ویکسی نیشن سے پولیو کا خاتمہ خواب، گندگی بھی صاف کرنا ہوگی
تحریر : محمد ناصر شریف
پاکستان میں پولیو کے پھیلائو میں دوبارہ شدت آ گئی ہے، امسال ملک میں اس بیماری کے 43کیس رپورٹ ہوچکے ہیں۔ بلوچستان میں پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 22تک پہنچ گئی ، سندھ میں 12اور خیبر پختونخوا میں 7بچے پولیو سے معذور ہوئے، اسی طرح پنجاب اور اسلام آباد سے بھی ایک ایک پولیو کیس رپورٹ ہوچکا۔ حکام کے مطابق پاکستان میں آئے روز پولیو کیس سامنے آرہے ہیں۔ سال کے آخر تک ان کی تعداد 50تا 60ہوسکتی ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان سے پولیو وائرس دنیا کے دیگر ممالک میں منتقل ہونے کا سنگین خطرہ موجود ہے۔ ملک میں ایک دفعہ پھر انسداد پولیو مہم جاری ہے، جس میں چار کروڑ 50لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو ویکسین پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، ملک بھر کے 159اضلاع میں بچوں کو انسداد پولیو قطرے پلائے جائیں گے۔ اس دوران ویکسی نیشن نہ کرانے اور ٹیموں پر حملوں کے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضلع اورکزئی میں پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس ٹیم پر حملے کے نتیجے میں 2اہلکار شہید ہو گئے جبکہ جوابی فائرنگ سے 3دہشتگرد مارے گئے ہیں۔ پولیو کی بنیادی وجہ انسانی خوراک کی نالی کے ذریعے جسم میں داخل ہونے والا وائرس ہے جسے عام طور پر پولیو وائرس کہتے ہیں۔ یہ وائرس انسانی فضلے اور منہ کے راستے سے پھیلتا ہے۔ پولیو وائرس منہ کے راستے سے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے اور انتڑیوں میں پھلنا پھولنا شروع کر دیتا ہے۔ اس وائرس سے متاثر لوگ اس وائرس کو ماحول میں خارج کر دیتے ہیں جہاں یہ کئی ہفتے رہ سکتا ہے اور خاص طور پر ایسے علاقوں میں جہاں صفائی کا خاص انتظام نہ ہو وہاں گلی محلے اور علاقے میں بھی پھیل سکتا ہے۔ پولیو کا یہ وائرس (Poliomyelitis)کسی بھی عمر کے انسان کو متاثر کر سکتا ہے لیکن یہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو نہ صرف مفلوج کر سکتا ہے بلکہ ان کی موت کا بھی باعث بن سکتا ہے۔
انسانی جسم میں وائرس کیخلاف مدافعت پیدا کرنا ایک پیچیدہ حیاتیاتی عمل ہے۔ ہم سب انسان ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور اسی طرح ہر نامیاتی جسم کا دوائی یا ویکسین پر مختلف ردِ عمل ہوتا ہے۔ کچھ بچے پانچ یا چھ بار پولیو ویکسین استعمال کرنے کے بعد اس کیخلاف مضبوط مدافعت پیدا کر لیتے ہیں جبکہ زیادہ کمزور بچے یہ مدافعت دس سے زیادہ بار ویکسین استعمال کرنے کے بعد پیدا کر پاتے ہیں۔ ایک کم وزن، ناقص خوراک پر پلنے والے بچے کا جسم جو کہ اسہال کا بھی شکار ہو، ایک صحت مند بچے کے جسم کی نسبت پولیو ویکسین پر مختلف ردِ عمل ظاہر کر سکتا ہے۔ اس لئے پولیو سے بچے رہنے کے لئے لازم ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے ہر بچے کو ویکسی نیشن کی مہم کے دوران ہر بار پولیو ویکسین کے قطرے پلوائے جائیں۔
منہ کے ذریعے دی جانے والی ویکسین او پی وی کہلاتی ہے۔ یہ محفوظ اور موثر ہے اور اسے کئی بار دیا جاسکتا ہے۔ یہ پولیو وائرس کیخلاف لمبے عرصے تک تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ویکسی نیشن کے کئی ہفتے بعد پولیو وائرس انتڑیوں میں ایک بار پھر بڑھنا شروع ہوجاتا ہے اور پاخانے کے ذریعے خارج ہوکر قریبی دوسرے بچوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے علاقوں میں جہاں صحت و صفائی کی صورتحال تسلی بخش نہ ہو، او پی وی ویکسین کا دیا جانا ان لوگوں کے لئے موثر بنتا ہے جنہیں ویکسین نہ دی گئی ہو۔ آئی پی وی ویکسین بچوں کو پولیو سے بچانے کے سلسلے میں بہت حد تک محفوظ اور انتہائی موثر ہے۔ یہ انسانی خون میں پولیو وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا کرتی ہے اور او پی وی کے برعکس، آئی پی وی میں لوگوں میں پولیو وائرس کا پھیلائو روکنے کی صلاحیت نسبتاً محدود ہے۔ پولیو وائرس کی وجہ سے ہونے والی ایک موذی بیماری ہے، پولیو زندگی بھر کیلئے معذوری کا باعث بنتی ہے اور جان لیوا بھی ہوسکتی ہے، اس کیلئے کوئی علاج دستیاب نہیں ہے مگر اس سے ویکسین کی مدد سے بچا جاسکتا ہے۔ گو کہ ہر شخص کیلئے یہ خطرہ موجود ہے، لیکن پولیو زیادہ تر پانچ سال سی کم عمر کے ایسے بچوں کو متاثر کرتا ہے جنہیں پولیو سے بچائو کے قطرے نہ پلائے گئے ہوں۔ پولیو کے اثرات میں سے اول یہ کہ پولیو سے متاثر ہونے والے ہر200افراد میں سے ایک مریض ناقابل علاج فالج ( عموماً ٹانگوں میں )کا شکار ہوجاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر فالج کا شکار ہونیوالوں میں سے 5سے 10 فیصد وائرس کی وجہ سے اپنے سانس کے پٹھوں کی حرکت بند ہوجانے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ سوئم یہ کہ پولیو ٹانگوں اور بازوئوں کو مفلوج کرنے کی وجہ بنتا ہے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اور یہ بچوں کو زندگی بھر کے لئے معذور بنا دیتا ہے۔ کچھ مریضوں میں جب وائرس سانس لینے کے عمل کو مفلوج کر دے تو پولیو موت کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ منہ کے ذریعے دی جانے والی ویکسین ( او پی وی) محفوظ ہے اور اسے دنیا بھر کے اسلامی قائدین حلال قرار دے چکے ہیں جن میں جامعہ الازہر کے شیخ الاعظم طنطاوی، سعودی عرب کے مفتی اعظم اور مجالس کونسل آف علما انڈونیشیا کے جید علما کرام شامل ہیں۔ او پی وی کو محفوظ اور حلال قرار دینے والے دیگر اہم بین الاقوامی اسلامی اداروں میں دارالعلوم دیوبند، آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس، انٹرنیشنل یونین فار مسلم سکالرز ( مفتی ڈاکٹر یوسف القرضاوی)، امام مسجد الاقصیٰ ( بیت المقدس) اور کئی دیگر جید علمائے کرام و مفتیانِ کرام شامل ہیں جن کا تعلق مختلف مسالک اور پاکستان کے مختلف صوبوں سے ہے۔ سعودی عرب کی حکومت نے پولیو کا شکار اسلامی ممالک کے ہر عمر کے ان لوگوں کے لئے پولیو ویکسین کے قطرے پینا لازمی قرار دیا ہے جو حج کا سفر کر رہے ہوں۔
ادھر پاکستان کے 62اضلاع سے حاصل کردہ 266ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔ سندھ کے 114، بلوچستان کے 93، خیبر پختونخوا کے 31اور پنجاب کے 22ماحولیاتی نمونوں میں وائرس کی نشاندہی ہوئی۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پانچ اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے لئے گئے ایک ماحولیاتی نمونے میں یہ وائرس ملا ہے۔ نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر ( این ای او سی) کے رابطہ کار کیپٹن ( ر) محمد انوار الحق نے بتایا کہ انسداد پولیو مہم میں سیکیورٹی ایک چیلنج ہے، لیکن سیکیورٹی کے مسائل صرف دو چار فیصد علاقوں میں ہیں باقی مسائل آپریشن بیسڈ ہیں کہ بعض اوقات انسداد پولیو ٹیمیں علاقے میں پہنچ نہیں پاتیں۔ کچھ جگہوں پر ٹیمیں جاتی ہیں لیکن ان میں کچھ کالی بھیڑیں قطرے نہیں پلاتیں اور بچوں کی انگلی پر کالا نشان لگا دیتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ جگہوں پر امن و امان کی صورت حال درپیش ہے جس کی وجہ سے مہم چل نہیں پاتی، جب مہم نہیں ہوتی تو بچے وائرس کا شکار ہوتے ہیں۔ انوار الحق کا کہنا تھا کہ پولیو کے پھیلائو میں ایک عنصر ہمسایہ ملک افغانستان سے آمد و رفت بھی ہے۔ وہاں سے وائرس ادھر آتا ہے اور ہمارے ہاں سے ادھر جاتا ہے، کیونکہ ایک ہی بلاک ہے، لوگوں کی آمد و رفت ہے۔ این ای او سی سندھ کی ترجمان ڈاکٹر شمائلہ کے مطابق ایک اور چیلنج یہ ہے کہ کچھ برادریاں خود ہی بچوں کی انگلیوں پر نشان لگا لیتی ہیں۔ وہ انسداد پولیو ٹیمز کے ساتھ تعاون نہیں کرتیں، انہیں معلومات فراہم نہیں کرتیں، دروازہ نہیں کھولتیں۔ایک طرف پولیو ویکسی نیشن مہم کے دوران ورکرز سے تعاون کا مسئلہ اور بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا مسئلہ درپیش ہے، جس کیلئے ابھی تک حکومتوں نے کوئی موثر مہم نہیں چلائی ۔ اس معاملے پر بھی غور کرنا چاہیے اسپتالوں میں بچوں کی پیدائش کے دوران لگنے والے حفاظتی ٹیکوں میں پولیو ویکسی نیشن کو اس طرح کیوں نہیں شامل کیا جاتا کہ آپ کو کثیر سرمائے سے پورے ملک میں ایک بڑی مہم چلانی پڑتی ہے یہ تو بنیادی نوعیت کا کام ہے جو بچوں کو پیدائش کے فوری بعد شروع ہوجانا چاہیے، ملک میں گھروں میں بچوں کی پیدائش کا عمل تقریبا ختم ہوچکا ہے اب بچے کسی نہ کسی اسپتال ہی میں پیدا ہوتے ہیں، محکمہ صحت جو وفاق میں بھی ہے اور صوبائی سطح پر بھی یہ محکمہ بظاہر فعال ہے تو یہ اسی وقت بچوں کی رجسٹریشن اور ان کی ویکسی نیشن کی ذمے داری کیوں نہیں اٹھاتا کہ ان کو بعد میں اتنی بڑی مہم ہر چند ماہ بعد چلانی پڑتی ہے۔دوسرا یہ کہ ملک میں جہاں دیکھو گندگی اور غلاظت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ، پولیو فضلے اور گندگی میں پنپنے اور اس سے پھیلنے والا مرض ہے۔ ہمارا تو دین بھی صفائی کو نصف ایمان قرار دیتا ہے لیکن قوم اور ہمارے متعلقہ ادارے کہیں بھی اپنی ذمے داریاں ادا نہیں کر رہے ہیں، ہمارے گھر تو صاف ہوں لیکن گھر سے باہر راستوں میں گندگی و آلودگی کا طوفان برپا ہے کہ اس سے پولیو سمیت متعدد امراض جنم لے رہے ہیں۔ گندگی مہلک امراض کے وائرسز کی افزائش کا بڑا ذریعہ ہے اور ہم اس معاملے میں خودکفیل بھی ہیں اور بیرونی ممالک کو اس امراض کی برآمدات کا ذریعہ بھی ہیں۔ جب تک ہم ملک میں موجود گندگی کے ڈھیروں کی صفائی اور آلودگی کو ختم نہیں کریں گے۔ اپنی گزرگاہوں، گلیوں، محلوں ، علاقوں کو صاف ستھرا نہیں رکھیں گے اس وقت تک صرف ویکسی نیشن سے پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں ہی۔