Column

معذور عدلیہ پر حملہ

محمد شہزاد اقبال
بدقسمتی سے وطن عزیز کے ابتدائی 25سال بغیر کسی آئین اور دستور کے گزرے۔ بالآخر 1973ء میں پاکستان کا اعلیٰ ترین قانون وجود میں آیا، جسے آئین پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ آئین وطن عزیز کے سیاسی ثقافت اور نظام کی رہنمائی کرتا ہے۔ ریاست کا خاکہ، آبادی کے بنیادی حقوق، ریاست کے قوانین ، احکامات، اداروں اور مسلح افواج کے ڈھانچے اور قیام کا روح رواں ہے۔ اس آئین میں جمہوریت، مساوات، رواداری، شخصی آزادی، اسلامی معاشرے کے قیام، اقلیتوں سے مساوی سلوک، بنیادی انسانی حقوق وغیرہ کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ آرٹیکل 83ڈی کے مطابق ریاست شہریوں کو بلا تفریق روٹی کپڑا اور مکان، تعلیم، طبی سہولیات جیسی بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے کی پابند ہے۔ آرٹیکل 52 واضع کرتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ آرٹیکل 73ڈی کے مطابق عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
ریاست پاکستان میں قانون کا نفاذ آئین کی رو سے سب کیلئے برابر ہے مگر یہاں امراء قانون سے بالاتر نظر آتے ہیں ، عوام بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے۔ 1973ء کے بعد اب تک 26بار آئین میں ترامیم کی جا چکی ہیں۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دی جانے والی دوسری آئینی ترمیم 1974ء اور ملکی سلامتی کی مخالف سیاسی جماعتوں کی بیخ کنی کرنے والی تیسری آئینی ترمیم 1975ء کے علاوہ کسی ایک بھی ترمیم میں بنیادی شہری حقوق کی فراہمی کیلئے بات نہ کی گئی۔ آئین میں چوتھی ، پانچویں ، چھٹی ، بارہویں ، انیسویں ، اکیسویں اور تیسویں ترامیم عدالتوں کی تقسیم ، چیف جسٹس صاحبان کی مدت ملازمت، اسلام ہائی کورٹ اور فوجی عدالتوں کے قیام تک محدود رہیں۔
آئین میں بارہ ترامیم یعنی ساتویں ، آٹھویں ، دسویں تیرہویں ، چودہویں ، سولہویں سترویں ، آٹھارویں ، بیسویں ،بائیسویں ، چوبیسویں اور پچیسویں ، ترامیم حکومتی ڈھانچے میں تغیرو تبدل ، وفاقی و صوبائی کابینہ میں اتار چڑھائو، صدر، وزیراعظم اور دیگر حکومتی عہدے داران کے اختیارات میں رد و بدل تک متحرک رہیں۔
شریعت کے نفاذ کے حوالے سے پیش کی جانے والی نویں، گیارہویں اور پندرہویں ترامیم کا کہیں حقیقی و عملی وجود نہیں ملتا۔
حیران کن طور پر آج تک اس آئین میں جو 26ترامیم کی جا چکی ہیں وہ حکمران اشرافیہ کے اقتدار اور اختیارات کے بارے میں ہیں اور کوئی ایک بھی ترمیم ایسی نہیں کی گئی جس کا مقصد عوام کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانا ہو۔
آئین کے آرٹیکل 7سے آرٹیکل 40عوام کے بنیادی حقوق کے بارے میں ہیں۔ عوام کے آئینی بنیادی حقوق خود آئین کے اندر ہی پابند سلاسل کر دئیے گئے ۔ آئین ایک ہاتھ سے شہریوں کو بنیادی حقوق دیتا ہے جبکہ دوسرے ہاتھ سے ان حقوق کو واپس لے لیا گیا ہے اور کوئی حکومت آئین کے بنیادی حقوق کے آرٹیکلز پر عمل درآمد کرنے کی پابند نہیں ہے۔
26ویں آئینی ترمیم میں عوامی توقعات کے برعکس حسب سابق شہری حقوق کو نظر انداز کرتے ہوتے ورلڈ رینکنگ میں 134ویں پوزیشن حاصل کرنے والی معذور عدلیہ پر حملہ کیا گیا۔ سینئر ترین جج صاحب کے بطور چیف جسٹس تعیناتی کا باب بند، اب مرضی کا چیف جسٹس منتخب کیا جائے گا۔ جی حضوری میں پیش پیش، وفاداری میں نمبر 1ہی اول انعام کا حقدار ٹھہرے گا۔
چیف جسٹس کے از خود نوٹس لینے کا اختیار بھی ختم، کسی ادارے سی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔
طاقتور با اختیار
’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button