرکز صرف اورصرف مقدمہ سے متعلق،شاذ ہی کہیںمقدمہ سے ہٹ کر کوئی گفتگو نظر آتی ہو،کہیں کوئی رائے دی بھی تو اخلاق کے اندر رہتے ہوئے،اخلاق سے گری ہوئی بات ان سے منسوب نہیں ملتی۔افسوس اس امر کا ہے کہ اس وقت ن لیگ کے کارکنان کی جانب سے سید منصور علی شاہ کے خلاف انتہائی گرا ہوا پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے ،جو سیاسی میدان میں صرف اور صرف ن لیگ کا ہی خاصہ ہے کہ وہ اپنے مفادات کے حصول میں کسی بھی حد سے گزرجاتی ہے،وگرنہ یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں انتظامی امور کے حوالے سے منصور علی شاہ کے کئی ایک فیصلوں نے ن لیگ کی قیادت کو شرمندگی،رسوائی وخفت سے بچا رکھا ہے اور لیگی قیادت کو اس کا بخوبی احساس بھی ہے لیکن کارکنان کو نجانے کس نے اور کیوںبھڑکا رکھا ہے؟؟
سید منصور علی شاہ نے بطور سینئر پیونی جج اپنے چند خطابات میں واضح طور پر اپنی آئین و قانون پسندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ آئین میں جو کچھ لکھا ہے،وہ اس پر عمل درآمد کے پابند ہیں اور اسی کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیں گے،اس سے باہر کسی صورت نہیں جائیں گے۔ اپنے دائرہ کار میں نہ کسی کو آنے دیں گے اور نہ اپنی حدود سے تجاوز کریں گے جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ بلاوجہ کسی کی مدد آئین و قانون سے باہر نکل کر نہیں کریں گے،جو یقینی طور پر نظام چلانے والوں کے لئے قابل قبول نہیں،لہذا سید منصور علی شاہ ،ایک ’’ بڑے آدمی‘‘ کو ایک ’’ بڑے منصب‘‘ کے لئے اہل نہیں سمجھا گیا،اس کی آئین و قانون پسندی کو اسی کے خلاف 26ویں آئینی ترمیم کرکے استعمال کر لیا گیا۔ اس آئینی ترمیم کے ہنگام اور سابق چیف جسٹس کے آخری ایام میں جو صورتحال رہی،اس میں اپنے دیگر ساتھی ججز کے ساتھ مل کر،انہونی کر سکتے تھے گوکہ ایسا کوئی بھی اقدام آئین کے اندر رہتے ہوئے ہی ہوتا، لیکن جب تک سابق چیف جسٹس موجود رہے،سید منصور علی شاہ نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایامبادا کوئی غلط روایت ان سے منسوب نہ ہوجائے۔ آئین و قانون کی پاسداری کی اس سے زیادہ اور مثال کیا ہو سکتی ہے کہ پارلیمان نے صریحا بدنیتی پر مبنی آئینی ترمیم منظور کی،نیا قانون بنا،سید منصور علی شاہ سے ان کا حق چھین لیا گیااور یہ حق چھیننے میں بڑے منصب پربراجمان ایک انتہائی چھوٹا شخص ،مکروہ اور گھنائونے انداز میںپیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے پایا گیا ، جس کے ساتھ منصور علی شاہ انتہائی مشکل وقت میں شانہ بشانہ کھڑے تھے ، جبکہ عدلیہ سے باہر بھی کئی ایک احباب نے اپنی سیاسی وابستگیوں کے باعث اسی کردارکا مظاہرہ کیا،لیکن سید منصور علی شاہ نے آئین و قانون کے سامنے سرتسلیم خم کیا،اپنی ’’ ڈائری‘‘ اٹھائی اور عمرہ کی ادائیگی کے لئے حرمین کا قصد کیا۔
حرم مدینہ میں، جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا،گو کہ برادرم عمران ریاض بھی اپنے وی لاگ میں اس کا تذکرہ کر چکے ہیں لیکن جو تصویر انہوں نے اپنے وی لاگ میں دکھائی وہ حرم مکہ کی ہے،اورجو میں نے مدینہ میں دیکھا،قارئین کی نذر کرتا ہوں۔چند سال قبل،حرم مدینہ میں ہی ن لیگی اکابرین کے ساتھ جو کچھ ہوا،اور جس طرح پاکستانیوں کو سعودی حکومت نے ملک بدر کیا،اس کے متعلق سب جانتے ہیں کہ حفاظتی حصار کے باوجودن لیگی اکابرین کو یہ سب جھیلنا پڑا،جو آج بھی جاری ہے اس ’’ خصوصی سلوک‘‘ میں دو اور کرداروں کا اضافہ ہو چکا ہے،جنرل باجوہ اور قاضی فائز عیسیٰ ،جبکہ ایک تیسرے کردارکی مستقبل قریب میں شمولیت بھی ممکن ہے،بہرحال جس نے جو بویا ہے وہ کاٹنا ہی پڑے گا۔سید منصور علی شاہ کے ساتھ جو عوامی سلوک میں نے بچشم خود دیکھا،وہ رقم کررہا ہوں،بغیر کسی پروٹوکول، ایک عام شخص کی طرح قیام پذیر رہے، لیکن آفرین ہے پاکستانیوں پر، جنہوں نے عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کئے۔ قحط الرجال میں ہر وہ شخص جس نے نظام کی چیرہ دستی کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا، اسے عوام نے اپنی پلکوں پر جگہ دی، خواہ وہ ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا جسٹس افتخار چودھری ہوں یا ’’قطعا نہیں‘‘ کے عمران خان یا آج سید منصور علی شاہ، ایک رحمدل حکمران، ایک عادل منصف،کو کسی پروٹوکول یا حفاظتی حصار کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی جس کا مظاہرہ اپنی آنکھوں سے کر چکا ہوں۔ پاکستانی عوام کہیں منصور علی شاہ کو اپنا فخر قرار دے رہی ہے تو کہیں انہیں فخر پاکستان کا نام دیا جا رہا ہے، ایسی عزت، ایسی رفعتیں یقینی طور پر ایک ’’ بڑے آدمی‘‘ کو ہی زیبا ہیں اور اللہ رب العزت نے تو کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ ’’ وتعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر‘‘ اختیار تو انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس راستے کو پسند کرتا ہے۔ جرمنی سے ایک جوڑا، منصور صاحب سے ملاقات کی خواہش لے کر حرمین پہنچا اور ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرتا نظر آیا، فرانس سے آئے ایک جوڑے کی بھی یہی روداد ہے، جن ہوٹلز میں قیام پذیر ہوئے، ہوٹل کا پاکستانی سٹاف بچھا بچھا جاتا تھا، ایک تصویر کے لئے ملتمس دکھائی دیتا اور تصویر لینے کے بعد انتہائی ممنون، ریسٹورنٹ میں ایک جوڑے نے کھانے کے لئے منتظر دیکھ کر اپنی میز چھوڑنے کا کہا، جسے منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے انکار کر دیا تاہم اس جوڑے نے اپنی میز کسی اور کو دینے کی بجائے منصور علی شاہ صاحب کو پیش کی ( یہاں یہ عرض کر دوں کہ حرمین میں کھانے کے اوقات میں رش کے باعث انتظامیہ کے پاس وافر جگہ نہیں ہوتی اور زائرین اپنی باری کے لئے چھینا جھپٹی کرتے دکھائی دیتے ہیں)، اسی طرح روضہ رسولؐ پر حاضری کے لئے جاتے ہوئے ایک نوجوان جو الخبر میں انجینئرنگ کا طالبعلم ہے، انتہائی جھک کر no politicsکہتے ہوتے مصافحہ کیا اور تصویر کھنچوائی، چند قدم پر باب سلام سے داخل ہوتے وقت، منصور صاحب سے ملتمس ہوا کہ اپنی چپل مجھے پکڑا دیں، جس پر منصور صاحب نے مسکراتے ہوئے انکار میں سر ہلادیا اور میں نے اس اس نوجوان سے کہا کہ اگر یہ ممکن ہوتا تو اس کا حقدار مجھ سے زیادہ کون ہوتا لیکن منصور صاحب نے میری اس حسرت کو پوری نہ ہونے دیا۔
صد افسوس ! کہ پاکستانی نظام حکومت نے ضد وانا سے مجبور ہو کر، صریحا بدنیتی پر مبنی 26ویں آئینی ترمیم کرکے پاکستانی عدلیہ کو ایک آئین و قانون پسند ’’ مرد قلندر‘‘ سے محروم کر دیا کہ جس کے منصب پر سرفراز ہونے سے منصب کی توقیر بڑھتی، ایک ’’ مرد قلندر‘‘ سے پاکستان اور عدلیہ بھرپور مستفید ہونے سے محروم رہ گئی۔