ColumnImtiaz Aasi

ضمیر کے سوداگر

امتیاز عاصی
ملکی سیاست میں بعض سیاسی رہنمائوں کا ضمیر کے سودے کرنے کا آغاز 1985ء کے بعد ہوا جب ارکان اسمبلی کو چھانگا مانگا لے جا کر رکھا گیا جس کے بعد ضمیر فروشی کا یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں مال و دولت کی دوڑ نے اچھے اور برے کی تمیز ختم کر دی ہے۔ مملکت پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور نوابزادہ لیاقت علی خان جیسے رہنمائوں نے مسلمان مملکت کے لئے اپنی بڑی بڑی جائیدادیں چھوڑ کر ہجرت کی۔ قائد ایسے رہنما سرکاری خزانے کے پیسوں سے چائے کی پیالی پینے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ بدقسمتی سے آج ہمیں ایسے سیاست دانوں سے پالا پڑا ہے جو چائے کی پیالی اپنی جیب سے پینے کو تیار نہیں۔ روپیہ پیسہ انسانی ضرورت ہے جس کے بغیر گزارا ممکن نہیں امیر سے امیر تر بننے کی دوڑ نے انسانی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ تاسف ہے سیاست دان حلف اقتدار سنبھالتے وقت مملکت اور آئین سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں لوٹ مار کے نتیجہ میں بیرون ملک اکائونٹس اور جائیدادیں خریدتے ہیں حلف سے روگردانی نہیں تو اور کیا ہے۔ کرپشن میں ملوث سیاسی رہنمائوں کے خلاف مقدمات بنتے ہیں قوانین میں ترمیم کے بعد ختم ہو جاتے ہیں۔ سیاست دانوں نے ملک کے عوام سے ڈرامہ لگایا ہوا ہے۔ ایک حکومت اقتدار میں آتی ہے جانے والوں کے خلاف مقدمات بن جاتے ہیں کرپشن میں ملوث سیاست دان اقتدار میں آکر اپنے خلاف مقدمات کا خاتمہ کرا لیتے ہیں ۔1985ء کے بعد ریاست پاکستان میں کرپشن کا جو طوفان آیا ختم ہونے میں نہیں آرہا ہے۔ حالیہ آئینی ترامیم کے دوران ارکان اسمبلی و سینیٹ سے سوداگری ہوئی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آئین کی جن شقوں میں ترامیم کا مجوزہ ڈرافٹ تیار کیا گیا جے یو آئی نے بعض شقوں کے خلاف آواز بلند کی۔ جمہوریت کی دعویٰ دار پیپلز پارٹی جیسی نے من و عن آئینی ترامیم کے حق میں سر تسلیم خم کیا۔ مسلم لیگ کی بات چھوڑیں جس پارٹی کی بنیاد آمریت کے دور میں رکھی گئی ہو ایسی جماعت سے جمہوریت کی توقع رکھنا عبث ہے۔ ایک خبر میں مولانا فضل الرحمان نے اس بات کا اعتراف کیا ہے آئینی ترامیم کے دوران گیارہ ارکان اسمبلی کے ووٹ خریدے گئے جو اس امر کی واضح نشاندہی ہے نام نہاد جمہوری حکومت میں ارکان اسمبلی کے ضمیروں کی سوداگری جاری ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے غریب عوام اپنے نمائندوں کو محض اس لئے ووٹ دیتے ہیں وہ منتخب ہونے کے بعد ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے گے اپنے لے مال و دولت جمع کرنے کی دوڑ میں لگے ہیں۔ ہم یہ تو نہیں کہتے ان تمام ارکان نے اپنے ضمیر کا سودا کیا ہوگا ا س بات کا قوی امکان ہے بعض ارکان کے زور اور دھونس نے پیش نظر اپنی جماعت کی پالیسی خلاف ووٹ دیا ہو۔ مولانا کا کہنا ہے انتخابات ہو جاتے ہیں نتائج کوئی اور مرتب کرتا ہے۔ مان لیا مولانا ٹھیک کہتے ہیں پر اس کا ذمہ دار کون ہے۔ سیاسی جماعتیں شفاف الیکشن کے انعقاد پر یکسو ہو جائیں تو کوئی طاقت انتخابات میں دھاندلی کی مرتکب نہیں ہو سکتی۔ گزشتہ انتخابات میں جو ہوا تمام سیاسی جماعتیں اس سے واقف ہیں۔ پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا ان کی جدوجہد کہاں ہے؟۔ آئین کے تحفظ کے لئے اپوزیشن جماعتوں نے اتحاد قائم کیا بلوچستان میں ایک جلسہ کرکے چپ سادھ لی۔ کسی مقصد کے حصول کے لئے سیاسی رہنمائوں اور ورکرز کو قربانیاں دینی پڑتی ہیں جس ملک کے عوام کو مفاد پرست سیاسی رہنمائوں سے واسطہ پڑا ہو ان کے ہوتے ہوئے کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ علیحدہ بات ہے پی ٹی آئی اور محمود اچکزئی نے آئین کے تحفظ کے لئے اتحاد بنایا جو سیاست کی نذر ہو گیا۔ کوئی مانے نہ مانے پی ٹی آئی میں قیادت کا فقدان ہے عمران خان کی جماعت کے رہنمائوں میں کسی ایک بات پر ہم آہنگی نہیں ۔ پی ٹی آئی کے بانی سے ملاقاتوں کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں تب جا کر ان سے ملاقاتیں ہوتی ہیں جس کی بنا سیاسی معاملات کے سلسلے میں پی ٹی آئی رہنمائوں میں یکسانیت کی کمی ہے۔ آئینی ترامیم کی آڑ میں حکومت نے آئین کے آرٹیکل 63اے میں ترمیم کی کوشش کی جس کا واحد مقصد آئینی ترامیم کے دوران پی ٹی آئی کے منحرف ارکان سے ووٹ لینا تھا تاہم مسلم لیگ حکومت نے اپنے سابقہ طریقہ کار کے مطابق ارکان اسمبلی کے ضمیر خرید کر آئینی ترامیم میں کامیابی حاصل کی۔ ہمیں اس بات کا افسوس ہے بعض ارکان اسمبلی فوجی عدالتوں کو ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ناگزیر سمجھتے ہیں سوال ہے انہیں اس موقع پر فوجی عدالتوں کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی جب سانحہ نو مئی میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں سمیت مرد و خواتین ورکرز جیلوں میں ہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں فوجی عدالتیں وقت کی ضرورت ہے سوال ہے فوجی عدالتوں سے دہشت گردی میں ملوث ساٹھ دہشت گرد جن کی موت کی سزائوں کے خلاف اپیلیں صدر مملکت سے بھی خارج ہو چکی نہیں ان کی سزائوں پر عمل درآمد کی بجائے مہمان بنا کر کیوں رکھا گیا ہی؟ تعجب ہے عمران خان کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہونے کے باوجود مقدمات کی سماعت سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو مقدمات ختم ہو سکتے ہیں لہذا بانی پی ٹی آئی کو جیل میں رکھنے کا بہتر طریقہ یہی ہے مقدمات کو زیر التواء رکھا جائے۔ عمران خان کے خلاف مقدمات کو زیر التواء رکھنے سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا عدالتوں پر کچھ نہ کچھ دبائو ضرور ہے ورنہ مقدمات کو زیر التواء رکھنے کا کوئی قانونی جواز نہیں۔ جیسا کہ سانحہ نو مئی میں پی ٹی آئی کے بانی کو شامل رکھا گیا ہے حالانکہ وہ زیر حراست تھا ۔ قانونی طور پر کوئی شخص زیر حراست ہو تو باہر ہونے والے کسی وقوعہ میں اسے ملوث نہیں کیا جاسکتا۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما دو باتیں پر اتفاق کر لیں تو ملک میں جمہوریت فروغ پا سکتی ہے انتخابات میں دھاندلی کسی صورت نہ ہونے دیں اور ووٹ دیتے وقت اپنے ضمیر کی سوداگری چھوڑ دیں تو ملک میں جمہوریت کا دور دورہ ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button